بُک شیلف

بشیر واثق  اتوار 1 مارچ 2020
جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔فوٹو : فائل

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔فوٹو : فائل

پہل اس نے کی تھی
مصنف: جبار مرزا۔۔۔قیمت: 1200 روپے۔۔۔صفحات: 320
ناشر: قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل، والٹن روڈ کینٹ لاہور،0300 0515101

دل کے تار چھیڑنا، اس محاورے کے معنی کا صحیح  اندازہ جبار مرزا کی آپ بیتی پڑھنے پر ہوتا ہے، آپ بیتی شروع کرتے ہی قاری اس کے سحر میں گرفتار ہوتا چلا جاتا ہے، تحریر اس کے محسوسات کو اتنے شدید انداز میں چھو لیتی ہے کہ وہ آپ بیتی کے کرداروں پر بیتنے والے جبر اور کرب کو اپنے دل میں محسوس کرتا ہے۔ وہ ان کی خوشی میں خوشی محسوس کرتا ہے اور ان کے غم پر افسردہ ہو جاتا ہے۔

مصنف کو قارئین کے دلوں کو مسخر کرنے کے فن میں مکمل مہارت ہے۔  ڈاکٹر عبدالقدیر خان کہتے ہیں ’’ جبار مرزا کو کبھی کبھی میں ’’ تلوار مرزا‘‘ بھی کہہ جاتا ہوں ، اس لئے نہیں کہ ان کی بڑی بڑی نوکدار مونچھیں ہیں ، بلکہ ان کی تحریر کی کاٹ ہی ایسی ہے کہ وہ قلم کو تلوار کر لیتے ہیں۔ مجھے نہیں یاد کہ ہماری سیاست کا کوئی وڈیرہ یا جاگیردار ان سے بچ نکلا ہو ۔ کتاب کے مرکزی کردار ’’ چوہدرانی صاحبہ‘‘ کے لئے ان کا لہجہ بڑا گداز اور پر تاثیر ہے ۔

وضع داری اور پردہ داری کا خاص اہتمام ہے ۔ کتاب میں کہیں پتہ نہیں چلتا کہ چوہدرانی کون ہے، اس کا اصل نام کیا ہے ، کہاں رہتی ہے، کس کی بیٹی ہے، اسے پڑھنے کہاں بجھوایا گیا تھا ،  جبار مرزا سینتیش برس پہلے جس کا گھر بسانے میں لگے رہے، اس کتاب میں اس کو بچانے میں مصروف ہیں ۔‘‘

ڈاکٹر انعام الحق جاوید کہتے ہیں ’’ جبار مرزا ایک جانے پہچانے اور مانے ہوئے قلمکار، محقق کالم نگار ، شاعر اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں مگر ان کی یہ کتاب پہلی کسی کتاب سے لگا نہیں کھاتی بلکہ یہ کہنا مبنی برحقیقت ہو گا کہ ان کی یہ کتاب اردو ادب کے خزانے میں موجود ہزاروں لاکھوں کتابوں میں سے کسی بھی کتاب سے لگا نہیں کھاتی کیونکہ یہ ایک مکسچر ہے کئی اصناف کا ، کئی اسالیب کا اور کئی ادبی تکنیکوں کا ۔‘‘چوہدرانی کے ہاتھ سے لکھے خطوط کا عکس بھی شائع کیا گیا، رنگین تصاویر سے کتاب کی خوبصورتی میں اضافہ ہوا ہے ۔ یہ کتاب، خود نوشت بھی ہے اور ناول بھی ۔ مجلد کتاب کو آرٹ پیپر پر دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

آئینہ تمثال

انجمن ترقی پسند مصنفین گوجرانوالہ نے معروف ادیب اسلم سراج الدین کی یاد میں انتخاب شائع کیا ہے جس کی ابتدا حمد و نعت کے ساتھ کی گئی ہے، اس کے بعد افسانے، خاکے، مضامین اور شاعری ہے۔ یہ تحریریںانجمن ترقی پسند مصنفین کے اجلاسوں میں پڑھی گئی ہیں ۔ گوجرانوالہ میں انجمن کے اجلاس حسب معمول ہوتے ہیں جس کی وجہ سے نئے لکھنے والوں کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملتا ہے۔ اور ان میں سے بہت سے اب مستند نقاد، شاعر اور تخلیق کار کے طور پر معروف ہیں۔

