ڈرو اس دن سے، اس سے پہلے کہ …!

شبیر احمد ارمان  ہفتہ 29 فروری 2020
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

اس سے پہلے کہ کچلے ہوئے غریب عوام کے صبرکا پیمانہ لبریز ہو جائے۔ بد عنوانی، مہنگائی، بے روزگاری ، دن دیہاڑے لوٹ مار، جان ومال کے عدم تحفظ، عدم مساوات پر مبنی مہنگا انصاف، حکمرانوںکی نا لائقی، حزب اختلاف کی مکارانہ رویے سے نالاں عوام تنگ آمد، بجنگ آمد کے مصداق اپنے مسائل کا حل نکالنے کے لیے سڑکوں پر آجائیں ۔

ریاستی پولیس ان کا راستہ روکنے کی حتی الامکان کوششں کرے، لیکن وہ نہ رکیں، آگے بڑھتے جائیں، حکمراں دم توڑتی ہوئی اپنی رٹ کے آگے ایمر جنسی لگانے کا اعلان کریں، مگر سب بے سود ہوجائے، پولیس اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آنسوگیس، پانی کی توپیں، فلیش گرینڈ، ربڑکی گولیاں اور آخری چارے کے طور پر بالآخر فائر کھول دے اور خدانخواستہ دیکھتے ہی دیکھتے مظاہرین اور پولیس کے درمیان یہ تصادم خونی انقلاب کی صورت اختیارکر لے۔

اس سے پہلے کہ نوجوانوں کی ٹولی بکتر بندگاڑیوں کا استعمال کرتے ہوئے محلات کے دروازے توڑنے کی کوشش بھی کریں۔ ڈرو اس دن سے ، اس سے پہلے کہ لوگ ہاتھوں میںحق کا جھنڈا لہراتے ہوئے ’’اقتدارچھوڑ دو‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے سرکاری عمارتوں پر قابض ہوجائیں، محلوں کو محاصرے میں لیں اور حالات سے گھبرائے ہوئے ظالم حکمراں ملک چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں۔ ڈرو اس دن سے، اس سے پہلے کہ خدا نخواستہ جھڑپوں کے بعد اسپتال زخمیوں سے بھر جائیں، ڈاکٹرز لہولہان افراد کے سیلاب کے آگے بے بس نظر آئیں، اسپتال کے فرش خون سے بھر نہ جائیں، ڈرو اس دن سے، اس سے پہلے کہ کچلے ہوئے غریب عوام زندگی کی بجائے موت کو ترجیح دیں۔

یہ کوئی دھمکی نہیں اور نہ ہی عوام کو اکسانے کی کوشش ہے اور نہ ہی یہ کسی مار دھاڑ والی فلم کی کہانی ہے اور نہ ہی کوئی فسانہ ہے۔ یہ وہ خدشات اور وسوسے ہیں جو مجھے بے کل کر دیتے ہیں ملک میںغریبوں کی حالت زار دیکھ کر، مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں یہ لوگ جان لیوا مہنگائی، بیروزگاری، مسائل کے حل کے لیے ریاستی بیگانگی ، اس کی بے زاری، بے نیازی، مظالم، نا انصافی اور عیاشیوں سے تنگ آکر غربت سے بغاوت کر نہ جائیں۔

جب بپھرے ہوئے لوگ محلات کے کھڑکی اور دروازے اکھاڑ رہے ہونگے، مجھے ڈر لگ رہا ہے اس دن سے جب عوامی جاہ وجلال اس وقت بھڑاس نکالنے کی انتہا کرتے ہوئے قبروں سے ان مردوں کا ڈھانچہ نکال کر انھیں کسی بانس کے ساتھ باندھ کر اس ڈھانچے کا احتجاجی جلوس نہ نکالیں اور ان زندہ بے پروا لیڈروں کا گھیراؤ نہ کریں جنھوں نے ملک کی دولت لوٹ کھوسٹ کر ملک اور قوم کو اس قدر بدحال کردیا ہے کہ جس وجہ سے ملک وقوم کی آزادی اور خود مختاری غیروں کے پاس رہن رکھی جاچکی ہے۔ ہم اپنی مرضی سے نہ کسی بین الاقوامی اجلاس میں شرکت کر سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی فیصلہ کرسکتے ہیں۔ یہ کیسی آزادی، کیسی خود مختاری ہے؟ افسوس ہے ایسے لیڈروں پر جنھوں نے ملک وقوم کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے۔

پاکستانی عوام کا کہنا ہے کہ موجودہ جمہوری حکومت جوکہ نیا پاکستان اور تبدیلی کے نعرہ کے ساتھ برسر اقتدار آئی ہے، سابقہ جمہوری اور آمرانہ حکومتوں کا تسلسل ہی ہے چند ایک کو چھوڑ کر وہی پرانے چہرے ہیں یعنی پرانی شراب، نئی بوتل والی بات ہے یہ کہنا بجا ہوگا کہ بد سے بدترکی طرف گامزن ہیں، سابقہ دورکی نسبت مہنگائی میں بے انتہا اضافہ ہوچکا ہے لوگوں کو روٹی کی لالے پڑگئے ہیں ہر چیز کی قیمت انتہا کو پہنچ چکی ہے جو چیز پہلے عوام کی دسترس میں تھی اب وہ قوت خرید سے باہر ہے۔

