نوبیل ادبیات‘ 2013 تک‘ 113 برس‘ 13 خواتین لکھاری

خرم سہیل  بدھ 30 اکتوبر 2013
khurram.sohail99@gmail.com

[email protected]

رواں برس 2013 میں نوبیل ادبی اعزاز دیے جانے کی روایت کی ابتدا کے113 برس مکمل ہو گئے۔ اس پورے عرصے میں نوبیل اعزازات حاصل کرنے والی خواتین کی تعداد 44 ہے، جن میں سے ادب کے شعبے سے وابستہ 13 خواتین لکھاری ہیں۔ اس فہرست میں تیرہویں ہندسے کا اضافہ کینیڈا کی افسانہ نگار ’’ایلس منرو‘‘ نے اسی سال ادب کا نوبیل اعزاز حاصل کر کے کیا۔ پہلا نوبیل ادبی اعزاز 104 برس پہلے 1919 میں پہلی مرتبہ ایک خاتون لکھاری ’’سیلمہ لاگیرلوف‘‘ نے حاصل کیا تھا۔

2013 میں کینیڈا کی افسانہ نگار ’’ایلس منرو‘‘ کی شہرت افسانہ نگار کی ہے، جنھیں نوبیل کے ادبی اعزاز سے نوازا گیا اور نوبیل اکادمی نے ان کو دیے گئے خطاب میں ’’عصری افسانے کی مہا افسانہ نگار‘‘ تسلیم کیا۔ دو برس پہلے انھوں نے برطانوی ادبی انعام ’’مین بُکر پرائز‘‘ بھی حاصل کیا تھا۔ اب تک ان کے افسانوں کے15 مجموعے شایع ہو چکے، جب کہ 4 انتخاب بھی چھاپے گئے ہیں۔ یہ اپنی کہانیوں میں کرداروں کے ذریعے انسانی دماغ میں پنپنے والی اُلجھنوں کو بظاہر نہ سلجھائے جانے والے رویے کے ذریعے سے دکھاتی ہیں۔

2009 میں رومانیہ کی جرمن زبان کی ناول نگار اور شاعرہ ’’ہیرٹا مولیر‘‘ نے نوبیل ادبی اعزاز اپنے نام کیا۔ ان کی تخلیقات تشدد کے اثرات کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان کی تحریروں پر نوبیل اکادمی نے انھیں ’’شاعری کی توجہ، نثر کی بے تکلفی سے محرومی کا نقشہ کھینچنے والی‘‘ مصنفہ اور شاعرہ کا خطاب دیا۔ اب تک ان کے افسانوں کے 21 اور شاعری کے 4 مجموعے شایع ہو چکے ہیں۔ ان کی تخلیقات کا ترجمہ جرمن زبان کے علاوہ انگریزی، فرانسیسی، ہسپانوی، سویڈش زبانوں میں ہو چکا ہے۔

2007 میں برطانوی مصنفہ ’’ڈورِس لیسنگ‘‘ نے یہ اعزاز حاصل کیا۔ ان کی تخلیقات کے لیے نوبیل اکادمی نے خطاب دیتے ہوئے کہا ’’یہ خواتین کے تجربات کی وہ رزمیہ گو تخلیق کار ہیں، جو شکوک شبہات کی آگ اور زور ِتصور پر جانچ پڑتال کے نشانے سے تہذیب کو منقسم کرتی ہیں۔‘‘ انھوں نے اپنے قلم سے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی، ان میں ناول، افسانہ، ڈراما، شاعری، بچوں کے لیے لکھی گئی کہانیاں اور نان فکشن تحریریں شامل ہیں۔ ان کی تقریبا ً70 کتابیں شایع ہو کر مقبولیت حاصل کر چکی ہیں۔

2004 میں آسٹریا کی ادیبہ ’’ایلفریڈی جیلنیک‘‘ کو یہ انعام دیا گیا۔ یہ ڈرامے اور ناول کی صنف میں تخلیقی اظہار کرتی ہیں۔ نوبیل اکادمی نے ان کو خطاب دیتے ہوئے ان کی توصیف میں کہا۔ ’’ان کی آواز میں موسیقیت کا بہائو، ناولو ں اور ڈراموں میں مخالف بہائو، معاشرے کی افسردگی اور بیانیہ کی مہارت کے ساتھ، لسانیات کے لیے ان کے غیر معمولی جوش کو ظاہر کرتا ہے۔‘‘ انھوں نے لکھنے کی ابتدا شاعری سے کی، مگر بعد میں نثر کو اپنا لیا۔ انھوں نے 12 ناول لکھے اور ڈراموں کے 32 مجموعے شایع ہوئے، جب کہ 10 کتابیں بھی ترجمہ کیں۔

