بے تُکی جنگیں!

 راؤ محمد شاہد اقبال  اتوار 1 مارچ 2020
جب بہت معمولی سی وجوہات پر دو ممالک ایک دوسرے پر چڑھ دوڑے ۔  فوٹو : فائل

جب بہت معمولی سی وجوہات پر دو ممالک ایک دوسرے پر چڑھ دوڑے ۔ فوٹو : فائل

کہا جاتا ہے کہ جنگ وہ آخری آپشن ہوا کرتا ہے جسے کوئی بھی قوم، دوسرے ملک پر جارحیت کے لیے بہت سوچ و بچار اور انتہائی مجبوری کے عالم میں استعمال کرتی ہے ورنہ عمومی حالات میں غاصب سے غاصب ملک کی بھی یہ ہی کوشش رہتی ہے کہ وہ اندرونی سازشوں، سفارتی ریشہ دوانیوں، سیاسی انارکی اور نسلی ولسانی اختلافات جیسے مذموم ہتھ کنڈوں سے ہی کام چلاتے ہوئے دوسرے ملک کو اپنا زیرِدست یا زیرِنگیں بنالے، کیوںکہ جنگ وہ مہلک ہتھیار ہے جو صرف مفتوح ملک کے عوام کو ہی نہیں بلکہ فاتح کہلانے بننے والی قوم کو بھی ٹھیک ٹھاک مالی و جانی نقصان پہنچانے کا باعث بنتا ہے۔

اِس کے باوجود تاریخ میں جابہ جا ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ جب ذرا سی بات پر یا چھوٹی سی غلطی یا کسی فردِ واحد کی بے وقوفی کے باعث دو پڑوسی ملک، دو دوست اقوام یا دو دشمن ممالک کے درمیان باقاعدہ جنگ شروع ہوگئی اور اس کے نتیجے میں ہزاروں افراد آن کی آن میں متاثر ہو کر اپنی قیمتی جان اور املاک سے محروم ہوگئے۔ تاریخ کے اوراق میں اِن جنگوں کو Foolish Wars  یعنی ’بے وقوفانہ جنگیں‘‘ کہا جاتا ہے۔ زیرِنظر مضمون میں کچھ ایسے ہی چھوٹے چھوٹے یا بلاوجہ قسم کے تنازعات کے باعث لڑی جانے والی بے تکی جنگوں کا احوال پیشِ خدمت ہے۔

٭کیک اور پیسٹریوں پر ہونے والی جنگ

1821 میں میکسیکو نے اسپین کے تسلط سے آزادی حاصل کی اور بدقسمتی سے آزادی کے فوراً بعد میکسیکو شدید سیاسی انارکی کا شکار ہوگیا۔ میکسیکو میں قائم ہونے والی اولین حکومت کے خلاف باغیوں کے ایک گروہ نے بغاوت کا اعلان کردیا۔ باغیوں اور حکومت کے درمیان شروع ہونے والی داخلی کشمکش نے میکسیکن عوام کی املاک کو زبردست نقصان پہنچا۔

میکسیکو شہر کے نزدیک ایک فرانسیسی بیکر کی بیکری بھی تھی جو کہ اِن فسادات کی زد میں آگئی اور احتجاج کرنے والے اُس کی بیکری میں موجود دو درجن سے زائد کیک اور دیگر کھانے پینے کا سامان لوٹ کر لے گئے۔ چوںکہ اس فرانسیسی کی بیکر ی کا سامان لوٹ کر لے جانے والے تمام کے تمام میکسیکو کے شہری تھے، لہٰذا بیکری کے فرانسیسی مالک نے میکسیکو کی حکومت سے اپنے ہونے والے نقصان یعنی دو درجن کیک، ایک درجن پیسٹریوں اور 8 عدد پیٹیز کا ہرجانہ ادا کرنے کا دعویٰ کردیا۔ میکسیکو کی حکومت جو پہلے ہی خانہ جنگی کی کیفیت میں تھی اُس نے فرانسیسی بیکر کی اِس درخواست کو ایک مذاق سمجھ کر یکسر نظرانداز کردیا۔

