کچھ زادگان اور زدگان کے بارے میں
غور سے دیکھا جائے تو ہمارا ہر کالم ان ہی دو سے ایک کے نام ہوتا ہے۔
اپنے ایک بہت ہی پرانے، لگ بھگ پنتالیس سال سے قاری نے خط کے ذریعے کچھ زدگان اور زادگان کے بارے میں اظہار خیال کرنے کو کہا ہے حالانکہ غور سے دیکھا جائے تو ہمارا ہر کالم ان ہی دو سے ایک کے نام ہوتا ہے کیونکہ پاکستان میں ان ''دو'' کے سوا اور رہا ہی کیا ہے۔ جس طرح محکمہ موسمیات کے مطابق یا تو بارش ہو گی اور یا بارش نہیں ہو گی کا سلسلہ ہے، اسی طرح آپ پاکستان کے کسی بھی آدمی پر ہاتھ رکھئے تو وہ یا تو کوئی ''زادہ'' ہو گا ورنہ ''زدہ'' تو ہوتا ہی ہے درمیان میں اور کوئی صورت ہے ہی نہیں
مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سُوئے دار چلے
اگر کوئی خود کو ''زدگان'' میں سے نکالنا چاہتا ہے تو اسے لازماً زادگان کی صف میں جا کھڑے ہونا ہو گا، دونوں صفوں کے درمیان کوئی دوسرا مقام کھڑے ہونے کا نہیں ہے، اگر کسی کا دل نرم ہے وہ ''زادگان'' میں شامل ہونا نہیں چاہتا تو پھر اسے ''زدگان'' میں سے ہونا ہو گا، یہ تو ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی یہ بھی نہ ہو اور وہ بھی نہ ہو، اعتدال، نیوٹرل ازم اور درمیانی صورت ہر جگہ ہو سکتی ہے جیسے مرد اور عورت کے درمیان تیسری جنس ایک درمیانی صورت ہے۔ میٹھے اور کڑوے کے بیچ ''پھیکا پن'' ایک صورت ہے ،کالے اور سفید کے بیچوں بیچ بھورا رنگ اور ایک درمیانی صورت ہو سکتی ہے لیکن زادگان اور زدگان میں درمیانی صورت کوئی نہیں ہو سکتی ۔۔۔ انسان کے صرف دو ہاتھ ہوتے ہیں، ایک اوپر والا دوسرا نیچے والا ۔۔۔ تیسرا ہاتھ ہے کہاں جو ان دونوں کے درمیان آ جائے،
ساتھ دونوں کو اسی راہ پر چلنا ہو گا
عشق میں رہزن و رہبر نہیں دیکھے جاتے
زادگان صرف وہ نہیں جن کا نام زادوں کا ہو، جیسے صاحبزادگان، شہزادگان، امیر زادگان، وزیر زادگان، پیر زادگان، اخوند زادگان وغیرہ بلکہ جدید پاکستان میں ''زادہ'' ہونے کی اور بھی بے شمار صورتیں ہیں ۔۔۔ مثلاً جب شمالی علاقہ جات میں زلزلہ آیا ۔۔۔ یا گزشتہ سالوں سیلاب آیا تھا ۔۔۔ ان میں جو زلزلے اور سیلاب کے زدگان کے لیے جو مال و متاع آیا اسے جن جن لوگوں نے ہڑپ کیا وہ زادگان ہی کہلائے جائیں گے مثلاً گھر زید کا گر گیا تھا لیکن معاوضہ بکر کو مل گیا ۔۔۔ کیوں کہ کاغذات مال میں مکان کے نیچے والی زمین اس زادے کے نام تھی، اب دنیا کی کوئی طاقت یہ ثابت نہیں کر سکتی کہ زادے کی زمین تو اپنی جگہ موجود ہے گھر تو وہ تھا جو اس کے اوپر بنا تھا لیکن یہ کس قانون کے ذریعے ثابت ہو گا کہ گھر اس کا تھا حتیٰ کہ اگر وہ خود بھی اس میں خرچ ہو گیا ہو یا دو چار بچے بھی بہہ گئے یا دب گئے تھے تو زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ زادے کی زمین پر کوئی غیر قانونی کام کر رہے ہوں گے، اگر زادہ کچھ زیادہ ہی زادہ ہو گا تو وہ یہ بھی ثابت کر سکتا ہے کہ یہ لوگ زادے کی زمین چوری کر رہے تھے لیکن زد میں آ کر زدہ ہو گئے کیوں کہ آفت تو ایک تیر ہے
ناوک انداز جدھر دیدۂ جانان ہوں گے
نیم بسمل کئی ہوں گے کئی بے جاں ہوں گے
زادگان اور زدگان میں ایک واضح فرق یہ بھی ہے کہ ''زادگان'' کے باقاعدہ نام ہوتے ہیں مثلاً خان زادہ، ملک زادہ، ریئس زادہ فلاں صاحب لیکن زدگان کے نام ہر گز نہیں ہوتے، ان کا ذکر صرف ہندسوں میں ہوتا ہے اتنے مرے اتنے دبے اتنے بہے اور اتنے گھائل ہوئے بلکہ کبھی کبھی ہندسوں میں بھی شمار نہیں ہوتے مثلاً بقول خلیل جبران ۔۔۔ ایک جگہ دریا پر ایک پل تعمیر ہوا، اس پر جو تختی لگی اس کے مطابق بادشاہ حضور جناب فلاں ابن فلاں کے دور میں یہ پل تعمیر ہوا حالانکہ بادشاہ نے کبھی اس پل کو دیکھا بھی نہ تھا اور ان گدھوں اور انسانوں کا کہیں نہ ذکر تھا نہ شمار و قطار جو اس پل کی تعمیر میں ہلاک ہوئے تھے بہت ہی پرانا اور گھسا پِٹا شعر ہے لیکن کیا جائے کہ انسان اور اس کے ساتھ ہونے والے یہ حادثے بھی بہت پرانے ہیں کہ