1996 میں پولینڈ کی شاعرہ ’’وِستاوا سزیمبورسکا‘‘ کو یہ اعزاز ملا۔ یہ شاعری کے علاوہ مضامین لکھتی اور تراجم بھی کرتی تھیں۔ نوبیل اکادمی نے ان کے خطاب میں اظہار کیا کہ ’’ان کی شاعری صحت کے متعلق برپا ستم ظریفی کے متعلق اجازت دیتی ہے کہ اس کے ذریعے تاریخی اور حیاتیاتی سیاق و سباق کے ساتھ وہ انسانیت کے ٹکڑو ں کو روشنی میں لائے۔‘‘ ان کی تقریباً 21 کتابیں شایع ہوئیں، جن میں مختلف اصناف کے ذریعے انسانی جذبات کے متعلق اظہار خیال کیا گیا۔

1993 میں امریکی ناول نگار ’’ٹونی موریسن‘‘ کو نوبیل ادبی اعزاز عطا کیا گیا۔ نوبیل اکادمی کے خطاب میں ان کے لیے کچھ ایسے خیالات کا اظہار کیا گیا ’’ان کے ناولوں میں موجود کرداروں کی تصوراتی طاقت اور شاعرانہ آمد نے، امریکی حقیقت کو کئی ضروری پہلوئوں سے ایک زندگی دی ہے۔‘‘ انھوں نے ناول کے علاوہ بھی کئی اصناف میں لکھا، جن میں افسانہ، ڈراما، بچوں کا ادب اور مختلف موضوعات پر مضامین شامل ہیں۔ ان کے 10 ناول، 3 بچوں کے ادب کے مجموعے، 1افسانوی کہانیوں کا مجموعہ،2 ڈرامے اور8 نان فکشن سے متعلق کتابیں شایع ہوئیں۔

1991 میں جنوبی افریقہ کی انگریزی زبان میں لکھنے والی ادیبہ ’’نادائن گورڈی مائر‘‘ کو یہ اعزاز ملا۔ نوبیل اکادمی کی طرف سے دیے گئے خطاب میں ان کے لیے کچھ یوں کہا گیا۔ ’’ان کی جادوئی اور رزمیے سے بھرپور تحریروں کے ذریعے الفریڈ نوبیل کے الفاظ میں، انسانیت کو عظیم فائدہ پہنچایا گیا۔‘‘ انھوں نے ناول، افسانہ، ڈراما نگاری، مضامین اور نان فکشن تحریروں کے ذریعے اظہار خیال کیا۔ کئی کتابیں مرتب بھی کیں۔ ان کی تقریباً 50 کتابیں شایع ہوئیں، جن میں سے 15 ناول اور20 افسانوں کے مجموعے تھے۔

1966 میں جرمنی کی یہودی شاعرہ اور ڈراما نگار ’’نیلے سچس‘‘ کو یہ انعام دیا گیا۔ نوبیل اکادمی کی طرف سے ان کے لیے خطاب میں یہ الفاظ استعمال کیے گئے۔ ’’ان کی غیر معمولی شاعرانہ اور ڈرامائی تحریروں میں اسرائیل کی قسمت کو چھونے کی طاقت کے انداز میں تعبیر کیا۔‘‘ ان کی شاعری کے دو مجموعے شایع ہوئے، جنھیں بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس ادبی انعام کو حاصل کرنے میں یہ شریک فاتح تھیں، ان کے علاوہ ایک مرد مصنف کو بھی اس اعزاز میں شریک ٹھہرا گیا۔

1945 میں چلی کی ہسپانوی زبان میں لکھنے والی ادیبہ ’’گیبرئیلا مسترال‘‘ کو نوبیل کا ادبی اعزاز دیاگیا۔ خطاب میں کہا گیا۔ ’’ان کی شاعری اور حروف میں بھرپور جذبات سے متاثرکن، لاطینی امریکی دنیا کے لیے ان کا نام آدرش کی علامت ہے۔‘‘ ان کی کل 6 کتابیں شایع ہوئیں اور ان کی شاعری کے انتخاب بھی چھاپے گئے۔