مدیر اعلیٰ سخی رشید اعوان، اسلم سراج الدین کے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں’’ وہ ایک ایسے گیانی تھے جو شعور اور لاشعور کی  تہوں کو کھنگالتے اور صفحہ قرطاس پر بو قلموں رنگوں کی صورت بکھیرتے تھے، انھیں’’ عجائب رقم‘‘ کے اسم با مسمیٰ سے یاد کرنا کوئی عجیب بات محسوس نہیں ہوتی۔‘‘ آئینہ تمثال میں شامل تحریریں معیار پر پورا اترتی ہیں اور ادب میں خوبصورت اضافہ ہیں۔ انجمن کو یہ سلسلہ مستقل بنیادوں پر جاری رکھنا چاہیے تاکہ لکھنے والوں کو ادب کی دنیا میں قدم رکھنے میں آسانی میسر رہے۔ انتخاب خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے، قیمت 300 روپے ہے، حصول کے لئے اس پتہ پر رابطہ کیا جا سکتا ہے، 18علامہ اقبال چیمبرز، ضلع کچہری ، گوجرانوالہ، فون  0304 6994633

کنول کنول کھلا رہے
شاعر: ابوالبیان پروفیسر ظہور احمد فاتح۔۔۔قیمت:500 روپے۔۔۔صفحات:160
ناشر: فاتح پبلی کیشنز نیوکالج روڈ تونسہ شریف(03326066364)

ابوالبیان پروفیسر ظہور احمد فاتح قادر الکلام شاعر ہیں، متعدد کتابوں کے مصنف ہیں، اپنے محسوسات کو بڑی خوبصورتی سے پیش کرتے ہیں ، سادگی میں پرکاری نظر آتی ہے، جیسے کہتے ہیں،

جس کو سمجھا ہوں رہ گزر تیری
وہ تری رہ گزر نہیں ہو گی
دل کی گہرائی سے جو نکلے گی
وہ دعا بے اثر نہیں ہو گی
شعر کہتے ہیں اس لئے فاتح
شاعری بے ثمر نہیں ہو گی
اسی طرح ایک اورغزل میں کچھ یوں گویا ہوتے ہیں
کسی کو دکھ یہ الم آ شنا نہیں دیتے
وفا شعار کسی کو دغا نہیں دیتے
کسی سزا سے گریزاں تو ہم نہیں لیکن
ہمارا جرم ہمیں کیوں بتا نہیں دیتے؟
ان کی شاعری دل کے تاروں کو چھیڑ دیتی ہے، ہر غزل میں ان کا یہی انداز ہے۔

غزل کے استعارے
شاعر: انوار ندیم علوی۔۔۔قیمت:400 روپے۔۔۔صفحات: 136
ناشر: زربفت پبلی کیشنز، اردو بازار، لاہور(0303 4060515)

انور ندیم علوی متعدد کتابوں کے مصنف ہیں، وہ اپنے دل کی بات بڑے خوبصورت پیرائے میں قاری تک پہنچاتے ہیں، جیسے کہتے ہیں،

جھوٹ نفرت کبھی نہیں لکھنا
خوب صورت سدا حسیں لکھنا
چاند جھومر ہے اس کے ماتھے کا
مہ جبیں کو ہی مہ جبیں لکھنا

احمد ندیم قاسمی نے ان کی شاعری کے حوالے سے کہا تھا ’’میرے ہم تخلص انور ندیم علوی ایک عمدہ غزل گو ہیں۔ انھوں نے جو تراجم کئے ہیں وہ اتنے معیاری اور سچے ہیں کہ ان پر اصل کا گمان ہوتا ہے، میری رائے میں ندیم علوی نے ان تراجم کے ذریعے شعر و ادب کی تاریخ میں اپنی شمولیت کا نہایت جائز جواز پیش کر دیا ہے۔ ان کی اوریجنل غزل بھی جدید اور عصر حاضر کی نمائندہ ہے‘‘۔ محسن بھوپالی نے کہا ’’ انور ندیم علوی نظم میں ایک خاص انداز رکھتے ہیں۔ ان کی غزل میں روایت اور جدت کا امتزاج ملتا ہے۔‘‘  زیر تبصرہ کتاب میں نظموں اور غزلوں کے ساتھ ساتھ ممتاز شعرا ء کے تراجم بھی شامل کئے گئے ہیں، اور اتنے معیاری ہیں کہ لگتا نہیں یہ ترجمہ کیا گیا ہے۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

فضا اعظمی کی شاعری
( تلمیحات کے آئینے میں)
مصنف: شبیر ناقد ۔۔۔قیمت: 500 روپے۔۔۔صفحات:112
ناشر:اردو سخن، اردو بازار، چوک اعظم، لیہ 0302 7844094

