جھیل دودی پت کے کنارے ایک رات

حارث بٹ  اتوار 1 نومبر 2020
خواب سی جھیل اور اس کے راستوں پر پھیلے حُسن کا قصہ۔ فوٹو: فائل

خواب سی جھیل اور اس کے راستوں پر پھیلے حُسن کا قصہ۔ فوٹو: فائل

کل_شب_میں_نے_جھیل_سیف_الملوک_کو_آخری_سانسیں_لیتے_دیکھااُسے کہیں سے بھی سانس نہیں آ رہا تھا۔

کہیں دکانوں، ورکشاپوں، رہائش گاہوں اور بھدی کاروباری عمارتوں کے درمیان اسے کہیں سے بھی سانس نہیں آ رہا تھا۔

بڑھتی ہوئی آبادی نے ایک بھدی دنیا کو جنم دیا تھا۔

ایک نوخیز دوشیزہ کے دامن پر پریاں اتر سکتی تھیں۔ اس پر دیو بھی عاشق ہو سکتے تھے مگر ایک طوائف کی کیا اوقات ہو سکتی تھی؟ طوائف بھی وہ جسے جس جس نے چاہا، جہاں جہاں سے چاہا اور جیسا چاہ لوٹا۔ سب اس حمام میں ننگے تھے۔ کسی نے اس دیوی پر آہنی دیواریں لگا کر اس ہر اپنا حق جما لیا تھا۔ جس نے اُس پاک بدن کو جہاں سے چُھوا، اسے اپنی ملکیت ہی سمجھ لیا اور پھر آہستہ آہستہ اسے نوچتا رہا۔

اسے کہیں سے بھی سانس نہ آ رہا تھا۔

پریاں دور کھڑی بے بسی سے اسے دیکھ رہی تھیں۔ پہلے وہ بے دھڑک اس پر اترتی تھیں۔ اس کی ہم جولی تھیں اور کسی نے بھی آج تک پریوں کو ہاتھ تک نہ لگایا تھا۔ پریاں اس کے گھر کو اپنا مسکن سمجھتی تھیں۔

مگر اب پرستان سے ایک ِحکم نامہ جاری ہوا تھا جس کے مطابق تمام پریوں کو اس طوائف پر اترنے سے روک دیا گیا تھا۔ دیو سخت نگرانی کے لیے تعینات کردیے گئے تھے۔ مگر اچنبھے کی بات یہ تھی کہ مسلسل دیو حضرات کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا۔ کسی پری نے پرستان کا قانون نہ توڑا تھا اور نہ ہی اب کبھی اس پر اترنے کی کوشش کی تھی مگر پھر بھی قانون کی حفاظت کے نام پر دیو بڑھتے ہی جا رہے تھے۔

اسی لیے اسے سانس نہیں آ رہا تھا۔ شاید وہ مر رہی تھی۔ اپنی آخری سانوں پر تھی۔ دیو مسلسل اسے نوچ رہے تھے۔

سب نے ہی اسے اپنی رکھیل بنا رکھا تھا۔ ہر کوئی اس سے کھیل رہا تھا۔ اس کی خوب صورتی کو تباہ کر رہا تھا۔

اسے سانس لینے میں دقت ہو رہی تھی۔ وہ سسک رہی تھی، مر رہی تھی، ختم ہو رہی تھی مگر مسکرانے کی کوشش کر رہی تھی۔

شاید وہ مسکرا رہی تھی۔ وہ قابلِ رحم تھی مگر کسی کو بھی اس پر رحم نہیں آرہا تھا۔

اسے سانس نہیں آ رہا تھا۔

جھیل سیف الملوک کو سانس نہیں آ رہا تھا۔

کل شب میں نے خواب میں جھیل سیف الملوک کو آخری سانسیں لیتے دیکھا.

