بزرگ گھر کی برکت

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  جمعـء 13 دسمبر 2013
advo786@yahoo.com

[email protected]

ہمارے ایک دیرینہ دوست کے والد کا طویل علالت کے بعد انتقال ہوا تو انھوں نے بڑے افسردہ و مغموم لہجے میں کہا کہ ’’آج میرے گھر کی برکت اٹھ گئی۔‘‘ اسی طرح ایک خاتون کے انتقال پر اس کے بیٹوں سے تعزیت کرنے والے بزرگ کے یہ الفاظ بھی آج تک ذہن پر نقش ہیں کہ ماں کی ذات خاندان کا محور ہوتی ہے، جب تک وہ زندہ رہتی ہے تمام خاندان یکجا رہتا ہے اور اولاد کے درمیان وقتی طور پر ابھرنے والے اختلافات اور شکوے، شکایات پیدا ہونے کے ساتھ ہی ختم بھی ہوتے رہتے ہیں لیکن اس ہستی کے چلے جانے کے بعد معمولی معمولی سے شکوے شکایات، نفرتوں، لاتعلقیوں ، انا اور دشمنی تک پہنچ جاتے ہیں۔ ماں باپ کی ہستی اور کردار خاندان کی پرورش و تربیت، معاشی کفالت اور سماجی تحفظ تک ہی محدود نہیں ہوتا بلکہ اس کے اثرات پورے معاشرے پر منطبق ہوتے ہیں۔

خاندان جو معاشرے کا بنیادی یونٹ ہے ایک دیوار کی مانند ہوتا ہے جس کی ہر اینٹ دوسری اینٹ کو طاقت اور سہارا فراہم کرتی ہے، اینٹیں جتنی معیاری ہوں گی، مہارت اور تربیت سے چنی جائیں گی، عمارت اتنی ہی مضبوط، خوبصورت، دیدہ زیب اور پائیدار ہوگی۔ آج کے ہمارے معاشرے اور دنیا بھر کی بڑی بدقسمتی ہے کہ خاندان کا ادارہ یا تو مکمل طور پر ٹوٹ پھوٹ چکا ہے یا پھر تباہی سے دوچار ہے بلکہ باضابطہ طور پر اس کو تباہ کرنے کی حکمت عملی پر پورے وسائل اور قوت کے ساتھ کارروائی جاری ہے۔ تھنک ٹینک اس حکمت عملی میں لگے ہوئے ہیں کہ خاندان کے بنیادی ادارے کو تباہ کرنے کے لیے باپ کے کردار اور حیثیت کو کیسے ختم کیا جائے اور ماں کو اس کے مقام سے کیسے ہٹایا جائے۔ جن ممالک میں خاندان کے ادارے کو تباہ کردیا گیا ہے اس کے تباہ کن اثرات اور تباہ کاریاں بھی کھل کر سامنے آچکی ہیں۔

نفس پرستی و مادہ پرستی کی وجہ سے لوگ جانوروں والی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس معاشرتی تباہی و بربادی کو دیکھتے ہوئے کافی لوگ خاندانی نظام کی بحالی کے لیے سرگرداں اور خواہاں نظر آتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق صرف برطانیہ میں 78 فیصد برطانوی باشندے اپنے والدین اور بزرگوں کو حکومتی کیئر ہومز میں داخل کرا دیتے ہیں۔ یورپ کی حالت اس سے بھی زیادہ خراب ہے۔ پاکستان میں بھی والدین اور بزرگوں کے ساتھ ان کی اولاد کا رویہ روز افزوں خراب سے خراب تر ہوتا جارہا ہے۔