مہنگائی اور بیروزگاری سے تنگ لوگوں کی خودکشیوں میں اضافہ ہوچکا ہے، غریب عوام آسمان کی طرف منہ کرکے حکمرانوں کو جو بد دعائیں دے رہے ہیں، اس سے یقینا آسمان بھی کانپتا ہوگا پھر بھی وزیر اعظم عمران خان فرماتے ہیں کہ ’’گھبرانا نہیں ہے۔‘‘  حال ہی میں مہنگائی میں کمی لانے کے لیے جو اعلانات اور اقدامات کیے گئے ہیں وہ غریب سے ایک مذاق کے سوا کچھ نہیں، سرکاری یوٹیلیٹی اسٹورزکے اجناس کی قیمتوں میں کمی کی باتیں اونٹ کے منہ میں زیرے والی بات ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عام بازاروں میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کمی کی جاتی، ملک بھر میں قائم چند یوٹیلیٹی اسٹورزکروڑوں غریبوں کی دسترس سے باہر ہیں۔ ملک میں بیروزگاری کا عالم یہ ہے کہ لوگ اپنے ہی ہاتھوں اپنی جانیں لینے پر مجبور ہیں،آمدنی محدود ہیں اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے۔ قرض دینے والے عالمی اداروں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ان کی شرائط سے غریب مزید کس قدر غریب ہو سکتے ہیں۔

ان عالمی اداروں کو صرف اپنی آمدنی سے واسطہ ہوتا ہے، جو سود پر مبنی ہوتی ہے۔ اپوزیشن لیڈران اپنی جانیں اور مال بچانے پر مصروف ہیں، ان کے ایک آدھ اخباری بیان دینے سے غریبوں کی غریبی میں کمی نہیں آنی، غریبوں کو پتہ ہے کہ یہ سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔

کل کی طرح یہ جب بھی حکومت میں آئیں گے، تب ان کا بھی یہی کہنا ہوگا کہ یہ سب کچھ پچھلی حکومت کا کیا دھرا ہے، ہمیں خزانہ خالی ملا ہے۔ یہ تماشا عوام مدتوں سے دیکھتے آرہے ہیں۔ کرپشن ،کرپشن کا کھیل تماشا بہت ہوگیا ہے، سزا کسی کو نہیں ملنی،کیوں اپنا اور عوام کا وقت برباد کیا جا رہا ہے؟ٓ آج جنھیں چور، ڈاکو اور لٹیرا کہا جا رہا ہے آنے والے وقتوں میں وہ دوبارہ اقتدار میں آ سکتے ہیں اور آج جو خود کو فرشتہ سمجھ رہے ہیں کل کلاں کو ان پر بھی کرپشن کا الزام عائد کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ سیاسی کھیل تماشا پہلے بھی کھیلا جاچکا ہے،اب عوام پہلے والے نہیں رہے،اس بار عوام سے جو ہاتھ ہوگیا ہے اس سے عوام کو جو سبق ملا ہے اس سے ان کے چودہ طبق روشن ہو چکے ہیں۔ اب انھوں نے کسی نام نہاد مسیحا کا خواب دیکھنا چھوڑ دیا ہے، اب وہ آخری فیصلہ کرنے کے موڈ میں ہیں، روک سکو تو روک لو ، عوام کے صبرکا پیمانہ لبریز ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

حکمرانوں کی غریبوں سے ہمدردی کا یہ عالم ہے کہ کوئی کہتا ہے کہ ’’ ٹماٹر مہنگا ہے تو دہی استعمال کرو‘‘ کوئی کہتا ہے کہ ’’اگر روٹی مہنگی ہے تودوکی بجائے ایک روٹی کھالی جائے‘‘کوئی کہتا ہے کہ ’’سردیوں میں روٹی زیادہ کھائی جاتی ہے، اس لیے روٹی مہنگی ہوگئی ہے‘‘ شرم آنی چاہیے ایسے نام نہاد عوامی لیڈروں کو جو غریبوں کو ریلیف دینے کی بجائے غریبوں کی غربت کا مذاق اڑاتے ہیں۔

ڈرو اس دن سے جب عرش الٰہی پر غریبوں و بے کسوں کی آہ و بکا سنی جائے گی تو اس وقت تمہیں پروٹوکول دینے والا کوئی نہیں ہوگا،تمہارا گریبان ہوگا اور غریب کا ہاتھ ہوگا۔ اس سے پہلے کہ روز محشر تم سزا وار بن جاؤ، ابھی سے غریبوں کی دعائیں لو، ان کی زندگیاں آسان کرنے کی تدبیرکریں، انھیں ان کا بنیادی حق دو، یہ ملک غریبوں کے خون سے بنا ہے اور غریب ہی اس کے حقدار ہیں۔ ملک کو ریاست مدینہ بنانے کے لیے غریبوں کے دکھ درد کوکم کرنا ہوگا، ورنہ دیگر سب جھوٹ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