اسے سانس نہیں آ رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔

پچھلی شب میں نے جھیل سیف الملوک کو خواب میں دیکھا تھا کہ اسے سانس نہیں آ رہا تھا اور اگلی شب میں جھیل سیف الملوک کو دیکھنے چل پڑا تھا۔

وہی سیف الملوک جس کے بارے بچپن سے سنا کرتے تھے کہ وہاں پرستان سے پریاں اترتی ہیں۔ ملکہ پربت جو شاید پریوں کا سرائے بھی تھا کہ جہاں پری اور پری زادوں کے نوبیاہتا جوڑے شاید اپنا ہنی مون گزارنے آتے تھے اور پھر سارا دن جھیل سیف الملوک پر اٹھکیلیاں کرتے رہتے تھے۔ جھیل کے مختلف رنگ انہی پریوں کی وجہ سے تھے۔ سنا کرتے تھے جھیلیں عورتوں کی مانند ہوتی ہیں۔

پل میں تولا، پل میں ماشا۔ آپ ایک جھیل کو دیکھ کر نہیں کہہ سکتے کہ آپ نے اسے دیکھ لیا ہے۔ جھیلیں بدلتی رہتی ہیں۔ جھیل سیف الملوک پر صبح کے وقت صرف کنواری پریوں اور پری زادوں اترنے کی اجازت ہے۔ یہی وجہ ہے جھیل ہمیشہ صبح کے وقت اپنے حسن کے جوبن پر ہوتی ہے، جس جس طرح سورج چڑھتا ہے، جھیل کا حسن ماند پڑنا شروع ہوجاتا ہے۔ شام سے ذرا پہلے کے وقت پریوں کی بڑی بوڑھیاں ہی جھیل پر اترتی ہیں۔ اسی لیے شام کو جھیل کچھ پھیکی پھیکی سی معلوم ہوتی ہے۔ شام کا آنچل پھیلتے ہی جھیل پر صرف دیو اترتے ہیں۔

مگر اب ایک عجیب معاملہ تھا۔ جھیل سیف الملوک پر بہت سارے انسان نما دیو قابض ہوچکے تھے۔ ایسے تو شاید کوئی کسی رکھیل کو بھی نہیں نوچتا جیسے میری عظیم ریاست نے اس پاکیزہ کو نوچا تھا۔ نہ جانے کتنا بڑا زرِمبادلہ دیتے ہیں یہ پکوڑوں والے دیو جو ریاست نے یہ جگہ مستقل ان لوگوں کو دے رکھی ہے۔

آہنی دیواروں سے اس نازک اور معصوم جھیل کو باندھ دیا گیا ہے جیسے وہ شاید بھاگنے کا ارادہ رکھتی ہو۔ میرے پاس اگر ذرا سا بھی اختیار ہوتا تو میں جھیل کے اردگرد کی ساری جگہ خالی کروا دیتا کہ سیاحوں کو ایک مکمل نظارہ دیکھنے کو ملے، مگر میرے ہاتھوں میں سوائے بے کار کی لکیروں کے اور کچھ بھی نہیں۔

دھوپ رفتہ رفتہ سڑک پر پھیل رہی تھی اور ہم بیسل پہنچ چکے تھے۔ بیسل کیا ہے؟؟؟

بیسل نہایت ہی ہری بھری وادی ہے۔ ڈھلوانیں عجیب مگر خوب صورت ہیں اور سب سے اچھی اور منفرد ہے بیسل کی صبح۔ بیسل کی سڑکوں پر پھیلی ہلکی ہلکی دھوپ جولائی کے موسم میں بھی بہت سکون دیتی ہے۔

ہم نے جیپ والے کو گھوڑے کا بندوبست کرنے کے لیے بھیج دیا۔ کچھ دیر بعد وہ واپس آیا تو بولا چلو بھائی سامان اٹھاؤ۔ میں نے قدرے حیرت سے پوچھا کہ جب گھوڑے کا بندوبست ہو گیا ہے تو گھوڑا کدھر ہے؟

