کنوینر ایم کیو ایم پاکستان کے فیصلے نے سیاست میں ہلچل مچا دی

عامر خان  بدھ 15 جنوری 2020
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کے اس اعلان کے بعد وفاقی حکومت فوری طورپر متحرک ہوئی۔

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کے اس اعلان کے بعد وفاقی حکومت فوری طورپر متحرک ہوئی۔

کراچی: ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے وفاقی کابینہ سے علیحدگی کا اعلان کرکے ملکی سیاست میں ہلچل پیدا کردی ہے جبکہ وفاقی وزیر اسد عمر کی قیادت میں آنے والے وفد کی ایم کیو ایم پاکستان  کے رہنماؤں  سے  ملاقات ’’ بظاہر ‘‘ کامیاب نہیں  ہو سکی ہے، جس نے معاملات کو مزید گھمبیر بنادیا ہے۔

متحدہ قومی مو ومنٹ پاکستان کے کنوینر  ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا اپنی وفاقی وزارت چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے کہنا تھاکہ  ڈیڑھ سال تک ایم کیو ایم پاکستان سے کیے گئے معاہد ے کی سست روی اور ایک نکتہ پر بھی عمل درآمد نہ ہونے پر بحیثیت کنوینر ایم کیو ایم پاکستان میں اس بات کو مناسب نہیں سمجھتا کہ سندھ کے شہری علا قوں کیلیے کچھ بھی نہ کرنے کے باوجود وفاقی وزیر رہوں، تاہم انہوں نے واضح کیا کہ ہم حکو مت سے الگ نہیں ہو رہے ہیں ہم اسکی حما یت جا ری رکھیں گے اور یہ امید کر تے ہیں کہ معاہد ے پر عمل درآمد کر کے ہما رے خدشات دور کیے جا ئیںگے۔

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کے اس اعلان کے بعد وفاقی حکومت فوری طورپر متحرک ہوئی اور وزیراعظم عمران خان نے گورنر سندھ عمران اسماعیل سے رابطہ کرکے انہیں ایم کیو ایم کے خدشات دور کرنے کی ہدایت کی۔ ایم کیو ایم پاکستان کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے  حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کا وفد اسد عمر کی سربراہی میں ایم کیو ایم پاکستان کے دفتر بہادرآباد پہنچا جہاں ان کے ہمراہ فردوس شمیم، حلیم عادل شیخ، خرم شیر زمان، رکن قومی اسمبلی آفتاب ملک اور دیگر ارکان اسمبلی بھی موجود تھے۔ روایت کے برعکس جب تحریک انصاف کا وفد بہادرآباد پہنچا تو ایم کیو ایم کی جانب سے ان کا استقبال نہیں کیا گیا۔

دونوں جماعتوں کے وفود کے درمیان ایک گھنٹے سے زائد ملاقات جاری رہی جس میں تحریک انصاف کی خالد مقبول صدیقی کو منانے کی تمام کوششیں بے سود رہیں۔اسد عمر نے خالد مقبول صدیقی سے کہا کہ آپ کیوں ناراض ہوگئے، اب ناراضگی ختم کریں، ایم کیو ایم کے مطالبات درست ہیں انہیں ہمیشہ تسلیم کیا ہے، معاملات الگ ہونے سے نہیں مل بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے حل ہوں گے۔ جس پر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ہمیں بات چیت نہیں نتیجہ چاہیے۔

ترقیاتی فنڈز  کے لیے کتنی منت سماجت کرنا پڑے گی اور ہم اپنے لیے نہیں بلکہ کراچی کا حق مانگ رہے ہیں۔ ملاقات کے اختتام پر اسد عمر کا کہنا تھا کہ خالد مقبول صدیقی کی خواہش ہے کہ وہ کابینہ کا حصہ نہیں بنیں گے لیکن ہماری خواہش ہے کہ وہ کابینہ کا حصہ رہیں۔خالد مقبول صدیقی نے اپنی گفتگو میں اسے مذکرات کے بجائے ملاقات قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ملاقات پہلے سے طے شدہ تھی اور اسی سلسلے میں تحریک انصاف کے وفد نے آج دورہ کیا۔ادھر پیپلزپارٹی کے رہنما صوبائی وزیر سید ناصر حسین شاہ کاکہنا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کے لیے بلاول بھٹو زرداری کی آفر اب بھی برقرار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ خالد مقبول صدیقی سینئر سیاستدان ہیں، انہوں نے سوچ سمجھ کر ہی بات کی ہوگی۔سیاسی حلقے ایم کیو ایم پاکستان کے اس اقدام کو ایک سیاسی چال سے تعبیر کر رہے ہیں۔ان حلقوں کا کہنا ہے کہ خالد مقبول صدیقی نے اپنی پریس کانفرنس میں معاہدے پر عملدرآمد نہ ہونے کے حوالے سے جو نشاندہی کی ہے اس کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے تاہم وہ کون سی فوری وجوہات تھیں، جن کے باعث انہوںنے  اتنا بڑا فیصلہ کیا اس پر غور کرنا ہوگا۔ان حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان اس وقت اپنی سیاسی زندگی کے مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے۔

