کراچی شیرٹن ہوٹل دھماکے کو 11 سال بیت گئے مجرم نہ پکڑے جاسکے

ڈی ایس پی کی سربراہی میں مقدمے کی تفتیش اتنی سطحی کی گئی کہ عدالتوںکے پاس ملزمان کی رہائی کے سواکوئی چارہ نہ تھا


Staff Reporter October 14, 2013
کراچی :8مئی 2002 کو شیرٹن ہوٹل کے باہردھماکے میں تباہ ہونے والی فرانسیسی بحریہ کے اہلکاروں کی بس کا معائنہ کیا جارہا ہے۔ فوٹو: فائل

شیرٹن بم دھماکے سے نہ صرف عالمی برادری میں پاکستان کاتشخص مجروح ہوابلکہ معیشت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔

اس کے ساتھ ساتھ دھماکے نے دہشت گردی سے نمٹنے کیلیے پولیس سمیت دیگر ریاستی اداروں کی صلاحیتیں بھی بے نقاب کردیں۔ 2002 میں ہونے والی دہشت گردی کی اس واردات میں ہلاک ہونیوالے 13میں سے 11فرانسیسی انجینئرتھے جو پاکستان کے دفاع کیلیے انتہائی اہم آگسٹا آبدوز تیار کرنے کراچی آئے ہوئے تھے،ڈی ایس پی فاروق اعوان کی سربراہی میںاس مقدمے کی تفتیش اتنی سطحی کی گئی کہ عدالتوںکوملزمان کی رہائی کے بغیرکوئی چارہ نہ تھا، کراچی پولیس نے اس مقدمے میں کالعدم حرکت المجاہدین العالمی کوملوث قرار دیتے ہوئے2ملزمان کو گرفتار کیا جن میں سے ایک رکشاڈرائیور کا بیٹا تھا جبکہ اسی مقدمے کے سلسلے میں جب فرانس میں تحقیقات کی گئیں تومعیار اس قدر بلند تھاکہ وہاں کے صدر سرکوزی سے بھی پوچھ گچھ کی گئی۔



کراچی پولیس نے ملزمان رضوان اورظہیرآصف کو گرفتار کرکے ان کیخلاف مقدمہ تیار کیا اور ظفر نامی شخص کوعینی شاہدکے طور پر پیش کیا،پولیس کے مطابق گواہ نے ڈیفنس کے علاقے میں ان دونوں افراد کو صبح 5 بجے اس وقت دیکھاتھا جب وہ سائیکل پر ڈبل روٹیاں بیچنے نکلاتھا، انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے ملزمان کو پھانسی کی سزاسنائی تھی تاہم ہائیکورٹ میں وکیل صفائی محمد فاروق نے پولیس کی کہانی کا تیاپانچہ کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ 8مئی 2002کو رمضان المبارک کامہینہ تھا، عام آدمی سحری کرکے سو رہا تھا، اس وقت ڈبل روٹی کاکوئی خریدار نہیں ہوتا،ملزمان نے بھی یہ موقف اختیارکیاکہ انھیں جھوٹے مقدمے میں ملوث کیاگیا ہے کیونکہ مشرف دورمیں جہادی تنظیموں سے تعلق رکھنے کا الزام عائد کرکے ترقی حاصل کرناپولیس افسران کی پالیسی تھی، انھیں بھی اسی پالیسی کے تحت گرفتارکیاگیاہے۔

عینی شاہد اور جبرکے ذریعے اقبالی بیان حاصل کرنے کے علاوہ پولیس کے پاس کوئی فارنسک یاسائنسی شہادت نہیں تھی ، اقبالی بیان کوبھی وکیل صفائی نے مشکوک قراردیاکہ یہ عدالتی وقت کے بعد ریکارڈ کیا گیا تھا، سندھ ہائیکورٹ کی جسٹس محترمہ قیصراقبال اور جسٹس محمود عالم رضوی پرمشتمل2رکنی اپیلیٹ بینچ نے ملزمان کوشک کا فائدہ دیتے ہوئے رہا کردیاجبکہ فرانس میں تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ یہ واردات فرانس اور پاکستان کی اعلی سیاسی اوردفاعی قیادت میں پاکستان نیوی کوآبدوزوں کی فراہمی میں کمیشن کے تنازع کے باعث وقوع پذیرہوئی تھی، پاکستان کے کچھ مقتدر حلقوں نے مطلوبہ کمیشن نہ ملنے پر فرانسیسیوں کو قتل کرکے اپنے ناراضی کا اظہار کیاتھاجبکہ آبدوزوں کے اس سودے میں کمیشن کی مدمیں ملنے والی رقم فرانسیسی صدرکی انتخابی مہم میں استعمال کی گئی،اس طرح ناقص تفتیش کی وجہ سے 10 سال پہلے شروع ہونے والی دہشت گردی کا سلسلہ اب بھی پورے ملک میں جاری ہے اورہزاروں پاکستانی فوجی اور شہری اس کانشانہ بن چکے ہیں۔

مقبول خبریں