ہوائی قلعوں کی تعمیر
کیا برآمدات کے لیے پانچ ہزار نئی صنعتوں کا کوئی منصوبہ ہے؟ کیا شرح سود میں کوئی کمی کی جا رہی ہے؟
پاکستان کے مشیر خزانہ عبد الحفیظ شیخ نے فرمایا ہے کہ مہنگائی کا جلد خاتمہ ہوگا، جب کہ ملک کے بیشتر ماہرین معاشیات اس سے اتفاق نہیں رکھتے۔ کچھ کا خیال ہے کہ یہ سیاسی بیان ہے ، اس سے پہلے بھی ہمارے مشیر خزانہ کا ٹماٹروں کی قیمت کے بارے میں کہنا تھا کہ قیمت سترہ روپے فی کلو ہے جب کہ اس وقت اس کی قیمت دو سو روپے فی کلو تھی۔
نتیجہ یہ ہوا کہ میڈیا اور عوامی حلقوں میںان کی اور حکومت کی ساکھ پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ مہنگائی کے خاتمے اور معیشت کی بحالی کے بارے میں اگر وہ یہ بھی بتا دیتے کون کون سے ممکنہ منصوبے ہیں جس سے خزانہ بھرجائے گا۔
کیا برآمدات کے لیے پانچ ہزار نئی صنعتوں کا کوئی منصوبہ ہے؟ کیا شرح سود میں کوئی کمی کی جا رہی ہے؟ صنعتکار کس طرح نئی صنعتوں میں سرمایہ کاری کریں گے۔ ڈالرجمع کرا کے بھاری منافع کے ساتھ ڈالر نکالنے والو ں کو جو کھلی آزادی دی گئی ہے، اس کے نتیجے میں زر مبادلہ کے ذخائر کے خاتمے کی روک تھام کا کیا انتظام ہے۔
پانچ کروڑ افراد جو غربت اور پسماندگی میں ہیں ان کی بہتری کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ آخرگندم اور چینی کے بحران کی اعلیٰ عدالتی تحقیقات میں کیا رکاوٹ ہے۔ بلوچستان کی معدنیات کا کیا منصوبہ ہے عام لوگوں کی بہتری ، نئے اسپتالوں ، اسکولوں کی تعمیر ، معیار تعلیم میں اضافے بڑھتی ہوئی آبادی کی روک تھام اور زراعت کے فروغ کے لیے صوبوں اور مرکزمیں کس طرح کا تعاون ہے۔ کتنے وقت میں ہم اپنی برآمدت کے ذریعے تیس ارب ڈالر سالانہ کما نے کے قابل ہونگے۔ نئے روزگارکے کون کون سے منصوبے ہیں ، جس سے بے روزگاری کا خاتمہ ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت اسٹیٹ بینک سے قرض نہیں لے گی اور اپنے اخراجات کم کرے گی جس سے افراط زر نہیںہوگا اور رفتہ رفتہ قیمتیں کم ہوجائیں گی۔
ہو سکتا ہے ، ان کی بات درست ہو زمینی حقائق کچھ اور ہیں ٹیکسو ں کا ہدف پورا ہونے کے امکانات ختم ہو رہے ہیں۔ آمدنی بڑھانے کے جدید طریق کار پرکوئی توجہ نہیں دی گئی۔ بجٹ میںجب مرکز اور صوبوں کے پاس تنخواہ دینے کے پیسے نہیںہونگے ایسی صورت میںایک مرتبہ پھر قرض کا نیا بوجھ ہوگا ، البتہ کسی جادوئی چھڑی سے دولت کی برسات کا فارمولا انھوں نے میڈیا سے چھپا رکھا ہے جسے وہ عین بجٹ والے دن ظاہر کریں گے تو پھر وہ پاکستان کے تمام سیاستدانوں کو پیچھے چھوڑنے میں کامیاب ہو جائیںگے۔ تاریخی کارنامے پر دنیا میں اہم مقام بھی حاصل ہو جائے گا۔ قوم ان کی کامیابی کے لیے دعا گو ہے ان کی کامیابی سے خوشحالی کے خواب کی تعبیر ملے گی۔
مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف جلد نئی تحریک کی منصوبہ بندی کرنے والے مولانا فضل الرحمن ان کی راہ میں شاید ہی کوئی رکاوٹ بن سکیں گے جو اس وقت پوری قوت سے حکومت کو للکار رہے ہیں۔ اس سے قبل جب انھوں نے اسلام آباد کا رخ کیا تھا تو وہ ٹی وی اسکرین پر چھا گئے تھے۔