صاحب گھوڑا ڈولی پر کیسے پورے آئے گا؟ آپ ہی ڈولی پر بیٹھ کر گھوڑے کے پاس جائیں گے۔

تو گویا ہم نے اب ڈولی چڑھنا تھا اور ہم بڑے مزے سے ڈولی چڑھ گئے۔

مگر یہ ڈولی شیزان کی بوتل کی طرح تھی۔ مزہ آنے ہی لگا تھا کہ ڈولی صاحبہ نے ہمیں ہماری منزل پر لا پھینکا۔ یہ کوئی موٹر والی ڈولی نہ تھی اور نہ ہی اس پر کوئی ٹکٹ تھا۔ ایک خودساختہ سا جھولا تھا جسے مقامی افراد نے اپنی مدد آپ کے تحت بنایا ہوا تھا کہ بیسل کے رہائشیوں اور سڑک کے درمیان دریائے کنہار رکاوٹ تھا لہذا آپ کی مردانگی جائے بھاڑ میں۔ اگر آپ نے دودی پت کے ٹریک پر جانا ہے تو آپ کو ڈولی چڑھنا ہی پڑے گا۔

ہم نے ڈولی سے دریا پار کیا تو آگے ہمارا گھوڑا ہمارا منتظر تھا۔ ظاہر سی بات ہے اس کے ساتھ ایک گھوڑے والا بھی تھا۔ اب ہم دونوں میں سے کوئی گھوڑا ہانکنے سے رہا۔ گھوڑے پر سامان باندھا گیا اور ہمارا دودی پت کی جانب سفر شروع ہو گیا۔ بڑے پتھروں اور چھوٹے چھوٹے سنگ ریزوں پر چلتے چلتے ہم نے بیسل گاؤں کو پیچھے چھوڑ دیا۔

حاجی لوک مکے ول جاندے تے میرا رانجھا میرا مکہ نی میں کملی آں

بلھے شاہ اگر رانجھے کو اپنا مکہ مان بیٹھا تھا تو ہمارے لیے بھی اب جھیل دودی پت ہی سب کچھ تھی اور ہم یہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی کہ جھیل دودی پت کو چھو لینا کوئی آسان کام نہیں، اس کے راستے میں دریا تھے، دو بچہ گلیشئر اور ایک بڑا گلیشئر تھا، موسم کی سختی تھی، بلندی تھی اور سب سے بڑھ کر راستے کی طوالت تھی۔ ان سب کے باوجود بہت سے لوگ دودی پت کی جانب جا رہے تھے۔

جن میں ہم دو، ہمارا گھوڑا اور ہمارا گھوڑے والا یاسر تھا۔ جھیل دور ہونے کے باوجود اس پر بُری نگاہ ڈالنے والے ابھی کچھ کم تھے۔ جھیل سیف الملوک تک چونکہ عام لوگوں کی رسائی زیادہ تھی، اس لیے عوام نے اسے طوائف بنا دیا تھا۔ ہمارے ہاں جھیل کی قسمت میں طوائف بننا ہی لکھا ہے۔ طوائف کی بیٹی ایک طوائف سے زیادہ اور بن بھی کیا سکتی ہے۔ سیف الملوک طوائف بن چکی تھی، دودی پت کے طوائف بننے میں ابھی کچھ دیری تھی اس لئے وہ نخرے دیکھا رہی تھی. دودی پت کا جوبن عروج پر تھا۔

ہم مزے سے چلتے جا رہے تھے کہ پانی نے ہمارا راستہ روک دیا۔ دو بچے فوراً گھوڑے لے کر آ گئے۔

صاحب۔۔۔۔گھوڑا لے گا۔۔۔۔

ہم فوراً گھوڑے پر ہوگئے مگر گھوڑے پر یہ پانی پار کرنا ہمیں دو سو روپے میں پڑا۔ دریا پار کرنے کے بعد اب آہستہ آہستہ بلندی میں اضافہ ہو رہا تھا۔