گھروں میں بوڑھے والدین کو وہ حیثیت نہیں دی جا رہی جس کے وہ مستحق ہیں، ان کی ذہانت، تجربات اور مشاہدات سے استفادہ حاصل کرنے کے بجائے ناکارہ، غیر اہم اور غیر ضروری سمجھا جارہا ہے، وہ تنہا ہوجانے کے خوف سے خاندان میں رہتے ہوئے تنہائی کا شکار اور قیدیوں جیسی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، وہ کہیں آ جا نہیں سکتے، انھیں مہمانوں کے سامنے نہیں آنے دیا جاتا ہے۔ سماعت، بصارت، یادداشت کمزور ہوجانے، بیماری اور معذوری کی وجہ سے انھیں غیر ضروری، غیر اہم اور بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ بحیثیت مسلمان ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ماں باپ بوڑھے ہوجائیں اور تمہارے ساتھ زیادتی بھی کریں تو ان کو اف تک نہ کہو اور انھیں پیار سے دیکھنے پر بھی ثواب رکھا گیا ہے۔

بوڑھے افراد میں ایک طبقہ وہ ہے جو ذہنی اور جسمانی طور پر صحت مند اور مالی طور پر مستحکم ہے، دوسرا طبقہ بیماری، معذوری یا مفلسی کا شکار ہے۔ بیمار، معذور، لاوارث اور مفلس طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد غربت و مفلسی کی وجہ سے خیراتی اداروں میں زندگی کی قید کاٹنے پر مجبور ہوجاتے ہیں یا انھیں اس پر مجبور کردیا جاتا ہے جب کہ دوسرے طبقے سے تعلق رکھنے والے بزرگ افراد جو خود صاحب حیثیت و متمول ہوتے ہیں جن کے ورثا بھی معاشی اعتبار سے مستحکم ہوتے ہیں ان کی اولاد والدین کی خدمت کرنے یا انھیں اپنے ساتھ رکھنے کے بجائے اپنی آزادی میں مخل اور بوجھ سمجھ کر ایسے اداروں میں داخل کرا دیتے ہیں جن کے اخراجات بھی وہ خود برداشت کرتے ہیں اور ایسے اداروں کی مالی معاونت بھی کرتے ہیں اور اداروں کو اس بات کا پابند کردیتے ہیں کہ ان کے بزرگوں کو گھروں پر آنے کی اجازت نہ دی جائے۔

ایسے بدنصیب افراد کے انٹرویوز اور کہانیاں عید اور تہواروں پر سننے کو ملتے ہیں، جن کی دلخراش کہانیاں سن کر دل لرز اٹھتے ہیں۔ عید کے موقع پر لاہور میں واقع اس قسم کے ایک مرکز سے کچھ والدین اپنے بیٹے بیٹیوں، پوتے پوتیوں سے ملنے اجازت لے کر اپنے پیاروں سے ملنے ان کے گھروں پر چلے گئے تو ان کے ورثا نے ایک ہنگامہ کھڑا کردیا کہ ادارے نے ان لوگوں کو گھروں پہ آنے کی اجازت کیوں دی کہ انھوں نے ہمارے گھروں پر آکر ہماری اور ہمارے بیوی بچوں کی عید خراب کردی۔ وہ بزرگ والدین جنھوں نے بچوں کے مستقبل پر اپنا حال نثار کردیا ان کے ساتھ اولاد کا یہ رویہ کسی المیے سے کم نہیں ہے۔ ایسے افراد کے لیے ہیلپ لیس کے بجائے ہوپ لیس کی اصطلاح استعمال کرنا زیادہ بہتر ہوگا۔

ٹیلی گراف میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2003 تا 2012 اولڈ ہومز میں 1200 کے قریب بزرگ افراد محض عملے کی غفلت و غیر ذمے داری کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں۔ محکمہ صحت کی جانب سے کیئر ہومز میں معمر شہریوں کی دیکھ بھال اور خدمت میں اس قدر غفلت برتی گئی کہ کئی روز تک انھیں پانی تک نہیں دیا گیا، جس کی وجہ سے وہ اپنے کمروں میں تڑپ تڑپ کر مرگئے۔ غیر سرکاری ذرایع ہلاکتوں کی تعداد 3 ہزار کے قریب بتاتے ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے برطانوی قوم کو دنیا کی بدتہذیب قوم قرار دیا ہے۔ سماجی تنظیموں کا کہنا ہے کہ جو برطانوی شہری جانوروں کے ساتھ بدسلوکی پر خاموش نہیں رہتے، آخر وہ اپنے معمر افراد اور رشتے داروں کی جانوروں سے بدتر موت پر کیوں خاموش ہیں؟ ان اولڈ ہومز میں معمر اور معذور افراد کو زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور انھیں مرنے پر مجبور کردیا جاتا ہے، ایسے اقدام پر کئی ورکرز کو سزائیں بھی ہوچکی ہیں۔ برطانیہ کے اولڈ ہومز میں معمر شہریوں کی تعداد لاکھوں میں بتائی جاتی ہے۔