تنقید برائے تنقید کرنا بہت آسان کام ہے کیونکہ اس میں تحقیق کو مدنظر نہیں رکھا جاتا، سنی سنائی پر تبصرہ کر دیا جاتا ہے، اور بدقسمتی سے عام چلن بھی یہی ہے۔ تاہم ادب کی دنیا میں تنقید کرنا کوئی آسان کام نہیں، کیونکہ اس کے لئے تحقیق کے سمندر میں اترنا پڑتا ہے جیسے کسی کھیل کے ایمپائر کو تمام قواعد کا علم ہوتا ہے اسی طرح نقاد کو بھی ادب کے تمام قرینوں کا علم ہونا چاہیے، تب وہ تحقیق کے سمندر میں اترتا ہے۔ شبیر ناقد کو تنقید کے فن میں مکمل مہارت حاصل ہے۔ ابو البیان ظہور احمد فاتح کہتے ہیں’’فضا اعظمی کی شاعری: تلمیحات کے آئینے میں‘ ایک پسندیدہ اور جدید کاوش نقد ہے۔

ہو سکتا ہے کہ قبل ازیں تلمیحات کے حوالے سے کسی سخن ور کے کلام پر اس  نوع کی ناقدانہ جسارت ہوئی ہو، بہرحال یہ کام خود میں ایک یک گونہ ندرت لیے ہوئے ہے۔ جس میں تنقید نگار کے لئے خاصی کٹھنائیاں موجود ہیں‘‘۔ اسی طرح شکیل اختر کہتے ہیں’’ شبیر ناقد کی کتاب’ فضا اعظمی کی شاعری، تلمیحات کے آئینے میں‘ کے مسودے کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ انھوں نے جذبہ عشق اور مسلسل محنت و ریاضت سے کام لے کر اسے مکمل کیا ہے۔

اس میں صنعت تلمیح کی تعریف پر ازسر نو نظر ثانی کی گئی ہے جو کسی قدر جامع اور مستند ہے۔ صنعت ہٰذا کا پس منظر، تاریخ، ارتقاء اور اقسام کو غالباً پہلی بار ( کم از کم میرے مطالعہ کے مطابق) کسی مستند کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے، سب سے بڑی اور خوش کن بات یہ ہے کہ استاد شعرا کا گراں قدر تلمیحی اثاثہ بھی بیان کیا گیا ہے جو نوآموز شعراء کے مطالعہ کے لیے خاصا مفید ہو سکتا ہے، اس سے ان کی فکری اور فنی اپچ کو جلا ملے گی ۔‘‘ شبیر ناقد کی یہ کتاب تنقید کے میدان میں شاندار اضافہ ہے۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

تبصرہ نگار:شہباز انور خان
تذکار ِ بگویہ ( جلد پنجم )
  ترتیب و تدوین: ڈاکٹر انوار احمد بگوی۔۔۔ صفحات: 608۔۔۔  قیمت: درج نہیں
  ناشر : مکتبہ علمیہ پریس اعظم گڑھ، انڈیا

پنجاب  کے ضلع سرگودھا کے شہر بھیرہ  سے تعلق رکھنے والا خاندان بگویہ برصغیر ( متحدہ ہندوستان ) میں ایک ممتاز حیثیت کا حامل ہے۔ اس خاندان کے بزرگوں نے اس خطے کے مسلمانوں کی علمی، روحانی، سیاسی اور تہذیبی سطح پر کردار سازی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے ۔ اس خاندان کی خدمات کا عرصہ مجموعی طور پر کم وبیش چار صدیوں پر محیط ہے۔اسی عظیم الرفعت خانوادے ہی کے ایک چشم و چراغ ڈاکٹر انوار احمد بگوی ہیں جنہوں نے اپنے خاندان کے بزرگوں، اپنے جد امجد کی تاریخی خدمات کو بڑے احسن انداز اور سلیقہ مندی کے ساتھ منضبط کر کے ملک کے اہل علم و دانش کے ساتھ ساتھ عام آدمی تک پہنچانے کا خوش گوار فریضہ انجام دیاہے۔

انہوں نے اس خاندان کی 1650 ء سے 2010ء تک کی تاریخ کو مدون کرنے کے بعد انہیں مختلف جلدوں کی صورت میں یکجا کر کے محفوظ کر لیا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’تذکار ِ بگویہ‘‘ کی جلد پنجم ہے ۔ (  اس سے قبل اسی عنوان ( تذکارِ بگویہ )  کے تحت  چار جلدیں شائع ہو کر ہر خاص و عام سے تحسین حاصل کر چکی ہیں۔) جلد پنجم دراصل  اس عالیشان خاندان کی قابل ِ فخر شخصیت، تحریک خلافت اور تحریک ِ پاکستان کے سرکردہ رہنما ابوالخیر مولانا ظہور احمد بگوی ؒ کی علمی، مذہبی، ادبی، سماجی اور سیاسی موضوعات کے حوالے سے مطبوعہ تحریروں پر مشتمل ہے جو انہوں نے 1920 ء سے 1945ء کے عرصہ کے دوران قلمبند کیں اور ماہنامہ ’’ شمس الاسلام ‘‘ بھیرہ میں شائع ہوئیں۔