ہم کبھی بلند ہو رہے تھے اور کبھی کبھی ہلکا پھلکا اتر رہے تھے کہ یک دم سے سیدھا راستہ ختم ہو گیا اور ہمیں پھر سے دریا پار کرنا پڑ گیا۔ اب کی بار دریا کا پاٹ کافی چوڑا اور گہرا تھا۔ گھوڑے والے بچے ہمارے ساتھ ساتھ تھے۔ ہماری جیبوں سے ایک بار پھر دو سو روپے نکلے اور ہم نے سکون سے بنا کپڑے گیلے کیے دریا پار کر لیا۔ ہم کافی آگے آ چکے تھے اس لئے گھوڑے والے اب واپس چلے گئے۔ آگے جو کچھ بھی ہونا تھا، وہ ہمیں خود جھیلنا تھا۔ اب کی بار جب دریا کو پار کیا تو ایک عدد بچہ گلیشئر ہمارے سامنے کھڑا تھا۔

اسی بچہ گلیشئر کے نیچے سے دریا گزر رہا تھا۔ ہم احتیاط سے قدم اٹھا رہے تھے کہ ہماری ہائکنگ اسٹکس مٹی کے لئے تو ٹھیک تھیں مگرگلیشئر کے لیے نہ مناسب تھیں۔ اس لیے احتیاط لازم تھی۔ بچہ گلیشئر کو بچہ بالکل مت لیں۔ گلیشئر بچہ ہو یا بڑا، گلیشئر، گلیشئر ہی ہوتا ہے۔ ذرا سی بے اختیاطی پر آپ سیدھے دریا میں جا کر گرتے ہیں اور دریا آپ کو سیدھا بیسل تک پہنچے گا۔ اگر قسمت اچھی ہوئی تو آپ کی بریکیں بیسل پر لگ جائیں گی ورنہ پھر آپ دریائے سندھ سے ہی برآمد ہوں گے۔ یہاں اب اگر آپ کے گھر والوں کی قسمت اچھی ہوئی تو آپ برآمد ہو جائیں گے ورنہ پھر بحیرۂ عرب کی مچھلیوں کے پیٹ ہی آپ کا مسکن ٹھہرے۔

بچہ گلیشئر کو پار کرنے کے بعد راستہ تھوڑا سا بلند ہوا اور ہمیں ہمارے ٹریک کا پہلا چھوٹا سا چشمہ ملا۔ میرا انرجی لیول ذرا کم ہو رہا تھا لہٰذا میں نے فوراً پانی میں انرئل جائل ملا کر پیا اور ہشاش بشاش ہو کر آگے کو چل پڑا۔ تنگ راستہ ختم ہوا تو ایک اور بچہ گلیشئر سامنے کھڑا تھا جسے اب ہم نے بڑے پیار سے پار کرنا تھا۔ بیسل بہت پیچھے رہ گیا تھا۔

ابھی تک وادی ہم پر مکمل طور پر نہ کھلی تھی۔ کبھی ہم دریا سے زیادہ بلند ہو جاتے تو کبھی بلندی میں ذرا سی کمی آ جاتی کہ اچانک ہم دریا کے بالکل برابر آگئے۔ ہم بائیں جانب چل رہے تھے جب کہ بقیہ ٹریک دائیں جانب تھا۔ جس کا مطلب تھا کہ ہمیں اب دریا پار کرنا تھا۔ یہ دریا پار کرنا بالکل بھی آسان نہ تھا۔ پانی گھٹنوں سے ذرا اوپر اوپر تھا مگر بے حد تیز اور یخ ٹھنڈا اور سب سے زیادہ دریا کے نوکیلے پتھر تنگ کرتے تھے۔ دریا کے تیز بہاؤ میں کھڑا ہونا بہت مشکل تھا۔ دو دو بندے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے دریا پار کر رہے تھے۔

