سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی بجائے عوام کو ریلیف دینے پر توجہ کی ضرورت

عامر خان  بدھ 22 جنوری 2020
کراچی سمیت صوبے کے تمام شہروں میں عوام آٹے کی تلاش میں سرگرداں نظر آرہے ہیں۔

کراچی سمیت صوبے کے تمام شہروں میں عوام آٹے کی تلاش میں سرگرداں نظر آرہے ہیں۔

کراچی: ملک بھر کی طرح صوبہ سندھ کے عوام کے لیے بھی بنیادی ضرورت کی سب سے اہم چیز آٹے کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف بن گیا ہے۔

کراچی سمیت صوبے کے تمام شہروں میں عوام آٹے کی تلاش میں سرگرداں نظر آرہے ہیں اور اگرکہیں آٹا میسر بھی ہے تو اس کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے دور ہیں۔اس اہم ترین مسئلے پر بھی وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے میں مصروف ہیں۔اس ضمن میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ایک اجلاس کی صدرات میں گندم  کے ذخیرہ اندوزوں  کے خلاف آپریشن شروع کرنے  کی ہدایت  کردی ہے۔ وزیراعلیٰ  سندھ  نے محکمہ  خوراک کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ سندھ کے گوداموں میں 3 لاکھ 35 ہزار ٹن گندم موجود ہے یہ ملوں  کو دے کر ان کی رقم وصول کریں۔ وزیراعلیٰ سندھ  نے  پاسکو سے مزید گندم خرید کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ کو ایک اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ مارکیٹ میں گندم کی قیمت میں استحکام لانے کے لیے  کچھ دن لگیں گے۔ وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا ہے کہ گندم کی ٹرانسپورٹیشن میں تاخیر ٹرانسپوٹرز کی پہیہ جام ہڑتال اور احتجاج کے باعث ہوئی۔ سید مراد علی شاہ نے بیورو آف سپلائی اینڈ پرائیزز کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ صوبے میں آٹے کی قیمتوں کو مستحکم رکھنے کے حوالے سے اپنا فعال کردار ادا کریں۔ادھر وفاقی حکومت کی جانب سے بحران کے خاتمے کے لیے بیرون ملک سے گندم منگوانے کے فیصلے کو حکومت سندھ نے مسترد کردیا ہے۔

وزیر زراعت سندھ اسماعیل راہو کا وفاقی حکومت کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہنا تھاکہ جب وفاق نے کہا تھا کہ ان کے پاس 40 لاکھ ٹن گندم کا ذخیرہ موجود ہے تو درآمد کرنے کا جواز نہیں بنتا تھا، وفاقی حکومت کا باہر سے گندم منگوانے کا فیصلہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ اگر تین لاکھ ٹن گندم باہر سے منگوانی تھی تو 40 ہزار ٹن گندم افغانستان بھیجی کیوں گئی۔ درآمدی گندم مارچ سے پہلے ملک نہیں پہنچ سکتی۔ مارچ تک سندھ میں گندم کی نئی فصل آجائے گی۔ ان کا کہنا تھاکہ سندھ حکومت نے صوبے میں سستے آٹے کے اسٹال لگا کر فراہمی شروع کردی ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ کی ہدایت پرکراچی، حیدرآباد، ٹھٹھہ، لاڑکانہ اور سکھر میں فلورملز کے باہر اسٹال لگائے گئے ہیں۔کراچی کے شہری بچت بازاروں میں جاکر اسٹالوں سے دس کلو آٹے کا تھیلا 430 روپے میں خرید سکتے ہیں۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں حلیم عادل شیخ اور فردوس شمیم نقوی نے تمام ذمہ داری حکومت سندھ پر ڈال دی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت کو وفاق کی طرف سے  چار لاکھ ٹن گندم دی گئی لیکن ایک لاکھ ٹن گندم اٹھائی گئی باقی سندھ حکومت نے نہیں اٹھائی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ محکمہ خوراک سندھ  بینکوں کا 90 ارب کا مقروض ہے، بلاول جواب دیں نوے ارب روپے سندھ کی عوام کے کہاں گئے۔

جہاں ایک طرف شہریوں کو آٹے کے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا ہے وہیں صدر مملکت کی جانب سے اس بحران سے لاعلمی ظاہر کیے جانے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ڈاکٹرعارف علوی کا کراچی میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھاکہ مجھے اس کا علم نہیں ہے لیکن معلوم ہونا چاہیے تھا۔ صدرمملکت نے پیرکوکراچی میں قومی ادارہ برائے صحت اطفال(این آئی سی ایچ)اور امراض قلب (این آئی سی وی ڈی) کے اچانک دورے  کیے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت نے مہنگائی کم کرنے کے دعوے کیے تھے لیکن یہ دعوے خزانے کی صورت حال معلوم ہونے سے پہلے کے ہیں۔