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
کہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا
کتنے دھماکوں میں کتنے لوگ مرتے ہیں صرف اسی دن اخبار میں ''تعداد'' آ جاتی ہے دوسرے دن کسی کو بھی یاد نہیں رہتا کہ چرچ یا قصہ خوانی کے دھماکوں میں کتنے ہندسے مرے تھے اور کتنے عدد گھائل ہوئے تھے لیکن بے نظیر کا دھماکہ، بشیر بلور کا دھماکہ، ملک سعد کا دھماکہ اور اس طرح کے دھماکے سب کو یاد رہتے ہیں اور یہی فرق ہوتا ہے انسان اور ہندسے میں یا زدگان اور زادگان میں ۔۔۔ اس سے جو سبق ملتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کچھ بھی نہیں صرف زادگی اور زدگی اصل چیزیں ہیں
جاں فزا ہے بادہ جس کے ہاتھ میں جام آ گیا
سب لکیریں ہاتھ کی گویا رگ جاں ہو گئیں
اور ملالہ یوسف زئی تو شہید بھی نہیں ہوئی ہے اس جیسی گولیاں کتنوں کو لگتی ہیں، کتنوں کے ہاتھ پیر اڑ جاتے ہیں ،کتنوں کی ٹانگیں نہیں رہتی لیکن قسمت قسمت کی بات ہے، اس کی قسمت میں ہیروئن بننا لکھا تھا بن گئی اور جن کے نصیب میں زیرو بننا لکھا تھا ۔۔۔ وہ زیرو ہو گئے
ہر پھول کی قسمت میں کہاں ناز عروساں
کچھ پھول تو کھلتے ہیں مزاروں کے لیے بھی
جو خط اس نے یا اس کے باپ نے لکھا تھا ایسے کتنے ہی کالم ایسی کتنی ہی کتابیں ایسی کتنی ہی تحریریں کتنے ہی لوگوں نے کی ہیں لیکن ان کی تقدیر زدگان کی تھی اور زدگان ہو کر رہ گئے، مطلب یہ ہے کہ کسی کے لیے پیدائشی زادہ یا زدہ ہونا بھی ضرورت نہیں ہے، یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
شرم اک ادائے ناز ہے اپنے سے ہی سہی
ہیں کتنے بے حجاب جو یاں ہیں حجاب میں
بہرحال یہ بڑا پیچیدہ مسئلہ ہے کہ کوئی ''زدہ'' کیوں ہو جاتا ہے اور کس کے نصیب میں زادگی کیوں پیدائش سے بھی پہلے لکھی ہوئی ہوتی ہے لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ پاکستان میں صرف یہی دونوں ہوتے ہیں ان کے علاوہ کوئی تیسرا نہ تھا نہ ہے نہ ہو گا اور دونوں کا جو حال ہے اس سے کون واقف نہیں ۔۔۔ کیوں کہ ایسا کوئی ہے ہی نہیں جو ان دونوں میں سے ایک نہ ہو گویا جو ''زادگان'' ہیں وہ بھی حق الیقین کے درجے میں ہیں اور جو زدگان ہیں وہ بھی تو حق الیقین ہی میں پیدا ہوئے ہیں حق الیقین میں جی رہے ہیں اور حق الیقین ہی میں کہیں نہ کہیں خرچ ہو جائیں گے، زادگان کے لیے
لرزتا ہے مرا دل زحمت مہر درخشاں پر
میں ہوں وہ قطرہ شبنم جو ہو خار بیاباں پر
جس طرح زادگان کا دائرہ بہت وسیع ہے اور روایتی زادگان کے علاوہ بھی بہت سارے زادگان ہیں جو زادگان کہلاتے نہیں لیکن اصل میں زادگان ہی ہوتے ہیں، لیڈر زادے، افسر زادے، تاجر زادے اور نہ جانے کیا کیا اور کون کون سے زادے، ٹھیک اسی طرح ضروری نہیں کہ کوئی ''زدہ'' بھی صرف آفات سماوی یا اراضی کا زدہ ہو، بلکہ سب سے زیادہ تعداد ''آفات انسانی'' کے زدگان کا ہے یا ان آفات کا جو انسانوں کے ہاتھ سے پڑتے ہیں مثلاً پٹرولیم زدگان، بجلی زدگان، مہنگائی زدگان، رشوت زدگان، کمیشن زدگان، اخبار زدگان اور ٹی وی زدگان
زدگان غرور کی باتیں
زادگان غرور کیا جانیں
اور غفورے پہ جو گزرتی ہے
سیٹھ عبدالغفور کیا جانیں
ہم نے جس قاری کا ذکر کیا تھا اس کے خط سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ زیادہ ہی زدہ ہے بلکہ خاندانی زدگان ہی میں ہے اس کے لیے ہم کچھ اور تو نہیں کر سکتے ہیں صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ
آعندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گُل پکار، میں چِلّاؤں ہائے دل