1938میں امریکی لکھاری ’’پرل بوک‘‘ کو یہ انعام دیا گیا۔ ان کے لیے نوبیل اکادمی کی طرف سے خطاب میں ایسے حروف چنے گئے۔ ’’ان کی سوانحی شاہکار تخلیقات، چین میں کسان کی زندگی کے حوالے سے زرخیز اور حقیقی رزمیہ گو وضاحت ہے۔‘‘ یہ چین اور امریکا میں رہیں اور اپنے تجربات کو تحریری شکل دی۔ انھوں نے 2 خود نوشتیں لکھیں، جب کہ دو سوانح عمریاں قلم بند کیں۔38 ناول تخلیق کیے، جب کہ 22 افسانوں کے مجموعے شایع ہوئے۔ نان فکشن تحریریں اس کے علاوہ ہیں۔

1928 میں ناروے کی ادیبہ ’’سگریڈانڈسیٹ‘‘ کو یہ انعام دیا گیا، اس خطاب کے ساتھ کہ ’’درمیانی عمر کے حصے میں اصولی طور پر جنوبی زندگی کی وضاحت بہت پُر زور ہے۔‘‘ ان کاسب سے مشہور کام تین ڈراموں کا وہ سلسلہ ہے، جس میں انھوں نے ایک درمیانی عمر کے ساتھ، اسکینڈی نیویا کی زندگی میں ایک عورت کی پیدائش سے لے کر موت تک کے تجربات کی منظر کشی کی ہے۔ ان کی تقریباً 20 کتابیں شایع ہوئیں۔

1926 میں اٹلی کی ادیبہ ’’گرازیا ڈیلیڈا‘‘ کواس انعام سے نوازا گیا۔ نوبیل اکادمی کی طرف سے ان کے لیے خطاب میں کہا گیا۔ ’’ان کی تحریریں آدرشانہ طور پر اس زندگی کی حقیقی تصویر کو دکھاتی ہیں جس میں ان کے آبائی جزیرے پر، گہرائی اور ہمدردی کے ذریعے انسان کے عام مسائل سے معاملات کیے۔‘‘ ان کی تحریروں میں، محبت، درد اور موت کے احساس نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی تقریباً 16 کتابیں شایع ہوئیں۔

1909میں سویڈن کی لکھاری’’سیلمہ لاگیرلوف‘‘ نوبیل ادبی انعام حاصل کرنے والی پہلی خاتون تھیں۔ ان کو خطاب میں ان الفاظ سے نوازا گیا ’’ان کی تحریروں میں موجود کرداروں کے خصوصیات کی تحسین کے طور پر، جو بلند و بالا آدرش، متحرک تصور اور روحانی پہلوئوں سے بھرپور ہیں۔‘‘ ان کی تقریبا ً40 کتابیں شایع ہوئیں۔ درجن بھر کتابیں ان کی شخصیت اور کام پر بھی لکھی گئیں۔

113 برس میں ان 13 خواتین نے اپنی تخلیقات سے دنیا بھر میں شہرت حاصل کی۔ بدقسمتی سے ان میں کسی بھی خاتون کا تعلق ایشیا سے نہیں ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ ہمارے ہاں سے تخلیقات کا انگریزی میں ترجمہ نہ ہونا ہے، ورنہ کیا ایشیا بالخصوص اردو زبان میں ادب تخلیق کرنے والی خواتین کسی سے پیچھے ہیں۔ میں یہاں صرف خاتون لکھاریوں کے نام لکھوں گا، اگر ان کا کام ترجمہ ہو کر دنیا کے سامنے آیا ہوتا تو کیا ان 13 خواتین میں کوئی اردو زبان سے سامنے نہیں آ سکتی تھی۔

بیسویںصدی کے اردو ادب کی ان لکھاریوں میں قرۃ العین حیدر، ادا جعفری، امرتا پریتم، عصمت چغتائی، ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور، جمیلہ ہاشمی، فاطمہ ثریا بجیا، بپسی سدھوا، خالدہ حسین، بانو قدسیہ، جن کی تخلیقات کسی کے مدمقابل بھی رکھی جا سکتی ہیں۔

اردو زبان کی یہ لکھاری خواتین، جن کی تحریروں میں زندگی کی حقیقت پوشیدہ ہے۔ محبت، درد، موت، اداسی، تلاش، جدائی، دکھ، امید، خزاں اور بہار کے احساسات پھولوں کی طرح کانٹوں کے ہمراہ ان کی تحریروں میں پروئے ہوئے ہیں۔ کیا ہم ان کو مغربی دنیا کے سامنے پیش نہیں کر سکتے؟ بالکل کر سکتے ہیں۔ مجھے قوی اُمید ہے آنے والے برسوں میں کوئی ہماری ادیبہ بھی نوبیل اکادمی کی ادبی اعزاز کی فہرست کا حصہ ہوگی۔ زمانہ اب بدل رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