غلامی یا نجات

آفتاب احمد خانزادہ  منگل 5 نومبر 2013

کرمی سوس کے دربار میں نامور شخص سولن کو پیش کیا گیا، جو یونان کے سات مستند عقلا میں شمار کیا گیا ہے۔ کرمی سوس نے سولن کے سامنے اپنے خزانہ کی تمام زرق برق چیزیں پیش کیں اور اس کے بعد یہ سوال کیا کہ ’’آپ کے نزدیک سارے آدمیوں میں کس شخص کو زیادہ مسرت حاصل ہے؟‘‘ اس کے جواب میں سولن نے ایک یونانی شخص کا نام لیا، جو ایک خاموش بکار آمد اور امن و امان کی زندگی بسر کر کے اپنے ملک کی حمایت میں مارا گیا تھا۔ کرمی سوس کو تو یہ خیال تھا کہ سولن جواب میں میرا نام لے گا، یہ خلاف توقع جواب پا کر پوچھنے لگا ’’اچھا تو بتائیے کہ اس شخص کے بعد سب سے زیادہ مسرت کسے حاصل ہے؟‘‘ اب سولن نے دو نوجوانوں کے نام لیے جنھوں نے اپنی ماں کے ساتھ ایسی خالص محبت کا برتائو کیا تھا کہ اس نے انھیں دعا دی تھی کہ جنت اپنی جتنی نعمتیں دے سکتی ہو وہ سب تمہیں اس کے عوض میں ملیں۔ ماں یہ دعا دے ہی رہی تھی کہ وہ دونوں لیٹ کے سو گئے اور ان کی یہی نیند ایک پر امن موت ثابت ہوئی۔ یہ جواب سن کر کرمی سوس دل میں بہت کڑھا کہ یہ عقلمند شخص میری دولت کی کچھ وقعت نہیں کرتا۔ آخر عاجز ہو کر پوچھا ’’تو کیا آپ کے نزدیک مجھے مسرت نہیں حاصل ہے۔‘‘ اس پر سولن بولا ’’افسوس جو شخص دنیا میں ہنوز زندہ موجود ہو اسے مسرور کیونکر کہا جا سکتا ہے۔‘‘

اس واقعے کے دو سال بعد کرمی سوس کو سولن کے جواب کی سچائی مجبوراً ماننی پڑی جب اس کا بڑا بیٹا ایک حادثے کی نذر ہوا اور اس کے تھوڑے ہی دنوں بعد اسے لیڈیا والوں اور فارسیوں کے مقابلے پر جا کے میدان جنگ گرم کرنا پڑا۔ میدان نمبر 1 میں اسے فارسیوں نے سخت شکست دی اور اس کے دارالسطنت شہر سارڈیس کا محاصرہ کر لیا۔ تھوڑے ہی زمانہ کے محاصرہ میں لیڈیا والے مقابلہ کی تاب نہ لا سکے اور سائرس نے یورش کر کے شہر پر قبضہ کر لیا اور کرمی سوس کو گرفتار کر کے حکم دیا کہ وہ آگ میں زندہ جلا دیا جائے۔ اس حکم کی تعمیل کے لیے لکڑیوں کی چتا تیار کی گئی اور کرمی سوس زنجیروں میں جکڑ کے اس پر بٹھا دیا گیا۔ اس نازک گھڑی میں یک بیک اسے سولن کا قول یاد آیا کہ جو دنیا میں زندہ موجود ہے مسرور نہیں ہو سکتا۔ فوراً دنیاوی شان و شوکت کی بے ثباتی کی تصویر اس کی آنکھوں کے سامنے پھر گئی اور بے تحاشا زور سے چلا اٹھا ’’ارے سولن، سولن، سولن۔‘‘ یہ آواز سائرس کے کان میں گئی تو لوگوں سے پوچھا ’’یہ کیا کہتا ہے‘‘ اور جب کسی سے یہ معمہ نہ حل ہو ا تو حکم دیا کہ ’’اس قیدی کو میرے سامنے لائو تا کہ پوچھوں کہ یہ اس نے کیا کہا۔‘‘ لوگ اسے چتا پر سے اٹھا کر سائرس کے سامنے لے گئے اور جب اس نے اپنا اور سولن کا قصہ بیان کیا تو سائرس پر بڑا اثر پڑا۔ دنیاوی عظمت و شو کت خود اس کی نظر میں حقیر ہو گئی، اور کرمی سوس کا قصور معاف کر دیا، بلکہ اسے اپنا مشیر خاص بنا لیا، اور دل میں خیال کیا کہ اس کی مصیبت مجھے اس بات کا سبق دیتی ہے کہ اپنی موجودہ قوت و عظمت پر زیادہ بھروسہ نہ کروں۔

