اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا دورہ پاکستان بڑی کامیابی

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 24 فروری 2020
بھارت پر دباؤ بڑھ رہا ہے، پاکستان کو ایف اے ٹی ایف میں بلیک لسٹ کروانے میں ناکامی واضح مثال ہے، تجزیہ نگار۔ فوٹو: ایکسپریس

بھارت پر دباؤ بڑھ رہا ہے، پاکستان کو ایف اے ٹی ایف میں بلیک لسٹ کروانے میں ناکامی واضح مثال ہے، تجزیہ نگار۔ فوٹو: ایکسپریس

عالمی سطح پر پاکستان کا سافٹ امیج قائم ہورہا ہے جس کی واضح مثال گزشتہ چند ہفتوں میں ہونے والے عالمی شخصیات کے دورے ہیں۔ ترک صدر رجب طیب اردوگان، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس سمیت متعدد شخصیات نے پاکستان کا دورہ کیا جن میں سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا دورہ انتہائی اہم قرار دیا جارہا ہے۔ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کاوشوں کو سراہا۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے پہلی مرتبہ پاکستان کی سرزمین پر کھڑے ہوکر مسئلہ کشمیر پر بات کی جو یقینا پاکستان کی جیت ہے۔ اسی طرح ترک صدر نے بھی مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کی بھرپور تائید کی لیکن دنیا کے کسی بھی ملک نے مسئلہ کشمیر پر بھارت کی حمایت نہیں کی بلکہ اس پر عالمی دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی بات کریں تو بھارت نے پاکستان کو بلیک لسٹ کروانے کی ہرممکن کوشش کی مگر اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جو پاکستان کی بڑی سفارتی کامیابی ہے۔ ان تمام معاملات کا جائزہ لینے کیلئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

کرنل (ر) فرخ چیمہ (دفاعی تجزیہ نگار)

پاکستان میں عالمی ایکٹیویٹی زیادہ ہوگئی ہے جس کی وجوہات دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے ماضی میں سعودی عرب اور امریکا پر انحصار کر رکھا تھا۔ امریکا نے بھارت کو اپنا سٹرٹیجک پارٹنر قرار دے دیا جبکہ سعودی عرب نے وہاں زیادہ سرمایہ کاری اور مسئلہ کشمیر پر اپنے رویے سے یہ پیغام دے دیا کہ اس کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہے۔ امریکا کے مدمقابل چین اور روس ہیں جبکہ سعودی عرب کے مقابل ایران، ترکی اور قطر ہیں۔ہمارے ان ممالک کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات موجودہ مسائل اور یہاں ہونے والی عالمی ایکٹیوٹی کی وجہ ہیں۔ ان سارے حالات میں ہمیں جارحانہ سفارتکاری کی ضرورت ہے۔ ہمیں دنیا کو یہ باور کروانا ہے کہ ہم ماضی کی تمام خرابیاں دور کرچکے ہیں اور سب کے ساتھ تعلقات میں توازن چاہتے ہیں۔ ترک صدر کا پاکستان آنا خوش آئند اور دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا پاکستان آنا بہترین ہے۔ کہا جارہا ہے کہ یہ دورہ ، امریکا کے اپنے مفاد کی وجہ سے ہوا ہے۔ میرے نزدیک افغانستان سے امریکا کے نکل جانے میں جتنا فائدہ امریکا کا ہے اتنا ہی ہمارا ہے۔