فالج سے بچاؤ، علاج اور بحالی کے لیے کیا کریں؟

ڈاکٹر عبدالمالک  جمعرات 31 اکتوبر 2019
پاکستان میں تقریباً دس لاکھ لوگ فالج کے باعث کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں

پاکستان میں تقریباً دس لاکھ لوگ فالج کے باعث کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں

فالج ایک ایسا مرض ہے جو چلتے پھرتے انسانی جسم کو مفلوج کرکے روزمرہ کے معمولات کو ادا کرنے سے قاصر کردیتا ہے۔ اِس مرض میں شریانوں میں خون کا لوتھڑا جم جانے سے جب خون کا دباؤ بڑھتا ہے تو مریض پر فالج کا حملہ ہوتا ہے۔

طبی اصطلاح میں فالج کا شمار نان کمیونی کیبل ڈزیزز (Non communicable diseases) یعنی غیر متعدی امراض میں کیا جاتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں ایسے امراض کی شرح تقریباً چالیس فیصد سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔

پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق تقریباً دس لاکھ لوگ فالج کے باعث کسی نہ کسی حوالے سے معذوری کا شکار ہیں۔ یہ بیماری ایک جانب تو خود مریض کے لیے تکلیف کا باعث ہوتی ہی ہے دوسری طرف مریض کی دیکھ بھال اور نگہداشت کا طویل اور صبر آزما مرحلہ بھی گھر والوں کو درپیش ہوتا ہے۔اس بناء پر مریض کے ساتھ ساتھ اس کے گھر والے بھی سخت پریشانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

اس بیماری سے آگاہی، علاج اور تدارک کی کوششوں کے سلسلے میں29اکتوبر کو ’عالمی سٹروک ڈے‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کو پاکستان میں منانے کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ یہاں عمومی طور پر فالج کو ایک ایسی بیماری سمجھا جاتا ہے جس کا کوئی علاج نہیں، حالانکہ یہ تاثر بالکل غلط ہے۔

موجودہ دور میں طب کے شعبے نے جہاں دیگر حوالوں سے علاج کی نئی منزلیں دریافت کی ہیں، وہیں فالج کے علاج میں بھی خاصی پیش رفت ہوئی ہے۔ آج یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ فالج سے نہ صرف حفاظتی تدابیر اختیار کر کے محفوظ رہا جا سکتا ہے بلکہ اس کا انتہائی مؤثر علاج بھی ہمارے ہاں دستیاب ہے۔

اگرچہ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ فالج کے علاج معالجے کی سہولیات کس قدر عوام کو میسر ہیں۔ اس معاملے میں حکومتی سطح پر بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے تاکہ عوام کو فالج کا معیاری اور سستا علاج ہر بڑے ہسپتال میں میسر آسکے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دل کے دورے کی طرح بدقسمتی سے فالج کے دورے کو میڈیکل ایمرجنسی کے طور پر قبول ہی نہیں کیا جا تا۔ اکثر افراد اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ فالج کے بعد فوری طور پر علاج معالجے سے مریض کی بحالی، موت سے حفاظت یا مستقل معذوری کے امکانات کو خاصا کم کیا جا سکتا ہے۔

فالج کے ماہر ڈاکٹرز کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ چند ایک مثالوں کے علاوہ سرکاری و پرائیویٹ ہسپتالوں میں کہیں بھی فالج کے مریضوں کی تشخیص، علاج اور بحالی کے لیے یونٹس قائم نہیں ہیں۔ تھرامبولائسز یعنی کلاٹ (CLOT) بسٹنگ دوا جو کہ فالج کے علاج کی عالمی طو رپر مروجہ دوائی ہے، جو جمے ہوئے خون کی روانی بحال کرنے میں نہایت معاون ہے، وہ تمام تر کوششوں کے باوجود پاکستان میں تاحال رجسٹرڈ ہی نہیں ہو سکی۔ فالج کے مریض کو دیکھنے والے طبی عملے میں تربیت کا شدید فقدان ہے۔

بطور ڈاکٹر میں سمجھتا ہوں کہ آنے والے دنوں میں ہمارے ملک میں فالج کی بیماری میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے جس کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہے۔ عوام میں اس حوالے سے آگاہی کی کمی، ملک میں فالج سے بچاؤ اور علاج کے لیے مناسب سہولیات کا نہ ہونا، تربیت یافتہ طبی عملے کا نہ ہونا اور مضمرات جاننے کے باوجود تمباکونوشی، گٹکا، نسوار وغیرہ کا استعمال اس کی نمایاں وجوہات ہیں۔ اس کے علاوہ موجودہ مشینی دور میں جسمانی مشقت نہ کرنے والے لوگ جب ورزش نہیں کرتے اور ایک جامد قسم کی زندگی گزارتے ہیں تو یہ فالج کے لیے آسان ہدف ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ زیادہ چکنائی والی اشیاء کا استعمال بھی اس بیماری کی وجوہات میں شامل ہے۔

