کابل: افغان طالبان کے پاکستان سے ادویات کی تجارت روکنے کے فیصلے کے بعد افغانستان میں شدید ادویات کا بحران پیدا ہو گیا ہے۔
طالبان حکومت کے نائب سربراہ اور معاشی امور کے نگران عبدالغنی برادر نے حال ہی میں پاکستانی ادویات پر مکمل پابندی کا اعلان کیا اور افغان درآمد کنندگان کو ہدایت دی کہ وہ تین ماہ کے اندر پاکستانی کمپنیوں کے واجبات ادا کریں اور ادویات کے لیے نئے ذرائع تلاش کریں۔
تاہم جرمن میڈیا کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے لیے نئے سپلائرز تلاش کرنا آسان نہیں ہے۔
طالبان کے ڈائریکٹر جنرل برائے انتظامی امور نوراللہ نوری کے مطابق اس وقت افغانستان میں استعمال ہونے والی ادویات میں 70 فیصد سے زیادہ پاکستان سے آتی ہیں، لیکن دونوں ممالک کے درمیان سرحد تقریبا دو ماہ سے کشیدگی کی وجہ سے بند ہے۔
افغانستان میں ادویات کی قلت کے باعث قیمتوں میں اضافہ اور مارکیٹ میں غیر معیاری، ایکسپائریڈ یا جعلی ادویات کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔
جرمن میڈیا کے مطابق طالبان اب دیگر ممالک کے ذریعے ادویات کی فراہمی کے لیے معاہدے کر رہے ہیں۔ اسی دوران بھارت نے کابل کے لیے 73 ٹن ادویات، ویکسین اور طبی سامان بھیجنے کی تصدیق کی ہے، تاہم یہ امداد ملک کی بڑی آبادی کے لیے صرف علامتی اہمیت رکھتی ہے۔