جب فرانسیسی بیکر نے دیکھا کہ اُس کے نقصان کو میکسیکو کی حکومت سنجیدگی سے نہیں لے رہی تو اُس نے بغیر ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر فرانس کے بادشاہ سے تحریری درخواست کردی کہ ’’چوںکہ وہ فرانسیسی شہریت رکھتا ہے، اِس لیے اُس کی جان و مال کی حفاظت کی ذمے داری فرانس کی بادشاہ پر عائد ہوتی ہے، لہٰذا فرانسیسی حکومت، میکسیکو میں ہونے والی زیادتی پر اُس کی مدد و اعانت کی پابند ہے۔‘‘

فرانس کے بادشاہ نے فرانسیسی بیکر کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے، میکسیکو کی حکومت سے سرکاری سطح پر مطالبہ کردیا کہ وہ میکسیکو میں کاروبار کرنے والے فرانسیسی شہری کے نقصان کا فی الفور ازالہ کردے بہ صورت دیگر میکسیکو اپنے نقصان کا خود ذمے دار ہوگا۔ میکسیکو کی حکومت نے فرانس کے بادشاہ کی درخواست کو رد کردیا، جس کے جواب میں 1838 میں فرانسیسی بحریہ نے میکسیکو کی بحری حدود ہر قسم کی آمدورفت کے لیے مکمل طور پر بند کردیں۔

کئی ہفتوں تک جاری رہنے والی بحری ناکہ بندی کے بعد بھی جب فرانس کو حسبِ توقع نتائج نہ مل سکے تو انہوں نے میکسیکو کی بحری تنصیبات پر ہلکی پھلکی بم باری کرنا شروع کردی تاکہ میکسیکو پر دباؤ ڈال اُس سے اپنا مطالبہ منوایا جاسکے۔ لیکن میکسیکو نے فرانس کے دباؤ میں آنے کے بجائے اُس کے خلاف باقاعدہ اعلانِ جنگ کردیا۔

بہرحال فرانس عسکری لحاظ سے میکسیکو کے مقابلے میں کافی طاقت ور تھا، لہٰذا چند ہی دنوں میں فرانس نے میکسیکو کی تمام بحری افواج کو اپنے قبضے میں لے کر میکسیکو میں باقاعدہ زمینی جنگ کے لیے اپنی فوجوں کو اُتار دیا۔

فرانس اور میکسیکو کے درمیان کیک اور پیسٹریوں کے لیے لڑی جانے والی یہ جنگ کم و بیش 4 ماہ تک جاری رہی۔ آخر میں میکسیکو کی حکومت نے اپنی شکست تسلیم کرکے فرانس کے اِس مطالبہ کے سامنے سرتسلیم خم کردیا کہ وہ فرانسیسی بیکر کے ہونے والے نقصان کا تمام ہرجانہ ادا کرنے کے لیے تیار ہے، جس کے بعد فرانس نے بھی میکسیکو کی سرزمین سے اپنی افواج کو واپس بلالیا اور فرانسیسی فوجی کیک کھاتے ہوئے، فتح کا جشن مناتے فرانس میں بڑی شان سے داخل ہوئے۔

٭کرسی پر بیٹھنے کی خواہش سے شروع ہونے والی جنگ

ہم ابتدا میں ہی وضاحت کیے دیتے ہیں کہ یہ کرسی پر ہونے والی وہ محاوراتی جنگ نہیں ہے جس کا تذکرہ اکثر وبیشتر ہماری ملکی سیاست میں سننے کو ملتا رہتا ہے بلکہ یہ اصلی کرسی پر ہونے والی بالکل اصلی جنگ کا سچا تذکرہ ہے۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ آشانتی مملکت جو آج کل افریقی ملک گھانا کا ایک حصہ ہے، یہ کبھی برطانوی راج کی ایک طفیلی ریاست ہوا کرتی تھی۔ آشانتی مملکت میں طاقت کی علامت ایک سنہری کرسی تھی، جس کے بارے میں آشانتی عوام کا ماننا تھا کہ یہ کرسی آسمانوں سے آشانتی کے پہلے بادشاہ اور ملکہ کے لیے زمین پر اُتاری گئی تھی اور اِس سنہری کرسی میں آشانتی قوم کی روح بستی ہے۔ یہ سنہری کرسی خالص سونے سے بنی ہوئی تھی، جس کی اونچائی 18، انچ اور لمبائی 24 ، انچ تھی۔

