وسیم خان کے ”دکھ“

وسیم خان کو ہم نے یہاں بادشاہوں کی طرح رکھا ہے


Saleem Khaliq September 11, 2020
وسیم خان کو ہم نے یہاں بادشاہوں کی طرح رکھا ہے۔ فوٹو: فائل

"میں سب کچھ چھوڑچھاڑ کر پاکستان گیا، وہاں مگر ہر وقت تنقید ہی سہنا پڑتی ہے، جاتے ہی میری تنخواہ کسی نے لیک کر دی اور ہر کوئی اسی پر بات کرنے لگا، مجھے سب "باہر والا" سمجھتے ہیں، اس صورتحال سے گھر والے بھی پریشان ہو گئے"۔

حال ہی میں ایک امریکی اخبار میں پی سی بی کے سی ای او وسیم خان کا انٹرویو پڑھا جس میں وہ اپنے "دکھ" بیان کر رہے تھے، میں بھی رنجیدہ ہوگیا شاید آنکھوں سے آنسو بھی رواں ہو جاتے کہ ایک انسان برطانیہ کی پُرآسائش زندگی چھوڑ کر پاکستان آیا اور اس کا یہ حال ہو گیا، پھر میں سوچنے لگا کہ 2 سال میں وسیم خان نے ایسے کیا کارنامے انجام دیے جس سے وہ 2 سال میں وصول کیے ہوئے 6 کروڑ روپے سے زائد رقم کو جسٹی فائی کرسکیں تو ذہن میں کوئی ایسی خاص بات نہ آئی۔



اگر آپ کو ایک غیرملکی اخبار سے بات چیت کرنے کا موقع ملا تویہ بتاتے کہ میں نے فلاں کارنامے سرانجام دیے مگر شاید ان کو ایسا کچھ یاد ہی نہ آیا جس کی وجہ سے دکھڑے بیان کرتے رہے، جو صاحب انٹرویو لے رہے تھے ان کی کرکٹ معلومات کا یہ حال تھا کہ انھوں نے تحریر کیا "پاکستان میں کلب کرکٹ کا نظام خود ساختہ ڈپارٹمنٹل ٹیموں پر مشتمل تھا، کلبز ملک کے چند بڑے کاروباری ادارے چلاتے تھے، ان کی جگہ 6 ریجنل ٹیمیں لائی گئیں تاکہ قومی ٹیم تک ٹیلنٹ کے پہنچنے کی واضح راہ بنائی جائے، کلب کرکٹ کا فین بیس بھی بنے"۔



یہ پڑھیے اور سر دھنیے، ان صاحب کو ڈومیسٹک کرکٹ اور کلب کرکٹ میں فرق ہی نہیں پتا اور پی سی بی نے سی ای او کا انٹرویو کرا دیا، شاید اس کی وجہ بھی یہی تھی، پاکستان میں بھی ان کو چند من پسند صحافیوں کے سامنے پیش کیا جاتا جو پہلے ہی بتائے ہوئے سوال ہی پوچھتے مگر جب سب کو یہ پتا چل گیا تو اب ملکی میڈیا سے بھی سات پردوں میں چھپایا جا رہا ہے کیونکہ سامنے لائے تو سوال سے سوال نکلیں گے اور جواب دینا مشکل ہوجائے گا، وسیم خان سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں وہ 26 لاکھ 50 ہزار ماہانہ کے بجائے ایک کروڑ روپے تنخواہ لیں لیکن پھر ڈیلیور بھی کریں۔



انھیں پاکستان کرکٹ کے بارے میں کچھ نہیں پتا، ایک صاحب انھیں چلا رہے ہیں لیکن اس کا فائدہ نہیں نقصان ہی ہوا، مجھے ایسا لگتاہے کہ انھیں ڈھال بناکر لایا گیا، ڈومیسٹک سسٹم تبدیل کر دیا دیگر بڑے فیصلے بھی کیے، بعد میں وسیم سامان پیک کر کے انگلینڈ واپس چلے جائیں گے اور ملبہ بھی انہی پر ڈال دیا جائے گا، افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ پی سی بی حکام 2 سال میں کچھ نہ کر سکے الٹا کرکٹ پیچھے ہی چلی گئی۔



ڈپارٹمنٹل کرکٹ بند کر کے نیا نظام لایا گیا لیکن کوئی فرق نظر نہ آیا، اب کہیں گے کہ بہتری آنے میں 10 سال لگیں گے، 192 کرکٹرز کو کنٹریکٹ دے کر لفظوں کے ہیرپھیر سے یہ ظاہر کیا گیا کہ وہ لاکھوں کمائیں گے، یہ نہیں بتایا کہ کون سا کھلاڑی سال کے تمام میچز کھیل سکے گا اور ان ہزاروں کا کیا جو بے روزگار ہوئے، قومی ٹیم ٹی ٹوئنٹی میں نمبر ون تھی، اب چوتھے نمبر پر آ گئی، ٹیسٹ اور ون ڈے میں بھی کارکردگی زوال پذیر ہے، کوچز کی فوج کے ساتھ ایک ماہ سے زائد عرصے انگلینڈ میں گزارنے کے باوجود ہم ٹیسٹ سیریز ہار گئے اور ٹی ٹوئنٹی بمشکل برابر کی، مصباح کو ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر بنا دیا جو ناکام ثابت ہوئے ہیں۔