اس فتح کے بعد سائرس نے شہنشاہ اسیریا کی طرف توجہ کی اور شہر بابل کا محاصرہ کر لیا، اہل بابل کو اپنے شہر پناہ کی مضبوطی پر اس قدر غرور اور ناز اور شہر کے اندر والے کھیتوں کی پیداوار پر اس قدر بھروسا اور اطمینان تھا کہ سائرس کی اس اولوالعزمی کو انھوں نے حقارت کی نظر سے دیکھا اور تمسخر کی راہ سے اور زیادہ عیش و عشرت میں مشغو ل ہو گئے۔ اﷲ کی جانب سے بابل کی تباہی کی خبر بہت پہلے ہی دے دی گئی تھی اور سائرس جس کا نام دو سو برس پیشتر سے اس کام کے لیے مخصو ص کر دیا گیا تھا، اسے ان خود پرست لوگوں پر غا لب آنے کے لیے مناسب تدبیریں بھی بتا دی گئیں۔ اس نے اپنے آدمیوں سے نالیاں اور نہریں کھدوائیں جن میں دریا کا پانی بٹ گیا، اور وہ زمین نکل آئی جس پر دریا بہہ رہا تھا۔ لیکن اب بھی وہ برنجی پھاٹک اس کے سدراہ تھے جن کے ذریعے سے دریا کی روک کی گئی تھی۔ مگر بدقستمی سے شہر والے عیش و عشرت کی ضیافتوں اور دھوم دھام کے جلسوں میں اس قدر مصروف تھے کہ ان پھاٹکوں کے بند کرنے کا کسی کو خیال بھی نہ آیا اور وہ کھلے پڑے رہ گئے۔

جس رات کو فارسی لوگ دھاوے کی تجویزیں کر رہے تھے، شہنشاہ بابل بلیشزرکا جشن طرب عروج پر تھا اور بنی اسرائیل کے معبد یعنی ہیکل سلیمان کے مقدس ظروف دعوت کی ضرورتوں کے لیے منگوائے گئے تھے، اس کے عیش کو پہلے تو اس بات نے منغض کیا کہ ناگہان دیوار پر ایک از غیبی تحریر نظر آئی جس کا خوفناک مضمون حضرت دانیال پیغمبر نے بلیشزر کو پڑھ کے سنایا، اس لیے کہ وہ اس کے مشیر سلطنت تھے۔ اس کو چند ہی گھنٹے گزرے ہوں گے کہ ناگہان سائرس اپنی فوج کے ساتھ شہر کے بیچوں بیچ میں نمایاں ہوا۔ شہر میں گھستے ہی اس نے یورش کر کے بلیشزر کو قتل کر ڈالا اور اہل شہر پر تلوار بلند ہو گئی۔ دم بھر میں وہ عظیم الشان شہر جس کے عظمت و جبروت کے افسانے آج تک حیرت کے الفاظ میں بیان کیے جاتے ہیں، مغلوب و مقہور ہو گیا اور اس کے مغلوب ہوتے ہی ساری قلمرو سائرس کی زیر نگین تھی۔

پاکستان اپنے ہمراہ ماضی اور حال کے نااہل حکمرانوں کا بے پناہ بوجھ اٹھائے ہوئے ہے اور اسی بوجھ کی وجہ سے وہ ایک قدم بھی آگے نہیں چل پا رہا ہے۔ وہی لوگ آزاد اور با شعور کہے جا سکتے ہیں جو عقل کے تابع ہیں اور وہ لوگ جو اپنی خواہشوں و جذبات کے تابع ہیں، انھیں آزاد و باشعور نہیں کہا جا سکتا، وہ اپنے آپ میں قیدی ہیں اور ایسے ہی قیدیوں کی حکمرانی ہمیں نصیب ہوئی۔ ہمیں حاکم نصیب ہوئے لیکن خادم نصیب نہیں ہوئے۔ ہر آنے والا حاکم اقتدار پر بیٹھتے ہی خود کو بادشاہ سمجھنے لگ گیا اور عوام کو اپنی رعایا۔ دنیا میں موجود تمام لعنتوں میں سب سے بڑی لعنت بھوک ہے، جس کی وجہ سے انسان انسان کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہو رہا ہے۔

طاقت کی بھوک، اختیارات کی بھوک، خوشامد کی بھوک، خود پرستی کی بھوک، انا پرستی کی بھوک، یہ سب بھوک انسان کو دیوانہ بنا دیتی ہیں، جس میں وہ خود کو دیوتا سمجھنے لگتا ہے۔ ہمیں ہمیشہ دیوتائوں کی حکمرانی کا شرف حاصل ہوا ہے۔ ہم ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں اور تادم آخر بھگتے رہیں گے اور کیوں نہ بھگتیں، ہم دیوتائوں کی غلامی کو اپنی سعادت اور ان کے ہر حکم کی تعمیل کو اپنا فرض سمجھتے آئے ہیں۔ ہم نے اپنے ضمیر کو کند بنا دیا ہے، ہم اپنے اس گلے سڑے سما ج کو ایک دردناک مرتی ہوئی حالت میں دیکھ رہے ہیں۔ جو نہ تو جینے کی حالت میں واپس آ سکتا ہے اور نہ ہی اپنی موت مرنے کے لیے تیار ہو رہا ہے۔ ہمیں دکھ خدا نے نہیں دیے بلکہ ان ہی خونی سیاسی دیوتائوں کے عطا کردہ ہیں، جو ہم پر مسلط رہے۔ ہم دوراہے پر کھڑے ہیں اور ہمیں ایک رستے کا انتخاب کرنا ہے، ایک رستہ دائمی برائیوں و لعنتوں اور خود ساختہ دیوتائوں سے نجات کا رستہ ہے اور دوسرا رستہ وہی ہے جس کے ہم مسافر ہیں۔ غلامی یا نجات، ان دونوں میں سے ہم کس رستے کا انتخاب کر تے ہیں، فیصلہ ہمیں خود کرنا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