ایک اچھے معاہدے کے تحت امریکا وہاں سے نکلے اور ہم افغان مہاجرین کو وطن واپس بھیجیں، اس طرح خطے میں امن قائم ہوجائے گا۔ کشمیر کے مسئلے پر پہلی مرتبہ اقوام متحدہ کے سکیورٹی جنرل نے کھل کر بیان دیا ہے۔ سیکرٹری جنرل نے جن 5 پوائنٹس کا یہاں اعتراف کیا، اگر ماضی کے تناظر میں دیکھیں توجن باتوں کیلئے ہم نے 72 برسوں میں وفد بھیجے، وہ ساری باتیں انہوں نے یہاں کردیں۔ ہمیں اس پر اب آرام سے نہیں بیٹھنا چاہیے بلکہ کوششیں مزید تیز کرنا ہوں گی۔ دنیا میں ہماری اہمیت کا اجاگر ہونا صاف نظر آرہا ہے۔ دنیا ہمارے ساتھ تعلقات کو فروغ دینا چاہتی ہے جس میں تجارتی و سٹرٹیجک تعلقات شامل ہیں۔معیشت کی گاڑی کے 4 پہئے زراعت، صنعت، برآمدات اور ڈویلپمنٹ ہیں جبکہ ایڈمنسٹریشن انجن ہوتی ہے۔ معیشت کی گاڑی کے چاروں ٹائر خراب ہیں، ا نہیں ٹھیک کرنے کیلئے سب کو مل کر حکومت کا ساتھ دینا ہوگا۔ ملک میں سیاسی جماعتیں پہلے علاقائی جماعتیں بنی اور اب جتھے بن چکی ہیں۔ ان کا اب ملکی بہتری میں کوئی کردار نہیں ہے لہٰذا لوگوں کو آگے آنا ہوگا۔ ہمیں ہر جگہ اصلاحات کی ضرورت ہے۔ آئین و قانون بناتے وقت ہی سقم چھوڑ دیے جاتے ہیں جن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے طاقتور، عام آدمی کا استحصال کرتا ہیں۔ ہمیں اصلاحات کے ذریعے ان خرابیوں کو دور کرنا ہے۔ ماضی میں جب بھی حکومت گرائی گئی تو اس کے بعد آنے والی قیادت اس کا متبادل نہیں تھی۔ اب بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔ لوگوں نے عمران خان کو سپورٹ کیا، ان سے بے شمار امیدیں وابستہ کیں اور اب بھی ہیں، مافیا ان کی ٹانگیں کھیچ رہا ہے، ان کے لیے مشکلات پیدا کی گئی ہیں اور وہ تمام لوگ جو فائدہ اٹھاتے رہے ہیں، عمران خان کے خلاف متحد ہیں۔ وہ سیاسی جماعتیں جن کے مفادات باہر ہیں، وہ بھی عمران خان کے خلاف متحد ہیں۔ اب بھی لوگ پرانے چہروں میں ہی متبادل تلاش کر رہے ہیں جو افسوسناک ہے۔ حکومت کا آغاز بہترہے، یہ مشکلات آنی تھی مگر امید ہے کہ حالات بہتر ہوجائیں گے۔ حکومت اور اپوزیشن آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کریں تاکہ مسائل حل کرکے ملک کو بہتر بنایا جاسکے۔

سلمان عابد (دانشور)

گزشتہ کچھ عرصہ میں پاکستان کا عالمی امیج بہتر ہوا ہے جسے ہمارے لوگ تسلیم نہیں کرر ہے مگر دنیا کے دیگر ممالک میں موجود افراد اس حوالے سے لکھ رہے ہیں۔ پاکستان نے گزشتہ دہائیوں میں دہشت گردی کے حوالے سے بہت مشکل وقت گزارا ہے۔ دنیا میں ہمارا منفی تاثر قائم تھا جس سے نکلنے کیلئے پاکستان نے بہت محنت کی اور بڑے اقدامات کیے ہیں۔ پاکستان نے نیشنل ایکشن پلان بنایا، دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کا لائحہ عمل ترتیب دیا جس کی وجہ سے آج پاکستان میں دہشت گردی کی وہ صورتحال نہیں ہے جو 10 برس قبل تھی۔ اس کا اعتراف ملک کے اندر اور باہر بھی ہورہا ہے بلکہ وہ لوگ بھی اس کے معترف ہیں جو انگلیاں اٹھاتے تھے کہ پاکستان دہشت گردی کی جنگ میں سنجیدہ نہیں ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی سٹرٹیجی میں خود کو دنیا میں منوایا ہے اورا س سے بھارت کا یہ پراپیگنڈہ کہ پاکستان کے اقدامات مصنوعی ہیں اور یہ دہشت گردوں کو اپنانا اثاثہ سمجھتا ہے، دم توڑ گیا۔ FATF کے صرف مالی نہیں بلکہ سیاسی محرکات بھی ہیں۔ کوئی بھی ملک ایک بار گرے لسٹ میں شامل ہوجائے تو نکلنے میں 2 سال سے زائد عرصہ لگ جاتا ہے، یہ کوئی جادوئی عمل نہیں ہے کہ چند ماہ بعد ہی کلیئر کر دیا جائے۔بھارت نے FATF میں ہمیں بلیک لسٹ کروانے میں سفارتی محاذ پر بہت زیادہ خرچ کیا مگر اس کے باوجود اسے کامیابی نہیں ملی۔ FATF عالمی طاقتوں کا ’’بارگینگ ٹول‘‘ ہے تاکہ وہ ڈومور کی بات کر سکیں۔ میرے نزدیک جون میں ہونے والی FATF کی میٹنگ میں بھی پاکستان گرے لسٹ میں ہی رہے گا جبکہ دسمبر میں گرے لسٹ سے نکالا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے 2 باتیں اہم ہیں۔ ایک افغان امن عمل ہے جبکہ دوسرا عالمی ایونٹس و شخصیات کا دورہ پاکستان ہے۔ یہاں یہ کہا گیا کہ افغانستان کا مسئلہ حل ہونے کے بعد پاکستان کے پاس بارگیننگ کیلئے کیا ہوگا۔ اصل بارگیننگ تو اس کے بعد ہوگی۔ ہیلری کلنٹن اور امریکیوں نے بارہا کہا کہ ایک بار معاہدہ کرکے نکل گئے، اب اگر ہم نے آگے بڑھنا ہے تو معاہدے پر عملدرآمد یقینی بنانا ہے۔ یہ فالو اپ پاکستان کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ امریکا نے ماضی میں پاکستان کے بغیر طالبان کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی مگر ناکامی ہوئی۔ معاہدے کے باوجود بھی افغان حکومت اور طالبان کے درمیان خلاء موجود ہے، اس میں اگر کوئی کردار ادا کر سکتا ہے تو وہ پاکستان ہے۔ میرے نزدیک اصل کھیل معاہدے کے بعد شروع ہوگا۔ پاکستان کو FATF میں جو ریلیف ملے گا وہ افغانستان سے منسلک امریکی مفادات کے تناظر میں ہوگا ۔ امریکا نے پہلی مرتبہ FATF کے معاملے میں پاکستان کی بلاواسطہ حمایت کی اور بھارتی موقف تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ امریکا سمجھتا ہے کہ افغانستان کے مسئلے میں پاکستان اس کے لیے اہم ہے لہٰذا ہمارے پاس کھیلنے کے لیے بہت کچھ ہوگا۔ پاکستان میں کبڈی کا ورلڈ کپ ہوا، اب پی ایس ایل ہورہا ہے جس میں دیگر ممالک کے کھلاڑی شریک ہیں۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل آئے، اس سے پہلے شہزادہ ولیم آئے،اب کہا جا رہا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے صدر آئیں گے۔ یہ سارے معاملات بتا رہے ہیں کہ اب پاکستان 10 برس پرانا پاکستان نہیں ہے۔ کانگریس کے ایک بڑے لیڈر نے بھارتی پارلیمنٹ میں یہ کہا کہ پاکستان نے اپنی سفارتکاری سے ہمیں سیاسی طور پر دنیا میں تنہا کردیا ہے۔ مسئلہ کشمیر پر بھارت کو دنیا میں کوئی حمایت نہیں مل رہی۔ خود ہندوستان کی پارلیمنٹ سے یہ آوازیںآ رہی ہیں کہ بھارت اقلیتوں کیلئے غیر محفوظ ملک ہے۔ ہم نے دنیا کو یہ باور کروایا کہ بھارت جو کچھ کشمیر میں کر رہا ہے وہ انسانیت سوز ہے، اگر دنیا ہمارا ساتھ نہیں دے گی تو آگے نہیں بڑھا جاسکتا لہٰذا اب بھارت پر عالمی دباؤ آیا ہے۔ اب یہ باتیں بھی ہورہی ہیں کہ بھارت کو بھی گرے لسٹ میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ کشمیر کا معاملہ اب رکنے والا نہیں ہے۔ پاکستان نے اس حوالے سے بہترین سیاسی، سفارتی اور ملٹری ڈپلومیسی کی ہے جس کی وجہ سے بھارت اس وقت عالمی تنہائی کا شکار ہورہا ہے۔عام آدمی کو ریلیف نہیں مل رہا، وہ مہنگائی سے تنگ ہے اور اس میں غصہ پایا جا رہا ہے۔ گورننس کے مسائل بھی ہیں جو سنگین ہوتے جا رہے ہیں، اس طرف توجہ دینا ہوگی۔ 18 ویں ترمیم کے بعد اب وفاقی حکومت گورننس کے حوالے سے ذمہ دار نہیں ہے کیونکہ  صوبائی حکومتوں کو بااختیار بنایا گیا ہے اور انہیں معاشی اختیارات بھی دیے گئے ہیں۔ وزیراعظم کو چاروں وزرائے اعلیٰ کو بلا کر گورننس کے نظام کو بہتر کرنا چاہیے۔ اس کے لیے پہلا قدم بلدیاتی نظام کو مضبوط کرنا ہے۔ پاکستان کو اس وقت دو کام کرنے ہیں۔ پہلا یہ کہ اندرونی گرے ایریاز کو ٹھیک کرنا ہے جن میں گورننس اور عام آدمی کی معیشت شامل ہیں۔ احساس پروگرام جیسے منصوبے اگر صحیح معنوں میں ہوجائیں اور لوگوں تک اس کے ثمرات پہنچے تو اس میں دورائے نہیں ہے کہ عام آدمی کی حالت بہتر ہوجائے گی۔ ٹیکس سختی سے نہیں بلکہ ریاست پر اعتماد بحال ہونے سے اکٹھا ہوتا ہے۔ اس کی مثال دہلی کے کیجری وال کی ہے۔ دہلی میں عام آدمی پارٹی کے آنے سے پہلے اور بعد کے ٹیکس کولیکشن میں واضح فرق ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کیجری وال نے اعتماد قائم کیا۔ انہوں نے یونین کونسل کی سطح پر سرکاری ہسپتال بنائے، سکولوں کی حالت بہتر کی جس سے لوگوں کا اعتماد بحال ہوا ہے اور وہاں ٹیکس کولیکشن زیادہ ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں نظام الٹ ہے۔ طاقتور سے ٹیکس نہیں لیا جاتا اور کمزوروں پر ٹیکس بڑھا دیا جاتا ہے۔ موجودہ مسائل میں پاکستان کو جارحانہ اصلاحات کی ضرورت ہے۔ یہاں موجود مافیاز اس پر شور مچائیں گے مگر حکومت کو ہر حال میں اصلاحات لانا ہوں گی۔ ماضی میں سمجھوتے ہوتے رہے، اگر موجودہ حکومت نے بھی ایسا ہی کرنا ہے تو پھر یہ کڑوی گولی کون نگلے گا؟ اس کا خمیازہ تو ملک کو بھگتنا پڑے گا۔ عالمی سطح پر ہمیں جو کامیابیاں ملی ہیں ان پر زیادہ خوش نہیں ہونا چاہیے بلکہ سفارتی محاذ پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ FATF میں اگر 14 پوائنٹس پر ہمارے کام کو سراہا گیا ہے تو ہمیں دنیا کو اس بارے میں بتانا چاہیے۔ ہمارے ہاں کالعدم تنظیموں کے ساتھ ماضی اور حال میں ہونے والا سلوک مختلف ہے، اب ان تنظیموں کی ریلیاں، جلسے، جلوس نہیں ہورہے اور نہ ہی انہیں چندہ اکٹھا کرنے کی اجازت ہے۔ ان تنظیموں کی بڑی سخت مانیٹرنگ ہورہی ہے۔ یہ پاکستان کی ضرورت ہے ہمیں صرف عالمی دباؤ کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے مسائل کو دور کرنے کیلئے بھی اقدامات کرنے چاہئیں۔ دنیا میں ہمیں اپنے سافٹ امیج کو دوبارہ بحال کرنا ہے۔ اس کے لیے ہمیں اپنی سیاحت کو فروغ دینا ہوگا۔اسلام آباد اور لاہور کو دنیا میں محفوظ ملک قرار دیا گیا ہے، ہمیںا س سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ بھارت میں سیاحت کم ہورہی ہے جس کی وجہ خواتین کے خلاف تشدد، کشمیر میں مظالم و دیگر مسائل ہیں، ہمیں اس سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان مذہبی سیاحت پر بھی توجہ دے رہے ہیں،ا س کے علاوہ کھیلوں سے بھی پاکستان کا عالمی امیج بہتر ہورہا ہے۔ پی ایس ایل میں آنے والے دیگر ممالک کے کھلاڑی اب پاکستان کے سفیر ہیں، وہ دنیا کو بتا رہے ہیں کہ پاکستان اب پہلے جیسا نہیں، بلکہ ایک محفوظ ملک ہے۔ ہمیںا پنے سفارتخانوں کو متحرک کرنا ہوگا۔ ہمیں بھارت سے سیکھنا ہوگا کہ وہ کس طرح اپنے سفارتخانوں کو متحرک رکھتا ہے، ان پر خرچ کرتا ہے کہ وہ بھارت کے بیانیے کو دنیا میں فروغ دیں۔ نیشنل ایکشن پلان میں 6 نکات ایسے ہیں جن پر کام ہوا جبکہ 14 کے قریب ایسے نکات ہیں جن پر کام نہیں ہوا لہٰذا ان پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پیغام پاکستان کو فروغ دینا ہوگا۔ہمیں سوشل میڈیا پر بھی توجہ دینا ہوگی۔ وہاں پر ہمارے خلاف جنگ لڑی جارہی ہے اور بھارت ہمارے خلاف ہرممکن سازش کر رہا ہے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ، حکومت اور اپوزیشن کا اتفاق ہے کہ ہم نے چین اور امریکا کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم کرنا ہے۔ اگر سی پیک کو رول بیک کرنے کی بات ہوتی تو چین کبھی بھی اس طرح ہمارے ساتھ کھڑا نہ ہوتا۔ ہم نے چین اور امریکا کو بتا دیا ہے کہ دونوں ممالک کے ساتھ متوازن تعلقات رکھے جائیں گے۔

ڈاکٹر عاصم اللہ بخش (سیاسی تجزیہ نگار)

2016ء سے چلنے والی ’’ایف اے ٹی ایف‘‘ کی کارروائی باکل ’’پریسلرامینڈمنٹ‘‘ جیسی ہے۔ پریسلر امینڈمنٹ کا تعلق ایٹمی مسئلے سے تھا۔FATF کا تعلق نیوکلیئر مسئلے سے بھی ہے مگر اس کا اصل تعلق 2013ء کے بعد سے پاکستان کی خارجہ و معاشی پالیسی میں ہونے والی تبدیلی سے ہے۔ پاکستان کا جھکاؤ امریکا کے بجائے چین کی طرف زیادہ جس کے بعد یہ تلوار ہمارے سر پر لٹکا دی گئی۔ FATF کے 27 نکات ہیں، اگر پاکستان ان سے زیادہ کام بھی کر لے اور ’اصل‘ کام نہ کرے تب تک گرے لسٹ میں ہی رہے گا۔ ’اصل‘ کام امریکا کے زیر تسلط رہنا ہے۔ پاکستان کو بلیک لسٹ بھی نہیں کیا جائے گا اور گرے لسٹ سے بھی نہیں نکالا جائے گا۔ پاکستان نے گرے لسٹ سے نکلنے کیلئے ترپ کے دو پتے کھیلے مگر وہ بیکار گئے، ان کا خاطر خواہ اثر نہیں ہوا۔ ایک کام حافظ سعید کو سزا دینا ہے کیونکہ یہ عرصہ دراز سے چلا آنے والا مسئلہ تھا، جسے بھارت کے ساتھ ساتھ فرانس اور برطانیہ نے بھی اٹھایا۔ برطانیہ اور فرانس FATF کی کارروائی کے پرائم موورز تھے۔ دوسرا کام افغانستان کے مسئلے کا حل تھا۔ اگر امریکا اور افغان طالبان میں معاہدہ ہوجاتا ہے تو پھر پاکستان اسے بات چیت کے ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کرسکے گا بلکہ الٹا  ذمہ داری عائد ہوجائے گی کہ پاکستان گارنٹی دے کہ یہ باتیں پوری ہوں گی۔ پاکستان نے امریکا کی افغانستان کے مسئلے کے حل میں جو مدد کی اس کے نتیجے میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل پاکستان آگئے، اس سے زیادہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ہم اس سے جو حاصل کرنا چاہ رہے تھے وہ نہیں کرسکے۔ سیکرٹری جنرل کا آنا ’کاسمیٹک‘ اقدام ہے۔ افغانستان مہاجرین کی واپسی کی بات ہونے کے بجائے انہیں شہریت دینے کی باتیں شروع ہوگئی ہیں۔ میرے نزدیک یہ دورہ اہم نہیں بلکہ اہم یہ ہے کہ افغان معاہدے کے بعد پاکستان کے پاس ’’بارگینگ چِپ‘‘ کیا ہوگی؟ خود چین بھی پاکستان کو FATF سے نہیں نکال سکا۔ FATF ایک مغربی اقدام ہے لہٰذا پاکستان کو گرے لسٹ سے امریکا، برطانیہ اور فرانس ہی نکال سکتے ہیں۔ چین کے پاس اس وقت FATFکی سربراہی ہے مگر وہ پاکستان کے لیے کچھ نہیں کرسکتا۔ اسی پس منظر میں چینی صدر شی جن پنگ پاکستان آرہے ہیں تاکہ وہ یہ واضح کرسکیں کہ چین پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ چین کے خلاف عالمی سطح پر ایک منظم مہم چل رہی۔ کبھی یہ خبریں آجاتی ہیں کہ چین کی وجہ سے افریقا میں ڈیٹ کرائسس بڑھ گیا ہے کبھی یہ باتیں سامنے آتی ہیں کہ سنکیانگ میں مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ امریکا، چین مسائل زور پکڑ رہے ہیں لہٰذا میرے نزدیک FATF کے پیچھے بڑی طاقتوں کی سیاست ہے اور اس میں پاکستان کو تختہ مشق بنا کرایک دوسرے کو پیغامات دیے جا رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے پاس اس کا حل کیا ہے؟ ایک تو یہ کہ مغرب کے مطالبات مان لیں جبکہ دوسرا یہ کہ ہم امریکا کو چھوڑ کر چین کی طرف چلے جائیں۔ معیشت کا جائزہ لیں تو ہماری زیادہ تر ایکسپورٹس کا تعلق مغرب سے ہے۔ ہماری تجارت چین کے بجائے مغرب سے منسلک ہے اور وہی ہماری مارکیٹ ہے۔ ’’لیگ آف نیشننز‘‘ کے تجربے کے بعد ’’بریٹن ووڈز سسٹم‘‘ میں یہ طے ہے کہ معیشت اور تجارت، سفارتکاری کے دو بنیادی اصول رہیں گے۔ ایران کو بلیک لسٹ کیا گیا ہے۔ پاکستان کو ایران تو نہیں بنایا مگر بنانے کے قریب ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے ادارے، قومی معاشی پالیسی، گورننس کیسی ہے؟ کیا کام ہورہا ہے؟ ہماری اندرونی صورتحال تو یہ ہے کہ گزشتہ 6ماہ سے ملک میں ٹڈی دل نے حملہ کر رکھا ہے،گندم و چینی کا بحران پیدا ہوا مگر ادارے مطمئن بیٹھے تھے۔ ہماری زراعت جی ڈی پی کا 21 فیصد ہے۔ اگر ہم زرعی اجناس کے لیے بھی دوسرے ممالک پر انحصار کریں گے تو دنیا کیلئے ہمیں دبانا اور آسان ہوجائے گا۔