اماں مصدقہ…

شیریں حیدر  اتوار 1 دسمبر 2019
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’ اماں، یہ ہیں میری وہ دوست جن کے بارے میں میںنے آپ کو بتایا تھا کہ لکھاری ہے‘‘ میںاس سے مل کر ہٹی تواس نے میرا ہاتھ تھام کر مجھے ان کے سامنے کھڑا کیا، ’’ اور میری پیاری دوست، یہ ہیں اماں مصدقہ!‘‘

’’ اوہ اچھا!! ‘‘ میںنے ہولے سے کہا۔ وہ اسپتال میں داخل تھی اور اس کے پاس اماں مصدقہ ٹھہری ہوئی تھیں، وہ اس کے خاندان کی پرانی خدمتگار تھیں، اس کے بچپن سے لے کر وہ ان کے گھر میں تھیں۔ غالبا وہ اس کی والدہ کے جہیز میں آئی تھیں، پرانے وقتوں میں یہی رواج تھا۔

’’ یہ کون سی دوست ہے، وہ جو اخبار اور کتابیں لکھتی ہے؟ ‘‘ انھوں نے ناک پر عینک جما کر ، تسبیح روک کر، مجھے سر تا پا دیکھا، میں لجا سی گئی اپنے اس تعارف پر، ’’ لیکن یہ تو مجھے تمہارے جیسی ہی لگ رہی ہے؟ ‘‘ مایوسی ان کے چہرے سے عیاں تھی، وہ غالبا میرے سر پر سینگ یا کندھوں پر پر تلاش رہی تھیں۔

’’ جی میں ، ہفتے میں ایک دن ایک کالم لکھتی ہوں اخبار میں، پورا اخبار تو بہت بڑا ہوتا ہے، اتنا بڑا دماغ کہاں میرے پاس! ‘‘ میںنے انھیں وضاحت پیش کی۔ ’’ تو تم ہفتے کے باقی دن کیا کرتی ہو؟ ‘‘ ان کے سوال پر میں انھیں دیکھ کر رہ گئی۔

’’ جی اور بہت سے کام، وہ سارے کام جو عورتیں کرتی ہیں !! ‘‘’’ تو کیا تمہیں عورتوں کے کرنے کے سارے کام بھی آتے ہیں، ہانڈی روٹی اور چولہا چوکی؟ ‘‘ ان کی حیرت دیدنی تھی۔’’ جی بس کر ہی لیتی ہوں اماں جی! ‘‘ میںنے اپنی ہنسی کو دبا کر کہا۔

’’ اب کہ جب تم لکھو تو ذرا پوچھیو تو اپنے… عمران سے کہ! ‘‘ وہ رکیں اور میں مسکرا کر رہ گئی، سمجھ تو گئی تھی کہ ان کی مراد میرے دیور عمران سے نہیں ہو سکتی، لیکن اب یہ ’’ عمران‘‘، ان کا اپنا ہے یا میرا، ’’ کہ اس نے کتنے پیسے لے کر نواز کو چھوڑا ہے؟ ‘‘ …’’ آپ کے عمران نے مفت میں اپنے نواز کو چھوڑ دیا ہے اماں جی، عدالت کا حکم تھا کہ اسے مفت میں چھوڑ دیا جائے، وہ ضمانت پر ملک سے باہر گئے ہیں ! ‘‘ میںنے انھیں انھی کی زبان اور انداز میں سمجھایا۔

’’ ہائیں … وہ کیوں ، میں نے تو سنا تھا کہ بہت سارے پیسے لے کر چھوڑے گا اسے، اتنے کہ ملک سے مہنگائی کم ہو جائے گی، غریبوں کے دلدر دور ہو جائیں گے! ‘‘

’’ جی اس طرح تو نہ کوئی پیسے دیتا ہے نہ اتنی آسانی سے ان پیسوں سے غریبوں کے دلدر دور ہو سکتے ہیں! ‘‘