اِس سنہری کرسی پر کسی کو بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی کیوںکہ اِسے آشانتی تہذیب کی خاص علامت سمجھا جاتا تھا۔ سنہری کرسی کی یہ شہرت برطانوی گورنر فریڈرک ہوڈسن تک پہنچی تو انہیں اِس کرسی پر بیٹھنے کا شوق چَرایا۔ چوںکہ اُن دنوں مملکت آشانتی برطانیہ کے زیرتسلط ہوا کرتی تھی، لہٰذا برطانوی گورنر نے مملکتِ آشانتی کے بادشاہ پریمف سے مطالبہ کردیا کہ وہ بطور گورنر اِس کرسی پر بیٹھنا چاہتے ہیں۔ سنہری کرسی پر بیٹھنے والی بات مملکت آشانتی کے بادشاہ اور عوام کو اتنی بُری لگی کہ انہوں نے برطانوی راج کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا اور مارچ 1900 میں برطانوی افواج اور مملکت آشانتی کے عوام کے درمیان شروع ہونے والی جنگ پورے 6 مہینے تک جاری رہی۔

صرف ایک کرسی پر بیٹھنے کے لیے ہونے والی اِس جنگ میں 2000 آشانتی کےمعصوم عوام اور 1000 سے زائد برطانوی فوجی مارے گئے۔ آخر کار برطانوی افواج نے آشانتی کے بادشاہ اور سنہری کرسی کے نگہبان کو حراست میں لے کر سنہری کرسی کو بھی اپنے قبضہ میں لے لیا۔ کہا جاتا ہے برطانوی گورنر فریڈرک ہوڈسن نے اِس سنہری کرسی پر ایک بار بیٹھنے کے بعد اِسے کسی خفیہ جگہ چھپا دیا تھا اور مرتے دم تک یہ راز برطانوی حکومت پر بھی افشاء نہ کیا، کیوںکہ اُسے ڈر تھا کہ اگر یہ سنہری کرسی برطانوی حکومت کے ہاتھ لگ گئی تو ہوسکتا ہے کہ وہ اِسے آشانتی عوام کا دل جیتنے کے لیے دوبارہ مملکتِ آشانتی کے حوالے کردے۔

بہرکیف 1921 میں سڑک پر کام کرنے والے چند افریقی مزدوروں کو یہ سنہری کرسی مل ہی گئی، جو آج بھی آسانتے رائل پیلس، کماشی، گھانا میں محفوظ ہے۔

٭پالتو کُتے کی ہلاکت اور جنگ

یونان اور بلغاریہ تاریخی طور پر ہمیشہ سے ہی ایک دوسرے کے سخت روایتی حریف رہے ہیں۔ 1920 میں اِن دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان کشیدگی سخت عروج پر تھی اور دونوںممالک کے سرحدی علاقوں میں رہنے والے عوام بھی جب چاہتے سرحد عبور کرکے اپنے دشمن ملک کے شہریوں کی قیمتی املاک مثلاً گھوڑا، گائے، بھیڑ وغیرہ چُرا لیا کرتے تھے، چوںکہ اِس طرح کے انفرادی واقعات کی ذمے داری کسی ایک فریق پر ڈالنا بہت مشکل ہوتا تھا۔ اِس لیے چوری چکاری کی وارداتیں کسی بڑے سانحے کا سبب نہیں بنتی تھیں۔

لیکن اکتوبر 1925 میں ایک پالتو کتے کی ہلاکت نے یونان اور بلغاریہ کو باقاعدہ جنگ لڑنے پر مجبور کردیا۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک یونانی سپاہی کا کتا بلغاریہ کی حدود میں داخل ہوگیا جہاں بلغاریہ کے سپاہی نے اُسے ایک آوارہ کتا سمجھتے ہوئے گولی ماردی۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ کتے کو گولی لگنے کا منظر یونانی سپاہی برداشت نہ کرسکا اور اس نے بھی بلغاریہ کی سرحد کی طرف جوابی فائرنگ کرنا شروع کردی۔