فالج کی شرح میں اضافے کو روکنے کے لیے ذیل میں 12نکاتی ایجنڈا ہوناچاہئے۔ اسے فالج سے بچاؤ اور اس کے علاج کا منشور بھی کہا جا سکتا ہے:

1۔ فالج کے آثار و علامات کے بارے میں مقامی زبانوں میں آگاہی مہمات۔

2۔ فالج کو بطور طبی ایمرجنسی تمام ہسپتالوں میں نافذ کرنا۔

3۔ تمام Tertiary careہسپتالوں میں فالج کئیر یونٹ کا قیام ۔

4۔ تمام یونٹس میں معیاری طبی ساز و سامان ،تربیت یافتہ طبی سٹاف کی فراہمی اور معیار کو برقرار رکھنے کے طریقہ کار کا موجود ہونا۔

5۔ تھرامبو لائسز ، کلاٹ بسٹنگ دوا کی رجسٹریشن ۔

6۔ فالج کے دورے کی صورت میں مریض کو ایمرجنسی رسپانس سہولت۔

7۔ تربیت یافتہ سٹروک اسپیشلسٹس (Stroke Specialists)کی تعداد میں اضافے کی حکمت عملی۔

8۔ فالج کے مریضوں کے لیے سی ٹی سکین سے آراستہ ایمبولینس، ٹیلی میڈیسن کی سہولت اور عملے کی تربیت کے جامع پروگرام۔

9۔ فالج کے مریضوں کی بحالی کے لیے قلیل المدت و طویل المدت پروگرام اور گھر پر علاج و بحالی کے لیے تربیت یافتہ طبی عملے کی سہولت۔

10۔ فالج کا سبب بننے والے عوامل بشمول تمباکونوشی، حقہ، بیڑی، شیشہ، گٹکا، نسوار بجار، پان ، مشری اور گھنڈی وغیرہ پر مکمل پابندی اور عمل درآمد۔

11۔ فالج کے مریضوں کی نگہداشت و نگرانی کے لیے حکومتی سطح پر ماہرین کی معاونت و مشاورت سے روڈ میپ ۔

12۔ مریضوں کا قومی سطح پر ریکارڈ مرتب اعدادوشمار جمع کرنے ، ان مریضوں کے فالج کی طبی قسم، عوامل اور وجوہات کو جاننے کے لیے قومی فالج ڈیٹا بیس رجسٹری کا قیام۔

درج بالا اقدامات کے ذریعے فالج کے مرض سے بچاؤ ، معیاری علاج اور مریضوں کی بحالی کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں ایک اندازے کے مطابق 10فیصد سے بھی کم مریض فالج کے دو گھنٹوں کے اندر ہسپتال پہنچتے ہیں یا لائے جاتے ہیں۔جبکہ فالج ہونے کی صورت میں ہر گزرتا لمحہ مریض کے لیے تکلیف اور معذوری کے امکانات کو بڑھاتا رہتا ہے۔

اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ فالج کے شدید حملے میں ہر ایک منٹ میں دماغ کے 2ملین خلیات مر جاتے ہیں۔اس لیے جہاں ایک طرف فالج سے بچاؤ ، دورے کی صورت میں فوری علاج اور بحالی سے متعلق ہر فرد کو آگاہی فراہم کرنا ضروری ہے وہیں حکومت کو چاہیے کہ فالج کو ایک فوری طبی ایمرجنسی (ہنگامی حالت) قرار دے کر تمام بڑے ہسپتالوں کو اس بات کا پابند کرے کہ وہ فالج کے علاج کے لیے تمام مطلوبہ سہولیات و طبی سازو سامان کی دستیابی یقینی بنائیں۔اس ضمن میں سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ تمام بڑے ہسپتال ،جنہیں Tertiary careہسپتال کہا جاتا ہے، میں لازمی طور پر فالج کئیر یونٹ کا قیام عمل میں لایا جائے۔ تاکہ فالج کے نتیجے میں اموات و معذوری کی شرح میں کمی لائی جا سکے۔