’’ ہمارے پنڈ کا ایک منڈا تھا… بہت بڑا چور اور ڈاکو، پکڑا گیا، کیس ثابت ہو گیا اور پھر اسے جیل بھی ہو گئی۔ نمانے کی ماں مر گئی تب بھی اسے جنازے پر نہیں آنے دیا، سال ہا سال اس کا ضعیف باپ عدالتوں اور کورٹ کچہریوںمیں پھرتا رہا۔ اس کی حرام کی کمائی کاسارا پیسہ لگ گیا اور اس کی ضمانت نہ ہو سکی اور پتا ہے جب ضمانت ہوئی تو عدالت کو علم ہوا کہ اسے تو مرے ہوئے بھی تین سال ہو گئے تھے، اس کا باپ بھی مر چکا تھا! ‘‘ …’’ اوہو… ‘‘ میںنے اسے ’’ ذرادیر ‘‘ سے ضمانت ملنے پر تاسف کا اظہار کیا، ’’ میرا خیال ہے اماں جی کہ وہ اتنا بڑا چور اور ڈاکو نہیں ہو سکتا جتنا کہ آپ کہہ رہی ہیں ! ‘‘ …’’ پتر ہم نے تو اس بار ووٹ دیتے وقت سوچا تھا کہ اسی کو ووٹ دیتے ہیں، کچھ ہمیں بچوں نے بھی مجبور کر دیا اور ہم نے مخالف کیمپوں میں بیٹھ کر بریانی کھانے والوں کو بھی حسرت سے دیکھا اور اسے ووٹ دے دیا، ہم نے تو سوچا تھا کہ غریب کے بھی دن پھر جائیں گے مگر ہم تو پہلے حالوں سے بھی گئے ہیں۔ دو وقت کی روٹی کھانا مشکل ہو گیا ہے، جس کے ہاں بال بچے اور والدین ہیں اور کمانیوالا ایک ہے، وہ تو بلک رہے ہیں ، سفید پوشی کا بھرم رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ پٹرول مہنگا ہوتا ہے تو اس کیساتھ روٹی کی قیمت میں بھی ایک روپے کا اضافہ ہو جاتا ہے جیسے تنور والا پٹرول سے تنور چلاتا ہے۔ اگلے روز میںنے تنور والے سے سبب پوچھا تو کہنے لگا کہ میرے آنے جانے کے خرچے میں بھی تو اضافہ ہوا ہے اماں جی!! ‘‘ سانس لینے کو وہ رکیں، ’’ اب دیکھو نا پتر، اگر پٹرول مہنگا ہو گا تو اس سے ہر چیز کی قیمت میں فرق پڑے گا نا؟ ‘‘

’’ اس میں کچھ تو اس تنور والے کی غلط بیانی بھی ہے اماں جی، وہ ہر روز لاہور سے اسلام آباد تو نہیں آتا ہو گا، اگر وہ کہیں سے بھی آتا ہے تو بائیک پر اس کا ایک لٹر پٹرول ایک طرف کا لگتا ہو گا، روزانہ کا دو لٹر، اگر مہینے کے بعد پٹرول کی قیمت میں فی لٹر پانچ روپے کا بھی اضافہ ہو اور اسے دس روپے روز کے زیادہ دینا پڑیں تو اس دس روپے کے عوض وہ اپنی ہر روٹی پر ایک روپیہ تو نہیں بڑھا سکتا، اس کے ہاں سے ہر روز ہزاروں روٹیاں بکتی ہیں، اس پر اس کا منافع بھی ہے، اسی طرح سبزیوں اور دالوں کے دکان دار بھی ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی قلت پیدا کر کے عوام کے لیے مشکلات کھڑی کرتے ہیں اور ہر غلط کام کا الزام ہر دور میں حکومت پر آتا رہا ہے! ‘‘

’’ تو پتر حکومت اور ہے کس لیے… اگر حکومت نے یہ نہیں کرنا کہ عام آدمی سکون سے جی سکے تو اور اس کا کیا کام ہے، ووٹ ہم دیتے ہیں تو اس لیے نا کہ ہمیں بہتر حکمران ملیں اور ہمارے دکھ درد کو سمجھیں ۔ ان کے اپنے بکھیڑے اور دکھ درد ہی ختم نہیں ہوتے۔ اگر پرانے جانے والوں کے رونے رونے کی بجائے، خود کو ان سے بہتر ثابت کرنے پر توانائیاں خرچ کی جائیں تو ہمیں علم ہو کہ کوئی ہماری داد رسی کو بھی آیا ہے! ‘‘ …’’ بس اماں جی، ہماری بد قسمتی سمجھ لیں یا ان لوگوں کی خوش قسمتی جو اس ملک کو لوٹنے کھسوٹنے کی نیت سے آج تک اس ملک پر حکمرانی کرتے رہے ہیں۔ ہم نے بھی اپنے ماضی کی کی گئی کسی غلطی کو نہیں یاد رکھا اور ہر پانچ برس کے وقفے سے یہی لوگ اپنی باری کے بعد ملک سے باہر جا کر چار پانچ سال آرام اور عیاشی کر کے لوٹ آتے ہیں اور ہم پھر ان کے ان جھوٹے وعدوں کے دام میں آ جاتے ہیں ۔ پھر ایک پلیٹ بریانی یا ہزار پانچ سوکے لفافوں کے عوض انھیں اپنے قیمتی ووٹ دے دیتے ہیں ! ‘‘ میں نے دل کے پھپھولے پھوڑے۔