یہ محض فر د ِ واحد کی تحریریں ہی نہیں ہیں بلکہ اس عہد کے سیاسی، مذہبی، سیاسی اور سماجی احوال اور تاریخ کی عکاس بھی ہیں۔ تاریخ و سیاسیات کے طالب علموں کے لیے یہ کتابیں گرانقدر اثاثہ کی حیثیت رکھتی ہیں جن سے تا دیر استفادہ کیا جاتا رہے گا۔ ڈاکٹر انوار احمد بگوی بلاشبہ مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس عظیم اور وقیع کام کا بیڑا اٹھایا اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔امید واثق ہے کہ یہ کتاب ہماری تاریخ ، سیاست، ادب، مذہب، سماجیات اور عمرانیات سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ایک بیش بہا تحفہ ثابت ہوگی۔

 حاجی صاحب اور دوسری کہانیاں
 مصنف: فیصل اقبال اعوان۔۔۔۔ صفحات: 88۔۔۔۔ قیمت: 200 / روپے
 ناشر: سانجھ پبلی کیشنز، مزنگ روڈ، لاہور

زیر تبصرہ کتاب نوجوان ادیب فیصل اقبال اعوان کی پندرہ کہانیوں پر مشتمل ہے۔ انسانوں میں پائی جانے والی منافقت اور قول وفعل میں تضاد ان کہانیوں کا بنیادی موضوع ہے اور مصنف نے اسے خوب نبھایا ہے۔ یہ تمام کہانیاں ہمارے شہری اور دیہاتی ماحول سے جڑی ہوئی ہیں۔کتاب کے مصنف چونکہ قانون دان ہیں اس لیے اس پیشہ سے وابستگی کے باعث ان کا تجربہ و مشاہدہ عام قلم کار کی نسبت بہرحال زیادہ اور وقیع ہے۔ کتاب میں شامل کہانیوں میں جن کرداروں کو پیش کیا گیا ہے وہ اسی سماج میں ہمارے اردگرد پائے جاتے ہیں۔ مکالمے جان دار اور زوردار ہیں تاہم کہیں کہیں خود کلامی کا تاثر بھی ملتا ہے۔

ان کہانیوں کی خوبی یہ ہے کہ یہ خواہ مخواہ کی طوالت سے پاک ہیں مختصر ہونے کی بنا پر کسی بھی قسم کی بوریت اور اکتاہٹ کے بغیر قاری کو ایک ہی نشست میں پڑھنے پر مجبورکردیتی ہیں اور یہی اس کتاب کا حسن بھی ہے جو کہانی کار کو دوسرے ہم عصر کہانی کاروں سے ممتا ز کرتا ہے۔کتاب پر فکشن رائٹر عاصم بٹ، مخدوم سلمان ٹیپو، روف طاہر حیدری، سمیر عاصم فاروقی اور شاہد شبیر ایسے اہل قلم کی تعریفی و تہنیتی آراٗ بھی شامل ہے جن کے بعد کتاب کے حق میں مزید کسی گواہی کی حاجت نہیں رہتی۔

 ہوا سے مکالمہ
 شاعرہ : صفیہ حیات۔۔۔ صفحات: 152۔۔۔ قیمت: 400 / روپے
 ناشر: سانجھ پبلی کیشنز، مزنگ روڈ، لاہور

زمانہ ء جہالت کی رسوم و رواج اور جبر و استبداد پر مبنی ظالمانہ نظام آج بھی عورت کی زندگی کو اجیران بنائے ہوئے ہے جس کے باعث وہ ’’ آزاد سماج ‘‘ میں بھی غلامانہ طور طریقے اپنانے پر مجبور دکھائی دیتی ہے۔ اگرچہ جدید تعلیم، روشن خیالی اور لبرل ازم کی چکا چوند نے عورت کو بہت حد تک ان رسوم و رواج کا باغی بنادیا ہے لیکن شہروں سے دور دیہاتی اور قبائلی سماج میں آج بھی زمانہ جہالت کی خو، بو برقرار ہے جس کے خلاف وقتا ً فوقتا ً کہیں نہ کہیں سے آواز بھی اٹھتی رہتی ہے۔ سو ایک ایسا معاشرہ جہاں پر عورت کی حیثیت ایک باندی یا غلام کی سی ہو، اس معاشرے میں مظلوم و مقہور عورت کے حق میں کسی عورت ہی کی طرف سے پوری توانائی اور بیباکی کے ساتھ آواز بلند کرنا بڑے دل گردے کی بات ہے۔

