تتلی کیوں مر گئی؟

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 18 دسمبر 2013

چینی کہتے ہیں اگر تم انھیں مانتے ہو تو ان کا وجود ہو گا لیکن اگر تم نہیں مانو گے تو ان کا وجود نہیں ہے۔ آئیے اس کہاوت کے پیچھے موجود کہانی سنیے۔ تقریباً ایک ہزار برس قبل سونگ عہد سلطنت میں ژوکسی نامی ایک مشہور عالم ہو گزرا ہے اس کا عقیدہ تھا کہ جنوں بھوتوں کا وجود نہیں ہے چنانچہ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک مضمون لکھے گا جس کا عنوان ہو گا ’’بھوتوں کا وجود نہیں ہے‘‘ و ہ اتنا بڑا عالم و دانا تھا کہ خود بھوت بھی اس سے ڈرتے تھے اگر وہ کہہ دیتا کہ بھوت نہیں ہیں تو بھوتوں کا وجود برقرار نہیں رہ سکتا تھا۔

جب بھوتوں کو پتہ چلا کہ وہ ایک ایسا مضمون لکھ رہا ہے تو انھوں نے ایک ہنگامی اجلاس منعقد کیا اور اس مسئلے پر غور کیا انھوں نے فیصلہ کیا کہ سب سے چالاک بھوت کو اس کے پاس بھیجا جائے تا کہ وہ اسے مضمون لکھنے سے باز رکھنے کی التجا کرے چنانچہ ایک رات اسمارٹ ترین بھوت ژوکسی کے ڈیسک پر آ گیا اور اس کے پیر پکڑنے لگا ژوکسی حیران ہوا اور پوچھا بھوت تمہیں اس وقت مجھے ڈسٹرب کرنے کی جرأت کیسے ہوئی چلے جاؤ یہاں سے اور تم میرے مطالعے کے کمرے میں آئے کیوں ہو۔

بھوت نے جواب دیا میں یہاں آپ کے پاس ایک درخواست لے کر آیا ہوں ’’انسان یانگ کی دنیا میں رہتے ہیں اور بھوت پریت ین کی دنیا میں ہم الگ الگ دنیا ؤں میں ہیں لہذا میں کسی بھی طرح سے تمہاری مدد نہیں کر سکتا ژوکسی نے کہا جناب عالی میں ایک خاص التجا کرنے آیا ہوں۔ اچھا کہو۔ تب بھوت نے ژوکسی کو اپنے آنے کی وجہ بتائی اور بھوتوں کی نجات کی خاطر اس سے مضمون نہ لکھنے کی درخواست کی۔ ژوکسی ہنسا اور کہنے لگا ہم انسان تم بھوتوں کی بڑی مدت سے پوجا کرتے آئے ہیں اب و قت آ گیا ہے کہ تم بالکل ہی ختم ہو جاؤ۔ بھوت بولا ہم بھوتوں میں بھی اچھے اور برے دونوں طرح کے بھوت ہیں ژوکسی بولا سنا ہے تم ہر کام کر سکتے ہو کیا تم مجھے کمرے سے باہر لے جا سکتے ہو بھوت نے کہا یقینا جناب عالی ژوکسی کو خبر بھی نہ ہوئی کہ اگلے ہی لمحے وہ باہر تھا۔ وہ بھوت کی قابلیت سے حیران ہو گیا مگر ایسا ماننے پر تیارنہ تھا اس نے دوبارہ پوچھا اچھا تم میرا جسم تولے جا سکتے ہو لیکن تم میرے دل کو حرکت دے سکتے ہو۔

بھوت نے کہا یہ ناممکن ہے جنا ب والا ہم صرف چیزوں کو یا کسی شخص کے جسم کو حرکت دے سکتے ہیں اور یہ ہمارے موجود ہونے کا ثبوت ہے ہم فریب نظر میں وجود رکھتے ہیں اگر آپ عقیدہ رکھیں تو ہم وجود رکھیں گے لیکن اگر آپ عقید ہ نہ رکھیں گے تو ہم بھی وجو د نہیں رکھیں گے آپ براہ کرم اپنے مضمون میں اس طرح کی کوئی بات لکھیں۔ ژوکسی نے محسوس کیا کہ ان الفا ظ میں کوئی ضرر نہیں ہے۔ چنانچہ اس نے بھوت سے وعدہ کر لیا کہ وہ ایسا ہی لکھے گا بھوت خو شی خوشی چلا گیا چنانچہ ژوکسی نے بھوت پر یت وجود نہیں رکھتے کے عنوان تلے اپنے مضمو ن میں لکھا اگر تم عقیدہ رکھو گے تو جنوں بھوتوں کو وجود ہو گا لیکن اگر تم ان پر عقید ہ نہ رکھو گے تو جنوں بھو توں کا کو ئی وجود نہیں ہے بالکل جوں کی توں صورتحال خو ف کے ساتھ ہے اگر تم خو ف کھا ؤ گے تو اس کا وجود ہو گا اور اگر نہیں کھا ؤ گے تو پھر خو ف کا وجود نہیں ہو گا۔