کراچی میں اپنی کھوئی سیاسی قوت حاصل کرنے کے لیے اسے بڑے اقدامات کی ضرورت ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں زیادہ وقت نہیں رہ گیا ہے۔اگر وہ کراچی کے شہریوں کو ریلیف فراہم کرنے میں ناکام رہتی ہے اس کے لیے بلدیاتی انتخابات کے نتائج بھی عام انتخابات جیسے ہو سکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان نے اپنا ترپ کا پتہ کھیل لیا ہے۔ تحریک انصاف بھرپور کوشش کرے گی کہ وہ ایم کیو ایم پاکستان کو منانے میں کامیاب ہوجائے لیکن اس کے لیے اسے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اور ان کی جماعت کے تحفظات کو دور کرنا ہوگا۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے ایم کیو ایم پاکستان کو اتحاد کی پیشکش ہو رہی ہے تاہم سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ بلدیاتی انتخابات سے قبل ان دونوں جماعتوں کا اتحاد ایم کیو ایم کیلئے نقصان کا سودا ثابت ہوسکتا ہے۔

دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان)کے بعد گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس بھی وفاقی حکومت سے ناراض ہوگئی ہے۔ ترجمان جی ڈی اے کا کہنا ہے کہ ہمارے تحفظات ابھی تک برقرار ہیں، ہم بھی حکومت سے ناراض ہیں۔ جی ڈی اے کے ترجمان سردار رحیم کا کہنا ہے کہ ہم حکومت کی طرف سے وعدے پورے ہونے کا چند دن اور انتظار کریں گے۔

ترجمان کا مزید کہنا ہے کہ ہم نے سندھ کے لیے ترقیاتی منصوبے اور نوجوانوں کے لیے روزگار مانگا ہے۔ ترجمان جی ڈی اے نے مزید کہا کہ ہم نے سندھ میں پیپلزپارٹی کے طرزِ حکمرانی پر بھی اعتراض کیا ہے، سندھ میں کرپشن اور اقرباء پروری سمیت کئی شکایات پر وفاقی حکومت نے جواب نہیں دیا۔ سردار رحیم کا کہنا ہے کہ پیرپگارا کی ہدایت پر جلد مشاورتی اجلاس بلایا جائے گا۔

سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے اتحادیوں کی ناراضگی نے ان کی وفاقی حکومت کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے۔ اگر وزیراعظم  عمران خان نے فوری طور پر اپنی اتحادی جماعتوںایم کیوایم پاکستان اور جی ڈی اے کے تحفظات دور نہیں  کیے تو وفاقی حکومت کی سیاسی مشکلات میں مذید اضافہ کے ساتھ اس کا وجود  بھی ممکنہ طور پر خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ پی ٹی آئی کے حلقو ں کا کہنا ہے کہ ایم کیوایم پاکستان اور جی ڈی اے کی قیادت سے رابطے کرکے ان کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ پی ٹی آئی کو یقین ہے کہ اس کے اتحادی وفاقی حکومت کی حمایت جاری رکھیں گے۔

سندھ کابینہ نے 2020 کوترقیاتی منصوبوں کو مکمل کرنے کا سال قراردیتے ہوئے سندھ کے تمام محکموں سے خالی سرکاری اسامیوں کی تفصیلات 15 جنوری تک طلب کرلی ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت کابینہ اجلاس میں سندھ کی ساحلی پٹی کو سرسبز بنانے کے لیے 25 ملین ڈالرزکی سرمایہ کاری، ساحلی علاقوں میں واقع 33 غیرقانونی جیٹیزکو قانون کے دائرے میں لانے کے لیے  فشریز رولز 1983 میں ترمیم،کوہستان میں پہاڑی بکروں کے شکار پرعائد پابندی کے خاتمہ اورکاروبارمیں آسانی کیلیے دکانوں کی رجسٹریشن فیس ختم کرنے کی بھی منظوری  دی گئی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بیروزگاری صوبہ سندھ سمیت ملک بھر کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔ حکومت سندھ کی جانب سے سرکاری اداروں میں خالی اسامیوں پر بھرتیوں سے لوگوں کو روزگار کے مواقع حاصل ہوںگے جبکہ پیپلزپارٹی کو اس اقدام کے سیاسی فوائد بھی حاصل ہوںگے ۔

گورنر سندھ عمران اسماعیل کی جانب سے گڈز ٹرانسپورٹرز کو ان کے مطالبات حل کرنے کی یقین دہانی کے بعد ان ٹرانسپورٹرز نے گذشتہ 8 روز سے جاری ہڑتال ختم کردی ہے جس کے بعد سامان  کی نقل وحمل بحال ہوگئی ہے۔اس ہڑتال کی وجہ سے حکومت کے ساتھ ساتھ برنس کمیونٹی اور ٹرانسپورٹرز کو بھاری مالی نقصان برداشت  کرنا پڑا۔ٹرانسپورٹرز کا کہنا ہے کہ  اب ہم توقع کرتے ہیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ان کے مسائل اور مطالبات کو بتدریج حل کریں گی۔ واضح رہے کہ اگر وفاقی حکومت پہلے ہی سنجیدگی سے ٹرانسپورٹرز کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتی تو شائد ہڑتال کی نوبت ہی نہیں آتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