بارش کا پانی جمع رہنے سے درجنوں عمارتیں کمزور ہوگئیں

کورنگی اللہ والا ٹاؤن میں عمارتوں کی بنیادیں بارش اور سیوریج کے پانی میں ڈوبنے کی وجہ سے کمزور ہورہی ہیں


Staff Reporter September 11, 2020
فوری طور پر پانی کی نکاسی کی جائے اور متاثرہ تمام عمارتوں کا سروے کرایا جائے، مکینوں کا مطالبہ ۔ فوٹو : ایکسپریس

کورنگی کے علاقے اللہ والا ٹاؤن کے علاقے میں عمارتوں کی بنیادیں بارش اور سیوریج کے پانی میں ڈوبنے کی وجہ سے کمزور ہورہی ہیں جب کہ بارش کے پانی کی نکاسی نہ ہونے سے درجنوں عمارتوں کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔

عمارت گرنے والے علاقے میں جگہ جگہ پانچ سے چھ منزلہ عمارتیں موجود ہیں جن کے اطراف بارش اور سیوریج کا پانی موجود ہے اور متعدد عمارتوں کی زیریں حصہ اور پلنتھ بارش اور سیوریج کے پانی کی وجہ سے کمزور ہورہی ہیں جو مزید حادثات کا سبب بن سکتی ہیں۔

علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ بارشوں کے بعد دو ہفتے گزرنے کے باوجود اللہ والا ٹاؤن سے بارش اور سیویج کے پانی کی نکاسی کا بندوبست نہیں کیا گیا خالی پلاٹس پر بھی بارش کا پانی جمع ہے گلیوں میں کیچڑ کی موٹی تہہ جمی ہوئی ہے، پانی آہستہ آہستہ زمین میں ہی جذب ہورہا ہے، مکینوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ پانی کی نکاسی کی جائے اور متاثرہ تمام عمارتوں کا سروے کرایا جائے ۔

کورنگی: زمین بوس عمارت میں جاں بحق وقاص اکلوتی اولاد تھا

کورنگی اللہ والا ٹائون میں زمین بوس ہونے والی 4 منزلہ عمارت کے ملبے تلے دب کر زندگی کی بازی ہارنے والے نوجوان وقاص کے والد محمد حنیف نے بتایا کہ عمارت گرنے کے نتیجے میں اس کا اکلوتا بیٹا اب اس دنیا میں نہیں رہا ، ڈھائی سال سے مذکورہ عمارت کی دکان کرایے پر لیکر کباڑی کی دکان چلا رہا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ عمارت تعمیر کر کے پورشن فروخت کرنے والا بلڈر محمد ایوب عمارت کے گرائونڈ فلور پر بنائے گئے پورشن میں رہائش پذیر ہے اور وہ بھانپ گیا تھا کہ عمارت کے گرنے کا خطرہ ہے جبکہ وہ بارشوں کے بعد مخدوش قرار دی جانے والی عمارت کے اندر پلر بنوا رہا تھا ۔

انھوں نے بتایا کہ بیٹے کی میت تدفن کے لیے اپنے آبائی شہر بہاولپور لے جا رہا ہوں ، عمارت کے ٹھیکیدار نے ہم پر ظلم کیا میں عمارت گرنے کے خطرات کے پیش نظر عمارت سے منتقل ہونا چاہ رہا تھا لیکن عمارت کے ٹھیکیدار نے مجھے بلڈنگ نہ گرنے کی ضمانت دی تھی لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

عمارت خالی کرائی تھی، مکین دوبارہ آباد ہو گئے، ڈی سی کورنگی

ڈپٹی کمشنر کورنگی شہریار میمن نے انکشاف کیا کہ ہم نے دو روز قبل عمارت کو خالی کروا لیا تھا کیونکہ مذکورہ عمارت کی بنیادیں حالیہ بارشوں میں کمزور ہوگئی تھیں۔

