- درخشاں تھانے میں ملزم کی ہلاکت، سابق ایس پی کلفٹن براہ راست ملوث ہونے کا انکشاف
- شبلی فراز سینیٹ میں قائد حزب اختلاف نامزد
- جامعہ کراچی ایرانی صدر کو پی ایچ ڈی کی اعزازی سند دے گی
- خیبر پختونخوا میں بیوٹی پارلرز اور شادی ہالوں پر فکسڈ ٹیکس لگانے کا فیصلہ
- سعودی عرب میں قرآنی آیات کی بے حرمتی کرنے والا ملعون گرفتار
- سائنس دان سونے کی ایک ایٹم موٹی تہہ ’گولڈین‘ بنانے میں کامیاب
- آسٹریلیا کے سب سے بڑے کدو میں بیٹھ کر شہری کا دریا کا سفر
- انسانی خون کے پیاسے بیکٹیریا
- ڈی آئی خان میں دہشتگردوں کی فائرنگ سے بچی سمیت 4 کسٹم اہلکار جاں بحق
- سینیٹر مشاہد حسین نے افریقا کے حوالے سے پاکستان کے پہلے تھنک ٹینک کا افتتاح کردیا
- گوگل نے اسرائیل کیخلاف احتجاج کرنے والے 28 ملازمین کو برطرف دیا
- آپریشن رجیم میں سعودی عرب کا کوئی کردار نہیں، عمران خان
- ملک کو حالیہ سیاسی بحران سے نکالنے کی ضرورت ہے، صدر مملکت
- سعودی سرمایہ کاری میں کوئی لاپرواہی قبول نہیں، وزیراعظم
- ایرانی صدر کا دورہِ پاکستان اسرائیل کے پس منظر میں نہ دیکھا جائے، اسحاق ڈار
- آدھی سے زائد معیشت کی خرابی توانائی کے شعبے کی وجہ سے ہے، وفاقی وزیر توانائی
- کراچی؛ نامعلوم مسلح ملزمان کی فائرنگ سے 7بچوں کا باپ جاں بحق
- پاک بھارت ٹیسٹ سیریز؛ روہت شرما نے دلچسپی ظاہر کردی
- وزیرخزانہ کی امریکی حکام سے ملاقات، نجکاری سمیت دیگرامورپرتبادلہ خیال
- ٹیکس تنازعات کے سبب وفاقی حکومت کے کئی ہزار ارب روپے پھنس گئے
بچوں میں ذہنی دباؤ۔۔۔
صرف بڑے ہی نہیں، بچے بھی ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں۔ بچوں کے اندر بڑھتے ہوئے ذہنی مسائل آج ایک بڑا مسئلہ ہیں۔
ہمارے معاشرے میں جو بہت زیادہ پیچیدگیاں اور بہت سخت مقابلے کی فضا پیدا ہوچکی ہے، اس سے کئی بچے ذہنی دباؤ کا شکار ہو چکے ہیں۔ بچے والدین کی توقعات پر پورے نہیں اتر رہے، جو اسکول کی تعلیم سے وابستہ ہوتی ہیں۔ بہت زیادہ مقابلے بازی، بچے کو بہت جلد اسکول داخل کروانے کا دباؤ، اسکولوں میں کمزور تدریسی ماحول اور غیر معیاری تعلیم باہم مل کر بچے کے لیے معاشرتی، جذباتی اور سیکھنے کے عمل میں مشکلات پیدا کرتے ہیں۔
بچوں میں دباؤ کی ایک بڑی وجہ ان سے بہت زیادہ غیر معمولی توقعات وابستہ کر لی جاتی ہیں۔ دیکھا جائے، تو پوری دنیا میں تعلیم یافتہ والدین کی اپنے بچے کے بارے میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ امتحانات میں سب سے زیادہ نمبر لے اور جو بھی کام کرے ، اس میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرے اور جب ان کی توقعات پر بچہ پورا نہیں اترتا، تو وہ اس کو ملامت کرتے ہیں اور ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ دوسرے بچوں کی مثال پیش کرتے ہیں۔ جو پڑھائی میں ان کے بچے سے آگے ہوتے ہیں۔ انہیں اندازہ نہیں ہوتا کہ ان کا یہ رویہ بچے پر کس قدر منفی اثر ڈالے گا۔ یہ رویہ بچے کو غیر محفوظ بناتا ہے اور اس کے اعتماد کو بھی کم کرتا ہے۔
اکثر والدین یہ سنگین غلطی کرتے ہیں کہ کب بچے کی گھر کی یا اسکول کی کارکردگی کا دوسروں کے بچوں کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں یا دوسرے بچوں کی مثالیں دیتے ہیں یا پھر انہیں یہ کہہ کر ڈراتے ہیں کہ تم نہیں کر سکتے، تم کر ہی نہیں سکتے ہو، یہ انداز بچے کے اندر احساس کمتری کو جنم دیتا ہے اور ان کے اندر خود اعتمادی پیدا کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتا ہے۔ بچے پر جذباتی لعن طعن کا بھی اس پر نہایت برا یعنی منفی اثر پڑتا ہے جو بچے کی شخصیت کو مسخ کر کے رکھ دیتا ہے۔
بہت زیادہ ذہنی دباؤ بچے کی صلاحیتوں کو بھی متاثر کرتا ہے اور یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج کل کے دور میں ایک عام بچہ بھی شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہے۔ بچوں کے ذہنی اور جسمانی دباؤ کی وجوہات کوئی نئی نہیں ہیں۔ بچوں کے ذہنوں پر اسکول کے حوالے سے بہت زیادہ دباؤ ہوتا ہے، جہاں اسے بہت زیادہ ہوم ورک اور اس سے بڑھ کر امتحان اور ٹیسٹوں کا دباؤ رہتا ہے، جس کے لیے انہیں زائد وقت صرف کرنا پڑتا ہے۔ ایک اور وجہ جو بچوں کی پریشانی کا باعث بنتی ہے وہ بچے کا ٹی وی، موبائل اور نیٹ وغیرہ پر بہت زیادہ وقت برباد کرنا ہے۔