اس سے پہلے کہ دونوں طرف سے فائرنگ کا یہ سلسلہ کسی بڑے جانی نقصان پر منتج ہوتا ایک یونانی آفیسر نے سفید پرچم لہراکر اشارہ دیا کہ ہم جنگ نہیں چاہتے لہذا دونوں طرف سے فوری طور پر سیز فائر ہوگیا۔

سرحد پر ہونے والی کشیدگی کی خبر جب یونان میں نئی نئی حکومت بنانے والے ڈکٹیٹر تک پہنچ تو اُس نے اسے اپنی توہین سمجھا اور بلغاریہ کو یونانی کتے کو مارنے والی سپاہی کی حوالگی کے لیے 48 گھنٹے کی ڈیڈ لائن دے دی۔ بلغاریہ نے 48 گھنٹے سے پہلے اپنی فوجوں کو یونان کی جانب پیش قدمی کرنے کا حکم دے دیا۔

یونانی افواج، بلغاریہ کی طرف سے ہونے والی اچانک یلغار کا مقابلہ نہ کرسکیں اور اپنے کئی سرحدی علاقے گنوا بیٹھیں، جس پر یونان نے اپنے اتحادی سربیا کو بلغاریہ کے خلاف مل کر جنگ لڑنے کی دعوت دے دی، جس کے بعد سربیا کی فوجوں نے بلغاریہ کی طرف پیش قدمی شروع کردی، جب کہ بلغاریہ جنگ بندی کے لیے لیگ آف نیشنز میں چلاگیا، لیکن جب تک لیگ آف نیشنز مداخلت کرتی دونوں ملکوں کے درمیان شروع ہونے والی جنگ میں 50 سے زائد افراد مارے جاچکے تھے۔

لیگ آف نیشن نے اِس جنگ میں یونان کو جارح قرار دے کر اُسے بلغاریہ کو ہرجانہ ادا کرنے کا پابند کیا اور یونان کے ڈکٹیٹر کو جنگی مجرم قرار دے کر حکومت سے علیحدہ ہونے پر مجبور کردیا۔ یہ تمام واقعہ بتاتا ہے کہ کس طرح ایک چھوٹی سی بات بڑھتے بڑھتے دو ملکوں کو ایک مکمل جنگ کے دہانے تک لے آتی ہے۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ سرحدی علاقوں میں رہنے والے اپنا پالتو جانور خاص طور اپنے پالتو کتوں کو ہمیشہ باندھ کر رکھیں۔

٭فٹ بال میچ کے بعد جنگ کا کھیل

مشہورِ زمانہ ’’فٹ بال کی جنگ‘‘ 1969ء میں ایل سلواڈور اور ہنڈوراس کے درمیان لڑی گئی، جس میں 2000 سپاہی و شہری لقمہ اجل بنے۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات پہلے ہی کشیدہ تھے کہ دونوں ٹیمیں1970 کے فٹبال ورلڈکپ میں اپنی شرکت کو یقینی بنانے کے لیے سان سلواڈور میں کوالیفائنگ میچ میں ایک دوسرے کے مدمقابل آگئیں۔

میچ سنسنی خیز رہا اور اختتام تک بغیر کسی گول کے برابر بھی۔ فیفا قوانین کے مطابق میچ کو فیصلہ کن بنانے کے لیے دونوں ٹیموں کو کھیلنے کے لیے اضافی وقت دیا گیا، جس میں جلد ہی ایل سلواڈور کی ٹیم نے دو کے مقابلے میں تین گول کی برتری حاصل کرلی۔

جیسے جیسے میچ اپنے اختتامی لمحات کی جانب بڑھنے لگا ویسے ویسے تماشائی ایک دوسرے پر فقرے کسنے لگے۔ یہاں تک کہ میچ کے دوران ہی تماشائی آپس میں جھگڑنے لگے۔ ہاتھاپائی نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور کھیل کا میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگا۔ میچ کے منتظمین نے میچ نامکمل ہونے کی وجہ سے بغیر ہارجیت کے ختم کردیا، جس پر پورے ایل سلوا ڈور میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی، کیوںکہ ایل سلواڈور کے عوام کا ماننا تھا کہ آخری اسکور کے مطابق وہ فاتح تھے۔