یخ ٹھنڈے پانی کو پار کرنے کا قدرے آسان طریقہ یہی ہے کہ آپ شَڑاپ شَڑاپ کر کے دریا پار کریں یعنی کہ قدم کو مکمل طور پر باہر نکالیں پھر پانی میں رکھیں۔ ایسے ہی دوسرے قدم کو مکمل طور پر پہلے پانی سے باہر نکالیں پھر اسے آگے بڑھا کر پانی دوبارہ ڈالیں۔ مسلسل پانی کے اندر ہی چلنے سے ٹانگیں شدید سُن ہو جاتی ہیں۔ جیسے تیسے کرکے ہم نے دریا پار تو کر لیا مگر آگے ٹریک قدرے چھوٹا، تنگ اور بلند تھا۔

اتنا بلند کہ اسے دیکھنے کے لیے ’’بُوتھا‘‘ اٹھانا پڑتا تھا۔ بس سمجھ لیں کہ یہیں سے اصل ٹریک شروع ہوتا ہے۔ ہم نے اللہ کا نام لیا اور ٹریک پر چلنا شروع کیا۔ بلندی شدید سے شدید ہوتی جا رہی تھی اور میری ہمت جواب دے رہی تھی۔ میں تھوڑے تھوڑے وقفے سے کچھ نہ کچھ میٹھا کھا رہا تھا کہ پہاڑوں پر آپ کا شوگر اور بلڈ پریشر نارمل رہنا بہت ضروری ہے ورنہ آپ کو پونترتے ہوئے دیر نہیں لگتی۔ میٹھے کے لیے سب سے بہتر یہ ہے آپ اپنے ساتھ کچھ کھجوریں اور خشک میوہ جات ضرور رکھیں۔

اگر پانی کی بوتل میں شہد ملا کر گھر سے لائیں ہیں تو اس سے بہتر اور کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ بلندی مسلسل بڑھ رہی تھی اور راستہ صرف اتنا تھا کہ آپ آسانی سے اس پر بس کھڑے ہو سکیں۔ ہم چلتے جا رہے تھے کہ اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی آپشن نہ تھا کہ ہمارے ٹریک کا واحد بڑا گلیشئر ہمارے سامنے آن کھڑا ہوا۔ گلیشئر کی برفوں نے پگڈنڈیوں کو مکمل طور پر ڈھانپ رکھا تھا اس لئے ہمیں مجبوراً گلیشئر پر چلنا پڑ رہا تھا۔ گلیشئر چوںکہ بڑا تھا اور ڈھلوان بھی درمیانی تھی تو اس پر چلنے کا لطف آ رہا تھا۔

تنگ راستوں والی بلندیاں ختم ہوئیں تو آگے کھلے راستوں والی بلندیاں شروع ہوگئیں۔ محض راستہ کھلا ہوا، بلندی میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ دور۔۔۔بہت دور ایک بلندی پر پاکستانی پرچم لہرا رہا تھا۔ حالانکہ وہ قریب تھا مگر میری رفتار کی وجہ سے بہت دور تھا۔ یاسر بتا رہا تھا کہ پرچم والی جگہ کا نام ”گلمہ بستی” ہے۔ وجہِ تسمیہ اسے معلوم نہ تھی اور مجھے پوچھنے میں دل چسپی نہ تھی۔ وہاں پہلے ایک کمرے کا سرائے بنا ہوا تھا جسے بعد میں ڈھا دیا گیا۔ اب وہاں صرف ایک کچن ٹینٹ تھا جس میں چائے بسکٹ کے لوازمات موجود تھے۔

دودی پت ٹریک کی زیادہ بلندیاں گلمہ بستی سے پیچھے ہی ہیں۔ گلمہ بستی کے اطراف اور اس سے آگے بس ریت کے بڑے بڑے ٹیلوں جیسے رستے ہیں۔ گلمہ بستی کے پہلے کی بلندیاں آپ کو اس قدر تھکا دیتی ہیں کہ آگے نظر آنے والے ٹیلے بھی آپ کو پہاڑ لگتے ہیں اور مجھ جیسا کم زور بندہ ان ٹیلوں پر چڑھتا نہیں بلکہ ریگتا ہے۔ گلمہ بستی کے ٹیلوں پر بھی میرا یہی حال تھا۔

