وبائی امراض حیاتیاتی ہتھیار کا نتیجہ ہوسکتے ہیں، ماہرین

اسٹاف رپورٹر  جمعرات 14 نومبر 2019
امراض کی روک تھام میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں ناکام ہوچکیں، ڈاکٹر فرحان عیسی۔ فوٹو: فائل

امراض کی روک تھام میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں ناکام ہوچکیں، ڈاکٹر فرحان عیسی۔ فوٹو: فائل

کراچی: پاکستان بھر میں تیزی سے پھیلنے والے وبائی امراض نے طبی محققین کوتشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

ماہرین نے خدشہ ظاہرکیا ہے کہ وائرس کے ذریعے پھیلنے والی بیماریاں پاکستان کے خلاف کسی حیاتیاتی ہتھیارکا نتیجہ بھی ہوسکتی ہیں۔ کراچی کے ہیلتھ رپورٹرزکوملک بھر میں اچانک پھیلنے والے مختلف وائرسوں کے حوالے سے تربیتی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے مائیکروبیالوجسٹ اور انفیکیشن ڈیزیزکے ڈاکٹر فرحان عیسی کا کہنا تھا ملک میں ڈینگی سمیت دیگر وائرس اچانک حملہ آورہوئے ہیں جن کی شدت میں ہولناکی آرہی ہے.

شہر قائدکے عوام کانگووائرس، نگلیریا،ڈینگی، چکن گنیا اورملیریا سمیت دیگروائرسوں کے زد میں ہیں۔ وفاق اور صوبائی حکومت کی جانب سے عوام کو ان امراض سے محفوظ رہنے اور فزیشن کوعلاج کیلیے بھی کوئی گائیڈ لائن فراہم نہیں کی جارہی۔

کراچی میں رواں سال کے دوران ڈنگی سے34،کانگوائرس سے19 نگلیریا سے20، ریبیزوائرس سے22 افراد کی ہلاکتیں سامنے آگئی ہے جبکہ سندھ میں ڈنگی وائرس سے15ہزارافراد کے متاثر ہونے کی رپورٹ ہے۔

انھوں نے بتایا کہ صرف 10فیصد افراد کے ڈنگی وائرس سے متاثر ہونے کی رپورٹ سامنے لائی جارہی ہے 90فیصد پرائیویٹ اسپتالوں میں ڈنگی وائرس سے متاثر یا اموات کی رپورٹ سامنے نہیں لائی جاتی جو ایک خطرناک علامت ہے۔

ڈاکٹر فرحان عیسی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں رواں سال کے دوران مختلف بیماریوں اور وائرسوں میں اچانک ہولناک اضافہ ہوا ہے جس پر ماہرین تحقیق کواس بات پر شبہ ہے کہ کہیں پاکستان میں ان وائرسوں کو حیاتیاتی ہتھیارکے طورپر استعمال تو نہیں کیا جارہا کیونکہ امسال ان وائرسوں کی شدت اوراضافے میں غیر معمولی اضافہ سامنے آرہا ہے لیکن ان بیماریوں کی روک تھام کیلیے وفاقی اور صوبائی حکومتیں مکمل ناکام نظر آرہی ہیں۔

18ویں ترمیم کے بعدمحکمہ صحت جزوی طورپر کام کررہا ہے جبکہ صوبہ سندھ میں پبلک صحت کا شعبہ بھی عملا ختم کردیاگیا ہے۔ ملک میں متاثرہ عوام کوعلاج ومعالجے کیلیے کوئی گائیڈ لائن بھی فراہم نہیں کی جارہی، یہی وجہ ہے کہ عام بخارمیں مریض اینٹی بایوٹک ادویات استعمال کررہے ہیں اورغیر ضروری اینٹی بایوٹک کے استعمال سے مرض میں مزید پیچیدگیاں سامنے آرہی ہیں جبکہ ڈینگی وائرس میں غیر ضروری طور پر اینٹی بایوٹک کا استعمال پلیٹ لیٹس کو مزیدکم کردیتا ہے۔

انھوں نے کہاکہ اب طبی تحقیق کرنے والے ماہرین اس بات پر غورکررہے ہیں کہ ملک میں اچانک مختلف وائرسوں کے رونما ہونے کے پیچھے حیاتیاتی ہتھیارتو نہیں؟ لیکن پاکستان میں ایسا کوئی ادارہ نہیں جوان کی مانیٹرنگ کرے، ملک میں سینٹرل انفارمیشن ڈیزیز سینٹر قائم نہیں کیاجاسکا۔ گزشتہ 10سال کے دوران مختلف امراض نے دوبارہ سر اٹھالیا ہے جبکہ موجودہ بیماریوں اور وائرسوں کی شدت میں ہولناک اضافہ بھی ہورہا ہے ۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