ایل سلواڈور نے ہنڈوراس سے فٹ بال میچ میں شکست کا بدلہ لینے کے لیے اپنی فوج کو ہنڈوراس پر حملہ کرنے کے احکامات جاری کردیے۔ ایل سلواڈور کی فوج نے14 جولائی کو ہنڈوراس پر چڑھائی کردی اور اپنی ایئرفورس سے ہنڈوراس پر زبردست قسم کی بم باری کی، جس کے جواب میں ہنڈوراس نے بھی بھرپور انداز میں فضائی کارروائیاں کیں۔

دونوں ملکوں کے درمیان فٹبال میچ کے بعد شروع ہونے والا یہ جنگی کھیل چار روز تک جاری رہا، جس میں دو ہزار سے زاید معصوم جانیں ضایع ہوئیں اور تین لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوگئے، جب کہ دونوں ممالک کو دنیا کے دیگر ممالک کی مداخلت پر جنگ بھی فٹ بال میچ کی طرح بغیر کسی کی ہار جیت کے برابر، برابر نقصان کی بنیاد پر ختم کرنا پڑی۔

٭چند آلوؤں پر شروع ہونے والی جنگ

برطانیہ اور امریکا کے درمیان 1846 میں اوریگن ٹریٹی کے نام سے ایک معاہدہ طے پایا تھا جس میں سان جوآن نامی جزیرہ کو مساوی طور پر دونوں ممالک کی مشترکہ ملکیت قرار دیا گیا تھا۔ معاہدے کے بعد برطانوی اور امریکی شہری انتہائی پرامن طور پر اِس جزیرے پر گزر بسر کررہے تھے کہ 1859 میں ایک روز ایک امریکی کا پالتو سور ایک برطانو ی کے کھیت میں داخل ہوگیا اور کاشت کی گئی آلوؤں کی تیار فصل سے تازہ تازہ لذیذ آلوکھانے لگا کہ اچانک کھیت کے مالک کی نظر سور پر پڑی اور اُس نے سور کو شاٹ گن سے گولی مار کر ہلاک کردیا۔

سور کے مالک نے جزیرے کے حکام سے انصاف کا مطالبہ کردیا۔ برطانوی کسان نے سور کے مالک کو دس ڈالر بطور ہرجانہ ادا کرنے پر آمادگی ظاہر کردی۔ لیکن سور کا مالک اِس جرمانہ پر راضی نہ ہوا اور برطانوی کسان کے خلاف ’’سور کے قتل‘‘ کا مقدمہ درج کرکے اُسے حوالہ زنداں کروادیا، جس پر جزیرے پر رہنے والے برطانوی مشتعل ہوگئے اور انہوں نے کسان کی رہائی کے ساتھ ساتھ آلوؤں کی فصل کے ہونے والے نقصان کی بھرپائی پر سخت احتجاج شروع کردیا۔

یہ احتجاج اتنا بڑھا کہ برطانوی شہریوں نے امریکی شہریوں پر حملے کرنا شروع کردیئے جس پر امریکیوں نے امریکن آرمی سے مدد کی درخواست کی جس پر امریکی فوج نویں انفنٹری بٹالین جزیرے پر بھیج دی گئی، جس کے جواب میں برطانیہ نے بھی اپنی افواج جزیرے پر اُتار دی ۔ یوں دونوں ملکوں کے درمیان جنگی جھڑپیں ہونے لگی جو تقریباً ایک ماہ تک جاری رہی، جس میں جزیرے پر زبردست جانی و مالی نقصان ہوا۔ آخر کار ایک ماہ تک ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہونے کے بعد ایڈمرل رابرٹ نے اپنے اعلیٰ حکام کو احساس دلایا کہ دو عظیم ملکوں کی فوجیں کس حد تک عقل و شعور سے عاری ہوچکی ہیں کہ چند آلوؤں اور ایک سور کے لیے باقاعدہ جنگ کررہی ہیں، جس کے بعد دونوں ممالک کے مابین جنگ بندی پر اتفاق ہوگیا لیکن اُس وقت تک جزیرے میں بہت زیادہ جانی و مالی نقصان ہوچکا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