ان سب سے بڑھ کر والدین بچوں سے اسکول میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے یا بورڈ کے پیپرز میں اچھی کارکردگی دکھانے کے لیے دباؤ ڈالنا ہے، جو بچوں کے نوخیز ذہنوں پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے اور اسی وجہ سے بچے ذہنی دباؤ اور ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں، جو بعض اوقات بہت پریشانی کا باعث ہوتا ہے۔
بچوں میں ڈپریشن اس وقت ہوتا ہے جب بچے یہ سوچنا شروع کردیں کہ کوئی دوسر ان پر توجہ نہیں دے رہا ان کی باتیں اور پریشانیاں محسوس نہیں کر رہا، مسائل کو نہیں سمجھ رہا اور انہیں ناپسند کیا جا رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بسا اوقات بڑے بچوں کی تکالیف اور جذباتی محرومیوں کو سمجھ نہیں پاتے۔ اسکول کا دباؤ اور ذمہ داریاں بڑھنے کا احساس بعض بچوں کے لیے اس سے کامیابی کے ساتھ نمٹنے کے لیے بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم خود کو یہ باور کرائیں کہ بچوں کے جو مسائل ہمارے لیے غیر اہم ہیں وہ ان کے لیے بہت ہی زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔
بچوں میں ڈپریشن کی علامات دیکھی جاسکتی ہیں جب کبھی آپ کا بچہ ڈپریشن کا شکار ہو تو ممکن ہے کہ وہ اس موضوع پر بات کرنا پسند کرے۔ آپ کے لیے پہلی علامت ممکن ہے کہ اس کے رویے میں تبدیلی ہو، جو منتشر اور غمگین ذہن کی نشاندہی کرے ایک بچہ جو بہت متحرک ہو اور بہت سے کاموں میں شامل ہو مگر ایک دم خاموش ہوجائے اور ہر چیز سے بچنے کی کوشش کرے یا ایک اچھا طالب علم کمتر پوزیشن حاصل کرنے لگے۔ اب اسے ماہرانہ رائے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح محسوسات میں تبدیلی بھی ممکن ہے مگر کیسے؟ آپ کا بچہ ناخوشی کا اظہار کرے ، غم زدہ ہو، خوف زدہ ہو جائے یا ٹھکرائے جانے کا احساس رکھے۔ سردرد یا پیٹ درد کی تکلیف کا اظہار کرے ۔ توانائی میں کمی یا سونے اور کھانے میں مسائل پیدا ہو رہے ہوں یا تمام وقت سستی اور تھکن کی شکایت کرے یہاں تک کہ وہ خودکشی کے بارے میں سوچنا شروع کر دے۔ ایسے بچے سے بات چیت کریں۔ گفتگو سے اندازہ ہوجائے گاکہ وہ کیسے جذبات و احساسات رکھتا ہے بچہ خاموش رہنا چاہے تو بھی اسے گفتگو پر آمادہ کریں، تاکہ وہ اپنی مشکلات آپ سے بیان کرے۔
ذہنی دباؤ یا ڈپریشن کے شکار بچوں کو اسکول کاؤنسلنگ ضروری ہے۔ ڈپریشن قابل علاج ہے۔ بچے نوجوانوں اور بڑوں کو ڈپریشن سے نکلنے کے لیے مدد فراہم کی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے پہلے تو اپنے خاندانی معالج سے ابتدا کی جانی چاہیے کہ کہیں کوئی جسمانی وجہ تو بچے کو پریشان نہیں کر رہی ہے۔
اس کا موڈ خراب ہے تو کیوں؟ پھر بچے کے اسکول کے بارے میں بات چیت کریں۔ اس کے ٹیچر سے پتا کریں کہ بچے کا رویہ ان اساتذہ اور ساتھی بچوں کے ساتھ کیسا ہے؟ اسکول کونسلر یا خاندانی ڈاکٹر ممکن ہے کہ آپ کے بچے کو کسی نفسیاتی یا ذہنی کلینک جانے کا مشورہ دے اور اگر نزدیک کوئی ایسا کلینک نہ ہو تو ممکن ہے قریب میں کوئی نفسیات دان یا ماہر نفسیات موجود ہو جو بچوں کے لیے خصوصی مہارت رکھتا ہو۔
پہلے مرحلے میں یہ بات بہت اہم ہے کہ آپ اپنے بچے کے ڈپریشن کی شناخت کر سکیں۔ جب تک یہ علم نہ ہو کہ بچہ کیوں ڈپریس ہے آپ خود کو بدحواس نہ کریں، تھراپسٹ سے چند نشستوں میں بچے کی مشاورت ہو جائے، تو یہ بچہ نارمل ہوجائے گا۔
نفسیاتی عوارض بھی جسمانی عارضوں کی طرح ایک حقیقت ہیں، اس کے حوالے سے خود بھی قبولیت پیدا کریں اور لوگوں کو بھی اس سمت قائل کریں کہ جیسے ہم جسمانی صحت کے لیے علاج کراتے ہیں، بالکل ایسے ہی ذہنی صحت کو بھی بعض اوقات علاج کی حاجت ہو سکتی ہے اور اس میں بڑوں کے ساتھ بچے بھی شامل ہوسکتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