نیٹو کی 3ہزار گاڑیاں پاکستان اور افغانستان میں پھنس گئیں

1500 گاڑیاں افغانستان، 1500پر پاکستان میں سامان لدا ہوا ہے، ٹرانسپورٹرز کاسپلائی سے انکار


Net News/Numainda Express November 26, 2013
حکومت یہ گارنٹی نہیں دے سکتی کہ گاڑی کو آگ نہیں لگائی جائے گی یا راکٹ فائر نہیں ہوگا، اس صورت حال میں ٹرانسپورٹروں نے لوڈنگ روک دی ہے۔ فوٹو: فائل

FAISALABAD: آل پاکستان گڈز ٹرانسپورٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن نے ڈرائیوروں پر تشدد کے واقعات کے بعد پاکستان سے افغانستان جانے والے تمام سامان کی ترسیل تحفظ فراہم ہونے تک روک دی ہے۔

تشدد کے مبینہ واقعات تحریکِ انصاف کی جانب سے اتحادی افواج کی سپلائی روکنے کے اعلان اور احتجاج کے دوران رونما ہوئے تھے۔ کراچی کی دونوں بندرگاہوں کے پی ٹی اور پورٹ قاسم سے اتحادی افواج کے علاوہ، اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا سامان ٹرالروں اور ٹرکوں کے ذریعہ طورخم اور چمن کے راستے افغانستان پہنچایا جاتا ہے۔ آل پاکستان گڈز ٹرانسپورٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن کے چیئرمین حاجی دل خان کا کہنا ہے کہ تخریب کاروں اور تحریک انصاف کے کارکنوں کو یہ معلوم نہیں کہ ٹریلر پر لدا ہوا سامان نیٹو کا ہے یا کمرشل ہے۔ کنٹینر تو ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں۔ حکومت یہ گارنٹی نہیں دے سکتی کہ گاڑی کو آگ نہیں لگائی جائے گی یا راکٹ فائر نہیں ہوگا، اس صورت حال میں ٹرانسپورٹروں نے لوڈنگ روک دی ہے۔

ٹرانسپورٹ تنظیموں کا کہنا ہے کہ معمول کے دنوں میں روزانہ 7ہزار کے قریب گاڑیوں کی افغانستان آمدو رفت ہوتی ہے۔ آل پاکستان کمبائنڈ ٹرکس اینڈ ٹرالرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل حمایت علی شاہ کا کہنا ہے کہ اس وقت 1500 کے قریب گاڑیاں افغانستان میں پھنس گئی ہیں اور اتنی ہی تعداد میں پاکستان میں موجود ٹرکوں اور ٹریلروں پر سامان لدا ہوا ہے۔ کارگو کی تو انشورنس ہوتی ہے گاڑی اور عملے کی کوئی انشورنس نہیں ہوتی، اس لیے ہر کوئی ڈرتا ہے۔



حمایت علی شاہ کا مزید کہنا ہے کہ اگر گاڑی لوڈ ہوجائے تو دباؤ بڑھ جاتا ہے کہ جلد ترسیل کی جائے کیونکہ تاخیر کی صورت میں شپنگ کمپنی کے کنٹینر کا جرمانہ ٹرانسپورٹر کو ادا کرنا ہوتا ہے جو 50 سے 80 ڈالر یومیہ ہوتا ہے۔ اس صورت حال میں ہم گاڑیاں لوڈ کرکے کیوں پریشانی اٹھائیں، اس لیے بندرگاہوں سے گاڑیاں لوڈ ہی نہیں کی جا رہیں۔این این آئی کے مطابق مختلف شہروں میں دھرنوں کی وجہ سے ٹرانسپورٹرز نے نیٹو کے کنٹینرز کراچی ہی میں روک لیے۔

سیکڑوں کنٹینرز راستے میں رکے ہوئے ہیں۔ ٹرانسپورٹرز کے مطابق 600 کے قریب کنٹینرز پورٹ پر پڑے ہوئے ہیں جن میں نیٹو افواج کے لیے کھانے پینے کی اشیاء اور دیگر ضروری سامان ہے۔ ادھر لنڈی کو تل میں پاک افغان بارڈر طورخم کو چار روز بعد ہر قسم کی ٹریفک کیلئے کھول دیا گیا۔ سرکاری ذرائع کے مطابق بارڈرکے دونوں طرف کھڑی سیکڑوں گاڑیوں جن میں نیٹو،افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور فروٹ و سبزیوں کے گاڑیوں کو بھی اجازت دی گئی جو بارڈر کراس کرگئیں۔ سرکاری ذرائع کے مطابق نیٹو جنگی گاڑیوں سے لدے ٹریلر بھی طورخم سرحد پار کرکے افغانستان میں داخل ہو گئے۔ طورخم بارڈر کی 4 دن کی بندش کی وجہ سے غریب عوام کا کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا تھا۔ نجی ٹی وی کے مطابق چمن کے راستے افغانستان کو نیٹو سپلائی بدستور جاری ہے۔ چمن بارڈر سے گزشتہ روز 9 کنٹینرز باب دوستی عبور کر کے افغانستان میں داخل ہوئے جنھیںاضافی سیکیورٹی فراہم کی گئی تھی۔

مقبول خبریں