’’ تو اور کس کو ووٹ دیں پتر؟ ‘‘ انھوں نے بے بسی سے کہا، ’’ اس ملک میں الیکشن کون لڑ سکتا ہے، وہ جس کے پاس پیسہ ہے، طاقت ہے، اختیار ہے اور جھوٹے وعدوں کے انبار۔ غریب آدمی، جس کے دل میں دوسرے غریب کا درد ہو گا، وہ کہاں اور کیسے الیکشن لڑے گا؟ ‘‘

’’ بس اماں جی آپ دعا ہی کریں کہ اللہ اس ملک پر، اس ملک کے عوام پر رحم فرمائے اور خواص کو ہدایت نصیب فرمائے! ‘‘ …’’ عمران کے بعد کون آئے گا پتر؟ ‘‘ انھوںنے وہ سوال پوچھا جو شایدانھیں چند سال کے بعد پوچھنا چاہیے تھا۔…

’’ انھی میں سے کوئی آئے گا اماں جی، جنھیں آج کل ہم بڑے بڑے چور اور ڈاکو کہہ رہے ہیں !‘‘ میں نے بے بسی سے کہا،…’’ تین سال بعد ہم بھول چکے ہوں گے کیونکہ ہم موجودہ حکومت سے بھی بور ہو چکے ہوں گے اور ملک میں کوئی انقلابی تبدیلی نہ آنے کے باعث ہم مجبورا انھی کو دوبارہ ووٹ دیں گے، ایک ایک پلیٹ بریانی بھی مفت میں ملے گی! ‘‘…’’ کوئی اور چارہ نہیںہے پتر… ہماری قسمت میں یہی لوگ کیوں ہیں جو ملک کو بیچ کر کھا چکے ہیں۔ کوئی تیسرا راستہ نہیں ہے ہمارے پاس، کوئی اور ایسا نہیں جو ملک کو بہتری کی راہ پر گامزن کر سکے، جس کے اپنے کوئی مفادات نہ ہوں ؟ ‘‘ انھیں معلوم تھا کہ وہ عمر کے جس حصے میں ہیںکہ شاید انھیں ایسا کوئی دن دیکھنا نصیب نہیں ہو گا … شاید ہمیں بھی نہیں۔…’’ تیسرا راستہ؟ پہلے دو راستے کون سے ہیں اماں جی؟‘‘…’’ ایک تو موجودہ حکمران اور دوسرے جو اپنی باری کے منتظر بیٹھے ہیں ! ‘‘

’’ ہم… تیسرا راستہ؟؟‘‘ میں نے ان کے چہرے کو غور سے دیکھا، ’’ آپ بتائیں تیسرا راستہ؟‘‘

’’ تمہیں بھی معلوم ہے بیٹا… ہر کوئی دل میں سوچتا ہے، کہنے سے جھجکتا ہے! ‘‘ میںنے ان کی مسکراہٹ میں شرارت رقصاں دیکھی، وہ غور سے مجھے دیکھ رہی تھیں۔ ’’ تم تو اخبار لکھتی ہو، تمہیں تو علم ہو گا!! ‘‘…’’ میں اخبار نہیں لکھتی اماں جی، ہفتے میں ایک دن اخبار میں کالم لکھتی ہوں !!‘‘ میںنے پھر ان کی تصحیح کی۔…’’ تو باقی دن تم کیا کرتی ہو؟ ‘‘ انھوںنے پھر سوال کیا۔ …

’’ باقی دن… کچھ خاص نہیں ! ‘‘

’’ چلو اب باقی دنوں میں سوچنا اور پھر اس پر لکھنا کہ تیسرا راستہ کیا ہے ہمارے لیے!! ‘‘ انھوں نے کہہ کر آنکھیں موند کر تسبیح کے دانے گرانا شروع کردیے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