حکومت اس مد میں خطیر رقم بھی خرچ کر رہی ہے۔ یورپ و دیگر مغربی ممالک کی حالت اس سے بھی زیادہ خراب ہے، جہاں شخصی اور نفسانی آزادی نے معاشرے کو ختم کرکے رکھ دیا ہے۔ ماں باپ بچوں کی سرزنش نہیں کرسکتے، بچے جوانی میں قدم رکھتے ہیں تو پھر کون ماں کون باپ، کیا حق کیا فرمانبرداری۔ مادہ پرستی اور نفس پرستی کے سوا انھیں کچھ نہیں سوجھتا۔ لیکن ہمارے مشرقی اور خصوصاً اسلامی معاشرے میں ایسا کچھ نہیں تھا۔ والدین اور بزرگوں کی فرمانبرداری، احترام و سعادت مندی ہماری میراث اور شناخت سمجھی جاتی تھی ماں باپ اولاد کے لیے ایثار و قربانی کا جذبہ رکھتے تھے تو اولاد کو بھی یہ فکر دامن گیر ہوتی تھی کہ وہ جلد بڑے ہوکر باپ کا سہارا اور ماں کی خدمت کریں، چھوٹے بہن بھائیوں کی کفالت کریں۔

اس موقع پر علامہ اقبال کی طویل نظم ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ یاد آجاتی ہے جس میں ان روایات اور جذبات کی منظر کشی کی گئی ہے جس کے چند اشعار کچھ اس طرح ہیں:
کس کو اب ہوگا وطن میں آہ! میرا انتظار
کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بے قرار؟
خاک مرقد پر تری لے کر یہ فریاد آؤں گا
اب دعا نیم شب میں کس کو یاد آؤں گا
تربیت سے تیری میں انجم کا ہم قسمت ہوا
گھر مرے اجداد کا سرمایہ عزت ہوا
دفتر ہستی میں تھی زریں ورق تیری حیات
تھی سراپا دین و دنیا کا سبق تیری حیات
عمر بھر تیری محبت میری خدمت گر رہی
میں تیری خدمت کے قابل ہوا‘ تو چل بسی

بڑی بدقسمتی ہے کہ ایک طرف خاندانی نظام کے خاتمے اور ماں کی حیثیت و کردار ختم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں تو دوسری طرف ماں نے بھی اپنا کردار نبھانے میں غفلت و کوتاہی کا مظاہرہ کیا ہے اولاد کی تربیت میں والدین خصوصاً ماں کا کردار کلیدی ہوتا ہے۔ جس کا احساس علامہ اقبال کی متذکرہ بالا نظم سے بخوبی ہوتا ہے لیکن ہم مادہ پرستی، نفس پرستی اور خود فریبی میں مبتلا لوگ لفاظیوں میں پڑے ہوئے ہیں کہ ہر مرد کی کامیابی کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ ہم مغرب سے معیوب اور اخلاقیات سے عاری اور اولاد کی صحیح تربیت سے غافل ہوکر خود ساختہ ترجیحات بنائے بیٹھے ہیں۔ جس کا نتیجہ نوجوان نسل کے اپنے والدین اور بزرگوں کے ساتھ طرز عمل کی صورت میں واضح طور پر سامنے آرہا ہے۔ اس تباہی میں میڈیا کا کردار بھی سب سے اہم ہے محض نوجوان نسل کو اس کا ذمے دار قرار نہیں دیا جاسکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