اس کے علاوہ جس مسئلے پر توجہ دی جانی چاہیے وہ تربیت یافتہ سٹروک اسپیشلسٹس (Stroke Specialists)کی کمی پر قابو پانا ہے۔ اس وقت ملک بھر میں Stroke Specialists کی تعداد 2درجن بھی نہیں ہے اور وہ بھی صرف دو تین شہروں میں نجی ہسپتالوں میں ہی دستیاب ہیں۔دوسری جانب ماہرین دماغ و اعصاب یعنی نیورولوجسٹ کو دیکھا جائے تو 22کروڑ کی آبادی کے اس ملک میں وہ بھی صرف 200کے لگ بھگ ہیں۔

ماہرین ڈاکٹرز کی اس کمی سے بہرحال فالج کے علاج میں دقت ضرور ہے ۔ جس کا نتیجہ ہے کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق فالج کے کم از کم 35فیصد مریض جبکہ چھوٹے فالج (جسے TIA کہتے ہیں) کے 50فیصد سے زائد مریض بروقت تشخیص سے محروم رہ جاتے ہیں اور نتیجتاً فالج کے مرض میںمبتلا مریضوں کی مشکلات و طبی پیچیدگیوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس صورتحال میں PMDC اس بات کو یقینی بنائے کہ شعبہ نیورولوجی کی پوسٹ گریجویٹ ڈگری رکھنے والے نیورولوجسٹ کو کم از کم ایک سال کے لیے فالج یعنی سٹروک فیلو شپ میں تربیت کے لیے پبلک سیکٹر نیورولوجی ڈیپاٹمنٹس میںرکھا جائے۔

اس کے علاوہ فالج کے علاج معالجے کے لیے کامیاب پروگرام ایمبولینس میں سی ٹی سکین اور ٹیلی میڈیسن کی سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ سٹاف کی مناسب تربیت سے بھی مشروط ہے۔تاکہ وہ مریضوں کی علامات کی بنیاد پر فوری طبی سہولیات کے لیے ٹھیک ہسپتال لے کر جا سکیں۔مزید برآں ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد مریضوں کی جلد بحالی کے لیے بہتر معاونت ،مناسب دیکھ بھال ، ضروری طبی سازو سامان کی دستیابی اور مسلسل خیال رکھنے جیسے اقدامات کے ذریعے ان افراد کو معاشرے کا سود مند حصہ بنایا جا سکتا ہے۔

قومی فالج ڈیٹا بیس رجسٹری کے قیام کی تجویز فالج کے مریضوں کے لیے قومی سطح پر اعدادوشمار جمع کرنے ، ان مریضوں کے فالج کی طبی قسم، عوامل اور وجوہات کو جاننے کے لیے انتہائی مددگار ثابت ہوگی۔ اس کے ذریعے فالج کی بیماری کی وجوہات و دیگر عوامل پر قومی صحت پالیسی میں اقدامات تجویز کیے جا سکیں گے۔ مرکزی حکومت کو چاہیے کہ وہ صوبائی حکومتوں کے تعاون سے قومی ٹاسک فورس تشکیل دے جس میں ماہرین طب کو بھی شامل کیا جائے۔ اس ٹاسک فورس کو یہ ذمہ داری دی جائے کہ وہ ملک میں نیشنل سٹروک رجسٹری کا قیام عمل میں لائے۔

انسانی معذوری کا سب سے بڑا سبب بننے والی یہ بیماری فالج ہمارے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اس کی شرح میں تیزی سے اضافے کو روکنے کے لیے سرکاری سطح پر ہی اقدامات کافی نہیں بلکہ لوگوں کا اپنے طرزِ زندگی میں تبدیلی لانا بھی بہت ضروری ہے۔فالج کے حوالے سے آگہی، علاج اور تدارک کے لیے عام لوگوں میں شعور بیدار کرکے ان امراض میں اضافے کی شرح کے نتیجے میں ہونے والی اموات پر قابو پانا ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔

تمام ترقی یافتہ ممالک میں بڑے پیمانے کی آگاہی مہمات کی بدولت شہریوں میں ان جان لیوا بیماریوں (فالج /دل کا دورہ) سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر نے انہیں کنٹرول کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ہمارے ہاں بھی ان آگاہی مہمات کی ضرورت و اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ اگر فالج کا بروقت و مناسب علاج کیا جائے تو نہ صرف جانیں محفوظ ہوں گی بلکہ مستقل معذوری سے بچاؤو دیکھ بھال کے اضافی اخراجات کی بھی بچت ہو گی۔ چونکہ فالج کے علاج کا خرچہ اقتصادی بوجھ سے منسلک ہے لہٰذا معاشی بوجھ کی بھی کمی ہو گی۔

(ڈاکٹر عبدالمالک، ایسوسی ایٹ پروفیسر و ماہر امراض دماغ و اعصاب ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