سیاسی حلقوں  کا کہنا ہے کہ صدر مملکت جیسی اہم شخصیت کی جانب سے اس صورت حال سے لاعلمی کا اظہار یہ ثابت کر رہا ہے کہ اعلیٰ حکومتی شخصیات کو عوام کی مشکلات کا رتی برابر بھی احساس نہیں ہے۔کراچی سمیت صوبے بھر میں اس وقت ایک بحرانی کیفیت ہے۔ نان بائیوں نے روٹی کی قیمتو ں میں اضافہ کردیا ہے۔ مختلف علاقوںمیں روٹی 12سے 15روپے میں فروخت ہورہی ہے۔آٹے کی قیمتوں کو جیسے پر لگ گئے ہیں اور اب اس کی قیمت 75روپے فی کلو تک جا پہنچی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس وقت پوائنٹ اسکورنگ میں لگی ہوئی ہیں اور عوام کو دو وقت کی روٹی کا مسئلہ درپیش ہے۔

ان حلقوں کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے 40 ہزار ٹن گندم افغانستان بھجوانے کا فیصلہ بھی انتہائی حیرت انگیز ہے جب ملکی ضروریات ہی پوری نہیں ہو رہی ہیں تو کسی دوسرے ملک کو گندم کس طرح برآمد کی جا سکتی ہے۔ حکومت سندھ نے سستے آٹے کی فروخت کے لیے اعلانات کیے ہیں تاہم اب تک اس کے ثمرات عوام تک پہنچنا شروع نہیں ہوئے ہیں۔ صوبائی حکومت کے حکام کو چاہیے کہ وہ وزیر اعلیٰ سندھ کے احکامات پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد کرائیں تاکہ عوام کو کچھ ریلیف مل سکے۔

تحریک انصاف کی جانب سے ایم کیو ایم پاکستان کو منانے کی ایک اور کوشش ناکام ہوگئی ہے۔ حکومت کی جانب سے مسائل حل کرنے کی یقین دہانی کے باوجود ایم کیو ایم نے  ’’فی الحال ‘‘وفاقی کابینہ میں شامل ہونے سے  صاف انکار کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر واضح کیا ہے کہ حکومت میں شمولیت ان کا مسئلہ نہیں، عوامی مسائل کا حل ان کا مقصد ہے۔

ایم کیو ایم کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی جانب سے وفاقی کابینہ سے علیحدگی کے بعد دونوں جماعتوں کے درمیان مذاکرات کا دوسر ا دور  ایم کیو ایم کے عارضی مرکز بہادر آباد میں ہوا، پی ٹی آئی کی جانب سے وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک ، اسد عمر ، پارٹی کے اہم ترین رہنما جہانگیر ترین نے ایم کیو ایم کے سر براہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اور رابطہ کمیٹی کے ارکان کے ساتھ دو گھنٹے سے زائد بات چیت کی۔ ملاقات کے بعد  اس بات کے اشارے ملے ہیں کہ مذاکرات میں مثبت  پیش رفت ہوئی ہے اور مذاکرات کا تیسرا دور جلد اسلام آباد میں ہوگا۔ وزیردفاع پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے اور جلد خوش خبری مل جائے گی۔

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا بھی کہنا تھا کہ بات چیت میں واضح پیش رفت ہوئی  ہے۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان بات چیت مثبت انداز میں آگے بڑھ رہی ہے۔ تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کو اس وقت دیگر اتحادیوں کی جانب سے بھی مشکلات کا سامنا ہے اس لیے وہ پوری کوشش کرے گی کہ ایم کیو ایم کو راضی کر لیا جائے۔ دونوں جماعتوں کے درمیان مذاکرات کے تیسرے دور میں اہم پیش رفت سامنے آسکتی ہے اور غالب امکان یہی ہے کہ ایم کیو ایم اپنے فیصلے میں لچک پیدا کرے گی۔

آئی جی سندھ ڈاکٹرکلیم امام کی تبدیلی کے حوالے سے معاملہ ہم اب عدالت میں چلا گیا ہے اور سندھ ہائی کورٹ نے ڈاکٹر کلیم امام کو تبدیل کرنے سے روکتے ہوئے وفاق اور صوبائی حکومت سے جواب طلب کر لیا۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ جب تک اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے جواب نہیں آجاتا کلیم امام آئی جی سندھ رہیں گے۔ سندھ ہائیکورٹ پہلے ہی فیصلہ دے چکی ہے صوبہ اور وفاق کی مشاورت کے بعد آئی جی تبدیل ہوگا ۔ قانون میں آئی جی سندھ کے عہدے کی مدت 3 سال ہے۔

صوبائی کابینہ میں آئی جی کی کارکردگی پر بھی بات کی گئی ۔ نئے آئی جی کی تعیناتی قانون کے مطابق کی جائے۔اس سے قبل ترجما ن حکومت بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کا پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آئی جی سمیت ہم سب آئین و قانون کے تابع ہیں اور آئی جی کو تبدیل کرنا حکومت کا استحقا ق ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ صوبائی حکومت اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے جو بھی فیصلہ کرنا پڑا کرے گی۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے اب یہ معاملہ عدالت کے روبرو ہے ،اس لیے حکومت سندھ کو آئی جی سندھ کی تبدیلی کے حوالے سے انتظار کرنا پڑے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