کتاب میں شامل نظمیں بطور عورت سماج کے غیر منصفانہ رویے اور امتیازی سلوک کے خلاف بھرپور احتجاج سے مملو ہیں۔الفاظ کی دو دھاری تلوار سے سماج کے اس بودے پن اور دوغلے کردار کو جس طرح ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا ہے اس پر شاعرہ یقینی طور پر داد کی مستحق ہیں۔ جذبات کی شدت ، احساس کی چبھن ، حساسیت اور تیکھے پن نے سارہ شگفتہ اور نسرین انجم بھٹی کی یاد تازہ کردی ہے۔ ہمارے ہاں خواتین شعراٗ جس قسم کی شاعری کر رہی ہیں ان میں صفیہ حیات کا مذکورہ شعری مجموعہ اپنی انفرادیت اور تازہ کاری کی بنا پر الگ سے اپنی پہچان رکھتا ہے۔کتاب کے آخر میں نو صفحات پر مشتمل ہرویندر سنگھ ڈائریکٹر حکومت پنجاب، چندی گڑھ (انڈیا) کا بزبان ِ انگریزی خوب صورت اور سیر حاصل تبصرہ بھی شامل ہے۔ جس میں ان کی شاعری کو بجا طورپر سراہا گیا ہے۔

تیجی مخلوق
 مصنفہ: ہرکیرت کور چاہل ۔۔۔ ترجمہ: محمد آصف رضا۔۔۔ صفحات: 158
 قیمت: 250 روپے۔۔۔  ناشر : بابا فرید بک فاونڈیشن

اللہ تعالیٰ کی انسانی مخلوق میں کھسرے ایک ایسی مخلوق ہے جو انسانی معاشرے میں سب سے زیادہ مظلوم ، بے بس اور لاچار تصور کی جاتی ہے۔ اسے عرف عام میں تیسری مخلوق کا نام دیا جاتا ہے۔کیونکہ اس کا شمار نہ تو مردوں میں ہوتا ہے اور نہ ہی خواتین میں۔ چنانچہ ایسے فرد کو نہ تو معاشرے میں کوئی عزت ملتی ہے اور نہ ہی خاندان میں ہی اس کو کوئی مقام حاصل ہوتا ہے۔ حتی ٰکہ اس کے اپنے گھر میں اس کے بہن بھائی بھی اسے اپنا کہتے ہوئے شرم محسوس کرتے ہیں۔

جب کہ ان کا تیسری مخلوق کی صورت میں وجود میں آنا نہ تو خود ان کے اپنے اختیار میں ہوتا ہے اور نہ ہی ارادہ ۔ ہر کیرت کور چاہل نے اس تیسری مخلوق کے اندر جھانکنے کی کوشش کی ہے اور ا س کی اس مظلومانہ زندگی کو سمجھ کر اسے عوام الناس کے سامنے پیش کرنے کی جسارت کی ہے۔انہوں نے ’’تیجی مخلوق‘‘ کے زیر عنوان پنجابی زبان میں ناول لکھ کر اس بدقسمت مخلوق کی بے بسی کی داستان رقم کرتے ہوئے اس کے حقوق اور اس کی سماج میں عزت اور مقام کے لیے آواز بلند کی ہے۔

ہر کیرت کور چاہل کا تعلق چونکہ بھارتی پنجاب سے ہے اس لیے اپنے اسی سماج کی نمائندگی کی ہے جہاں اس مخلوق کی کوئی شناخت نہیں ہے جب کہ ہمارے ملک میں اس صنف کی ایک باقاعدہ تیسری مخلوق ( ٹرانس جینڈر ) کے نام سے شناخت کے حوالے سے باقاعدہ قانون سازی کی گئی ہے۔ اور اسے اب الگ سے شناخت بھی مل گئی ہے لیکن اس کے باوجود سماج میں جس قسم کے مثبت رویے اور غیر امتیازی سلوک کی ضرورت ہے وہ ابھی اسے نہیں مل سکی۔ہرکیرت کور چاہل کا، یہ ناول گورمکھی رسم الخط میں شائع ہوا تھا جسے محمد آصف رضا نے شاہ مکھی میں ڈھال کر اہل پاکستان کے لیے پیش کیا ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