بیشتر مبصرین کا خیال تھا کہ مولانا کامیاب ہوگئے ہیں ، صرف اعلان باقی رہ گیا ہے ، اب وہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے معاملات پنجاب کی ایک اہم سیاسی شخصیت کے ساتھ طے پا گئے تھے ، ہو سکتا ہے کہ وہ ڈپٹی وزیر اعظم بن جاتے۔ بلوچستان کی حکومت بھی انھیں ملنے والی تھی اور صوبہ سرحد میں بھی وہ حکومت کا حصہ بن جاتے لیکن شاید کسی چھوٹی سی بات کی وجہ سے معاملہ طے نہ ہوا۔ اس وقت جو راز و نیاز ہوئے تھے ، مولانا اسے راز رکھنا چاہتے ہیں۔ رہبر کمیٹی سے انھوں نے مسلم لیگ ن اور پی پی کو نکال باہر کیا اب وہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ باور کرایا جائے کہ ملک میں ان کے علاوہ کسی سیاسی جماعت کے پاس لوگوں کو سڑکوں پر لانے کی صلاحیت نہیں ہے۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ مولانا کو صرف حکومت کی تبدیلی سے دلچسپی ہے انھیں حکومت میں کسی عہدے شان و شوکت اور سرکاری رہائش وغیرہ سے کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ ایوان کے اندر سے تبدیلی کے ذریعے وہ ایک صاف ستھری حکومت لانا چاہتے ہیں جس کے بعد ملک سے ہر قسم کی بد عنوانی کا خاتمہ ہو جائے گا، سرکاری اداروں میں ہرکام میرٹ پر ہوگا ، کسی قسم کی سفارش نہیں ہوگی ، کسی مسئلے پر کسی وزیر اور رکن اسمبلی کوکچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ مولانا کے کہنے پر مسلم لیگ ن اور پی پی کے تمام اراکین بیک وقت عدم اعتماد کے لیے حاضر ہو کر ووٹ دیں گے۔
عمران خان کی حکومت با آسانی عدم اعتماد کے ذریعے تبدیل ہو جائے گی ، شہباز شریف ممکنہ وزیر اعظم ہونگے۔ تبصروں کی حد تک بات کرنے میں کوئی مذائقہ نہیں ہے۔ اصل بات اس وقت سامنے آئے گی جب تحریک عدم اعتماد پیش ہوگی اس وقت تو خود مولانا فضل الرحمان پی پی اور مسلم لیگ پر عدم اعتماد کر رہے ہیں۔ نئی صورت حال میں پی پی اور مسلم لیگ ہی کچھ کرسکتی ہیں۔ دونوں جماعتوں میں بہت دوریاں ہیں ، وہ کس طرح شہباز شریف یا بلاول بھٹو کے وزیر اعظم بننے پر متفق ہونگے۔ نیا فارمولہ سامنے آسکتا ہے جس میں کسی غیر جانبدارشخصیت پر سب متفق ہوجائیں ، اس کے لیے سب جماعتوں میں اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا۔
اس وقت جماعت اسلامی نے بھی ایوان کے اندر سے تبدیلی کی مخالفت کر دی ہے۔ مسلم لیگ ق نے بھی حکومت سے سمجھوتہ کر لیا ہے، ان کے مطالبات تسلیم کر لیے گئے ہیں۔ چار ضلعوں میں ان کی مرضی کے افسران تعینات ہونگے اس سارے کھیل میں عوام کی خوشحالی کی منصوبہ بندی نظر انداز ہو رہی ہے۔ مسئلہ ملکی معیشت کی بحالی کا ہے۔ مہنگائی کے خاتمے کے لیے اقدامات کا اعلان خوش آیند ہے۔ اس کا نتیجہ خیز ہونا ضروری ہے۔ پاکستان کے پاس نوجوان افرادی قوت ایک بہت بڑا اثاثہ ہے، اس کو جدید ٹیکنالوجی کی تربیت دے کر ان کی رہنمائی کی جائے تو وہ انقلاب پیدا کرسکتے ہیں لیکن اس کے لیے بھرپور اقدامات کرنے ہونگے۔