انھوں نے ایکسپریس نیوز سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ متاثرہ عمارت میں دو خاندان رہائش پذیر تھے تاہم بعض مکینوں کے کہنے پر متاثرہ عمارت میں بدقسمت خاندان کے لوگ دوبارہ آباد ہو گئے زمین بوس ہونے والی عمارت کے برابر والی عمارت کو بھی جزوی نقصان پہنچا ہے جسے خالی کروا لیا گیا ہے، قریبی عمارت کی بنیاد بھی کمزور ہو چکی ہے۔

ٹریفک پولیس کے ہیڈ کانسٹیبل کی اہلیہ اور 2 بچے بھی ملبے تلے دب گئے

کورنگی اللہ والا ٹائون میں زمین بوس ہونے والی عمارت کی دوسری منزل پر رہائش پذیر ٹی پی ایکس ٹریفک سیکشن میں تعینات ہیڈ کانسٹیبل محمد ذوالفقار نے ایکسپریس کو بتایا کہ جس وقت عمارت گری وہ ڈیوٹی پر تھا جبکہ اس کی اہلیہ عائشہ، 11 سالہ بیٹی ثنا اور 9 سالہ بیٹا ملبے تلے دبے ہوئے ہیں، عمارت کے بلڈر محمد ایوب فالج کا مریض ہے جس کی اہلیہ اور 2 بیٹیاں بھی ملبے میں دبی ہوئی ہیں۔

ذوالفقار کا کہنا تھا کہ ملبہ ہٹانے کا عمل جاری ہے اور وہ اپنے اہلخانہ کی سلامتی کے لیے دعائیں کر رہا ہے کہ وہ صیح سلامت باہر نکل آئیں۔

60 گز کا مکان بھی ملبے کا ڈھیر بن گیاگھر کا سامان لینے باہر گئی خاتون بچ گئی

کورنگی اللہ والا ٹائون میں زمین بوس ہونے والی عمارت کی لپٹ میں آکر قریب ہی بنا ہوا 60 گز کا مکان اور اس میں رکھا ہوا فرنیچر و دیگر گھریلو سامان برباد ہوگیا لیکن چند منٹوں قبل گھر سے بازار جانے والی ضعیف العمر خاتون معجزانہ طور پر بچ گئی۔

60 سالہ کلثوم بی بی نے بتایا کہ وہ عمارت گرنے سے 15 منٹ قبل ہی گھر سے نکل کر بازار سامان خریدنے گئی تھی اور جب واپس آئی تو عمارت گر گئی تھی اور اس کے ملبے سے میرا چھوٹا سا آشیانہ تباہ و برباد ہوگیا۔

خاتون نے بتایا کہ زندگی بھر کی جمع پونجی جمع کر کے بڑی مشکلوں سے 60 گز کا پلاٹ خرید کر اس پر 2 کمرے تعمیر کرائے تھے لیکن گرنے والی عمارت نے تو میرا چمن ہی اجاڑ دیا۔

عمارت میں رہائش پذیر خوش نصیب خاندان نے 2 روز قبل ہی نقل مکانی کی تھی

کورنگی اللہ والا ٹائون میں زمین بوس ہونے والی عمارت کے ملبے میں دبے ہوئے افراد جہاں موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا رہے تو وہیں پر ایک خوش نصیب خاندان ایسا بھی ہے جو 2 روز قبل ہی عمارت سے نقل مکانی کر جانے کی وجہ سے بال بال بچ گیا۔

محمد حیات نے بتایا کہ وہ گزشتہ چھ ماہ سے مذکورہ عمارت میں 6 ہزار روپے ماہانہ کرایے پر رہائش پذیر تھا تاہم عمارت کے مخدوش ہونے کی وجہ سے وہ 2 روز قبل ہی گھر کو تالا لگا کر رشتے دار کے گھر منتقل ہوگیا تھا اور رہائش کیلیے دوسرا مکان تلاش کر رہا تھا کہ انھیں اطلاع ملی کہ عمارت زمین بوس ہوگئی گھریلو فرنیچر اور دیگر سامان ملبے تلے دب کر تباہ ہوگیا۔

مقبول خبریں