آج سارا ملک خو ف میں مبتلا ہے۔ مختلف خوف 18 کروڑ انسانوں میں زندہ ہیں۔ دہشتگردی کا خو ف، مو ت کا خو ف، بیروزگار ی کا خو ف، مہنگائی کا خوف، چوری اور ڈاکے کا خو ف، انتہاپسندی کا خوف غرض دنیا بھر کے خوف نے ہمارے ملک میں اپنے ڈیرے ڈال رکھے ہیں اتنا خوف ہے کہ خود خو ف بھی خوف سے کانپ رہا ہے۔ اسی خو ف نے جیتے جاگتے انسان کو ردی اور ناکارہ انسانوں میں تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ اگر کسی قوم کو تباہ کر نا مقصود ہو تو پھر آپ اس کو خوفزدہ کر دیں وہ قوم خود بخود تباہ ہو جائے گی۔ یہ معاملہ ہمارے ساتھ انتہائی باریکی کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔

خوف ایک ذہنی بیماری ہے خوف اپنے آپ کو خواہ مخواہ ادنی، کمزور، لاغر سمجھنے کا نتیجہ ہے اپنے آپ کو مظلوم اور مصیبت زدہ سمجھنے کی عادت خائف رہنے سے پیدا ہوتی ہے خوف ہمارے ذہن کو منتشر کر دیتا ہے صلاحیتوں کو تباہ کر دیتا ہے اس کی وجہ سے ساری ناانصافیوں، سارے ظلم و ستم، معاشی قتل عام، عدم مساوات، کیخلا ف آپ چپ سادھے رہتے ہیں آپ اپنے تمام تر حقوق سے چپ چاپ دستبردار ہو جاتے ہیں آواز اٹھانا تو دور کی بات ہے آپ قاتلوں، ڈاکوؤ ں، لیٹروں کے خلاف بات سنتے بھی ڈرتے ہیں۔برنارڈشا نے کہا ہے ہمیں مایوس اور خوفزدہ ہر گز نہیں ہونا چاہیے کیونکہ مایوسی اور خوف گناہ کی بدترین شکل ہے جب کہ بقراط نے کہا ہے خو ف اور مایوسی انسان کے سب سے بڑے دشمن اور خدا کے عذاب ہیں۔

خدارا اس کھیل کو سمجھنے کی کوشش کریں جو آپ کے خلاف کھیلا گیا ہے یاد رکھیں کھیل کھیلنے والے کا میاب ہو گئے ہیں یہ بھی ذہن نشین رکھیں کہ اگر کسی شخص کو اپنے آپ پر اعتماد نہ ہو اور اس کی قوت ارادی کمزور ہو اور وہ خوفزدہ ہو تو وہ واقعات کے ہاتھوں ایک کھلونا بن جاتا ہے۔ حالات اسے کٹھ پتلی بنا کر نچانے لگتے ہیں اور ہوا کاہر جھونکا اسے اڑائے پھرتا ہے۔ اپنے اوپر یقین رکھنا جہاد کا درجہ رکھتا ہے ڈر، مایوسی اور وہم زندگی کا زہر ہیں حوصلہ، قوت اور خود اعتماد ی زندگی کا امرت ہیں، انگریزی کہاوت ہے جب ارادہ بن جائے تو راستہ مل جاتا ہے۔ کوئی رکاوٹ کسی مصمم ارادے کا راستہ نہیں روک سکتی۔ آئیں ہم اپنے لیے اپنے پیاروں کی خاطر سب سے پہلے اپنے تمام خوف کو شکست دے دیں اور ان غاصبوں، لیٹروں، چوروں، انتہاپسندوں، دہشتگردوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ جنہوں نے ہماری زندگی دوزخ بنا رکھی ہے تو پھر آپ خود ہی دیکھ لیں گے کہ یہ سب کے سب کس طرح بھاگتے ہیں اس لیے کہ عوام سے بڑی طاقت کوئی اور نہیں ہے اور یہ سب کے سب انتہائی بزدل، ڈرپوک ہیں جو بظاہر طاقتور نظر آتے ہیں لیکن اصل میں ان کا حال بالکل دیمک ذرہ لکڑی کی طرح کا ہے۔

انتہائی کھوکھلے اور بوسیدہ۔ کامیابی اتفاقیہ طور پر نہیں ملا کرتی یہ ہمارے رویوں کا نتیجہ ہوتی ہے اور ہمارے روئیے ہمارا اپنا انتخاب ہو تے ہیں۔ چنانچہ کامیابی انتخاب ہوتی ہے اتفاق نہیں اور کامیابی جدوجہد کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔ بیالوجی کے استاد نے طلبا ء کو بتایا کہ تتلی کس طرح خول کو توڑ کر با ہر نکلتی ہے پھر اس نے خول ان کے سامنے رکھ دیا اور بتایا کہ دو گھنٹے بعد اس میں سے تتلی نکلے گی اس نے انھیں منع کیا کہ کوئی تتلی کی مدد نہ کرے اس کے بعد وہ کلاس روم سے باہر چلا گیا ٹھیک دو گھنٹے بعد خول ٹوٹنے لگا اور تتلی با ہر آنے کی جدو جہد کرنے لگی اس کی حالت دیکھ کر ایک طالب علم سے رہا نہ گیا اور اس نے استاد کی ہدایت کو نظر انداز کرتے تتلی کی مدد کے خیال سے خول کو توڑ دیا تتلی آزاد ہو گئی لیکن تھوڑی ہی دیر میں مر گئی۔ جب استاد کو پتہ چلا تو اس نے طلبا ء کو سمجھایا کہ خول کو توڑنے کی جدوجہد تتلی کو وہ قوت عطا کرتی ہے جس سے وہ زندہ رہتی ہے چونکہ طالب علم نے اس کو جدو جہد نہیں کرنے دی تھی اس لیے وہ مر گئی۔ زندگی میں آزادی، ترقی، خو شحالی، اختیار، مساوات کا جدوجہد اور خواہش کے بغیر حصول ناممکن ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