ہمیں دانشمندانہ سوچ کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ صرف ٹیکس بڑھانے سے معیشت بہتر نہیں ہوتی بلکہ معاشی ترقی سے ٹیکس زیادہ حاصل ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں معاملات الٹے ہیں، جو ٹیکس دے رہا ہے، اس پر ہی مزید بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔ اسی طرح جو بجلی و گیس کے بل دے رہا ہے سرچارج و اضافی چارجز بھی اسے ہی دینا پڑتے ہیں۔ اگر اس طرح کی پالیسیاں جاری رہیں تو ٹیکس دہندگان کی تعداد مزید کم ہوجائے گی۔ حکومت کے اپنے ٹیکس ریونیو کولیکشن کے ٹارگٹ میں 1 ہزار ارب سے زائد کا شارٹ فال ہے۔ حکومت نے پرتعیش سامان کی امپورٹ بند کرکے اچھا کیا مگر اس کا متبادل معاملہ یہاں کرنا چاہیے تھا۔ یہاں سہولیات دی جائیں لیکن اگر کاروبار پر سختیاں کی جائیں گی تو نقصان ہوگا۔ حکومت مقامی سیکٹر پر توجہ دے۔ یہ اعلان کیا جائے کہ ہم نے لوکل سیکٹر کی حالت بہتر کرنی ہے۔ 150 ارب روپے کا پیکیج دینے کا اعلان ہوا ہے، اگر بجلی، گیس میں سہولت ملتی ہے تو اس سے معیشت میں بہتری آئے گی۔ انڈسٹری اس وقت چلے گی جب اس کی پیداواری لاگت کم ہوگی، سہولیات ہونگی، بینک سے پیسہ ملے گا اور مسائل کا سامنا کم ہوگا۔ خطے میں تمام ممالک کی بجلی 7 سینٹ کے قریب ہے جبکہ ہمارے ہاں یہ 15 سینٹ میں مل رہی ہے، جس سے لاگت میں اضافہ ہوتا ہے اور ہم دنیا کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ دنیا کو آج ناراض کر لیں یا 6 ماہ بعد، ہمیں بڑا فیصلہ کرنا ہوگا۔ آج ہماری پوزیشن بہتر ہے، 6 ماہ بعد ایسا نہیں ہوگا بلکہ خسارہ زیادہ بڑھ چکا ہوگا۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ دنیا ہمیں FATFکے معاملے میں چھوڑنے کے موڈ میں نہیں، ہمیں گرے لسٹ میں مزید لٹکایا جائے گا۔ ہم خود کو اندرونی طور پ مضبوط کرکے اس صورتحال کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ اس حوالے سے جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مضبوط حکومت بھی ضروری ہے۔ میں حکومت تبدیل کرنے کے حق میں نہیں۔ یہ حکومت 5 سال کے لیے منتخب ہوئی ہے لہٰذا اسے اپنی مدت پوری کرنی چاہیے تاکہ وہ اس حساب سے پلاننگ کرسکے۔ ملک میں لانگ ٹرم و موثر منصوبہ بندی کی اہم ضرورت ہے، اس حوالے سے تمام سٹیک ہولڈرز کو کام کرنا ہوگا۔ چینی صدر شی جن پنگ کا دورہ اس لیے اہم نہیں کہ وہ گرانٹس لے کر آرہے ہیں بلکہ اس میں اہم یہ ہوگا کہ وہ پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی انڈسٹری کو کس حد تک سپورٹ کریں گے؟ کتنی پراجیکٹ فنانسنگ ہوگی؟ FATF نے پاکستان کی کوششوں کو سراہا اور اعتماد کا اظہار بھی کیا مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ہماری تشویش زیادہ ہے۔ ہمیں اس بیان کے دوسرے حصے پر غور کرنا چاہیے۔ میرے نزدیک اگر ہم خود کو اندرونی طور پر مضبوط کرلیں تو اس صورتحال سے نمٹ سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