ڈپارٹمنٹل کرکٹ ختم کردی مگر دوسرے سال بھی اب تک گورننگ بورڈ میں اس کے نمائندے شامل ہیں، بیشتر ایسوسی ایشنز کی رجسٹریشن تک نہ ہوئی، ایک میں اپنے آفیشلز کے غلط عہدے لکھ کر رجسٹرڈ کرایا گیا، کہا گیا کہ نئے سیٹ اپ میں اسپانسرز کی بھرمار ہوگی مگر ایک ٹیم کو بھی کوئی اسپانسر نہ ملا حالانکہ مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ کی جگہ خود چیئرمین اور سی ای او ملاقاتوں کیلیے گئے تھے۔



گزشتہ دنوں احسان مانی کا ایک "انٹرویو" پڑھا جس میں وہ بیچارے بھی کارنامے بیان نہیں کر سکے اس لیے ملک میں کرکٹ کی واپسی بھی اپنے کھاتے میں ڈالنے لگے، پہلے بھی یاد دلا چکا کہ جناب آپ سے پہلے ہی کئی ٹیمیں یہاں آ کر جا چکی تھیں، پی ایس ایل کے میچزبھی ہو چکے تھے، میدان آباد ہونے کا مکمل کریڈٹ سیکیورٹی فورسز کو جاتا ہے، ملک کے حالات ٹھیک ہونے سے ہی غیرملکیوں کا اعتماد بڑھا، آج آپ کسی کو بھی چیئرمین بنا دیں ٹیمیں اس کی شکل نہیں پاکستان کے حالات دیکھ کر ہی آئیں گی۔



رہی بات پی ایس ایل کی تو اس کے معاملات بہت ابتری کا شکار ہیں، لیگ کو نقصان نہ پہنچے اس وجہ سے میں نے کئی باتیں جاننے کے باوجود شیئر نہیں کی ہیں،بس اتنا بتا سکتا ہوں کہ اس وقت پی ایس ایل چاروں طرف سے مسائل میں گھری ہوئی ہے، مگر بورڈ حکام اپنی بدانتظامی اور انا پسندی کی وجہ سے کچھ سننے کو تیار نہیں، اربوں روپے گنوانے والی فرنچائزز کب تک نقصانات برداشت کریں گی؟ فرضی انٹرویوز میں اپنے "کارنامے" بیان کرنے کے بجائے بورڈ حکام کو آئینے میں چہرہ دیکھنا چاہیے کہ دو سال میں کیا کیا۔



وسیم خان کو ہم نے یہاں بادشاہوں کی طرح رکھا ہے، بہترین رہائش، گاڑی، ملازمین، پیڈ ہالی ڈیز اور انھیں کیا چاہیے، مگر ایسا لگتا ہے وہ تنقید سے بہت گھبراتے ہیں اسی لیے جو کرکٹر کچھ بولے اسے فوراً ملازمت مل جاتی ہے، جاوید میانداد نے سخت باتیں کیں ان کے بھانجے فیصل اقبال کو کوچ بنا دیا تو سابق کپتان معافیاں مانگنے لگے۔



وسیم کو تو اب لاہور میں ہی گھر جیسا ماحول مل گیا ہے، کئی قریبی دوست قذافی اسٹیڈیم اور ہائی پرفارمنس سینٹر میں ہی ملازم ہو گئے، اب تو وہ خوش رہیں، البتہ انھیں اور احسان مانی کو ڈیلیور کرنا ہوگا، دوست میڈیا اور غیرملکی صحافیوں کے سامنے تو چل جائے گا مگر دوسروں کو حقیقی کارنامے کیسے گنوائیں گے، اب بھی ایک سال باقی ہے، کرکٹ کو سدھارنے کی کوشش کریں، میڈیا آپ کا دشمن نہیں بیچارے صحافیوں کو تو بورڈ میں نوکری بھی نہیں چاہیے ہوتی ہے کہ تنقید کر کے توجہ حاصل کریں،آپ دیکھیں کیا غلطیاں کیں۔

جب ملکی کرکٹ بہتر ہوگئی اور ٹیم بھی جیتنے لگے گی تو سارا میڈیا بھی تنقید کرتا پھرے آپ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا الٹا لوگ صحافیوں کو ہی برا بھلا کہیں گے کہ سب کچھ اتنا اچھا ہوگیا اور یہ تنقید کر رہے ہیں، مگر ابھی کرکٹ کا جو حال ہے اس میں تو آپ کا دفاع کرتے ہوئے "دوستوں" کو بھی مشکل ہو رہی ہوگی، دیکھتے ہیں بورڈ حکام کیا کرتے ہیں، امید ہے اب اپنے دکھڑے رونے کے بجائے کام پر دھیان دیں گے۔

مقبول خبریں