میں جوں جوں پرچم کے قریب ہوتا تھا، پرچم مجھ سے دور ہو رہا تھا۔ گرتا پڑتا میں گلمہ بستی کے پرچم کے پاس پہنچ ہی گیا جہاں سے بہت نیچے دریا بہہ رہا تھا کہ وہ صرف نظر آ رہا تھا مگر اس کا شور سنائی نہ دیتا تھا۔

دودی پت کے یہ راستے مجھے ”سنو لیک” کے راستے لگ رہے تھے۔ سنو لیک دیکھی تو نہیں مگر بھلا ہو تارڑ کا جس بے ہمیں گھر بیٹھے ہوئے بھی بہت کچھ دکھا دیا ہے۔ گلمہ بستی سے آگے بہت سے چوپائے گھوم رہے تھے، جن میں جنگلی گائے بھی تھی۔

میں نے جنگلی گائے پہلی مرتبہ دیکھی تھی۔ گردن پر بورے بال، سینگ۔ مجھے پہلے تو یہ یاک لگا مگر یاک یہاں ہو نہیں سکتا تھا۔ جنگلی گائے اپنی شکل سے یاک اور میدانی گائے کی کوئی درمیانی سی حالت معلوم ہوتی ہے۔ سرخ پھولوں کی راستے پر بھرمار ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ نیلے پھول بھی تھے جو پھول نہیں بلکہ زہر تھا۔ مقامی جانور اور لوگ، سب ان نیلی بوٹیوں سے دور رہتے ہیں۔ اس لیے اگر آپ بھی کبھی دودی پت کے راستوں پر چلیں تو ان دل کش نیلی بوٹیوں سے دور رہیں۔

ہم اب جس وادی میں اتر رہے تھے، اس وادی کا شاید کوئی نام ہو مگر بے شمار پھول ہونے پر میں اسے پھولوں والی وادی قرار دیتا ہوں۔ ہر طرف رَت (سرخ) ہی رت تھا۔ ذرا تصور کیجیے کہ وادی کی ڈھلوانیں سبز ہوں اور ان پر لمبے لمبے رتے پھول اور کہیں کہیں نیلی زہریلی ڈنڈیاں۔ آپ ان رنگوں کے درمیان موجود ہوں، نیچے دریا بہہ رہا ہو، ٹھنڈی ہوا چل رہی ہو اور آپ کے سامنے دور سیاہ پہاڑ ہوں جن کو بادلوں نے ڈھانپ رکھا ہو۔۔۔سیاہ پہاڑ۔۔۔انہی سیاہ پہاڑوں کے درمیان کہیں جھیل دودی پت تھی۔ پتا نہیں تھی بھی یا نہیں تھی۔

یہی دیکھنے کے لیے ہم اس قدر خوار ہو رہے تھے اور یقین کر بیٹھے تھے کہ وہاں ایک جھیل ہے مگر پھر بھی کچھ کچھ شک تھا کہ شاید وہ وہاں نہ ہو۔ فی الحال تو ہم پھولوں والی وادی میں تھے۔ ہمارا پورٹر یاسر ہمیں بتا رہا تھا کہ پہلے یہ پھول سرخ نہیں تھے۔ برفوں سے ڈھکی ڈھلوانوں سے جب یہ پھول نکلتے ہیں تو سفید ہوتے ہیں۔ جوں جوں برف پگھلتی ہے تو رتے ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ ان کا رنگ پھر آہستہ آہستہ بدلنا شروع ہو جاتا ہے۔ سرخ رنگ نشانی ہے کہ یہی صحیح موسم ہے دودی پت جانے کا۔ ستمبر میں ہی ان پھولوں کا رنگ بدلنا شروع ہو جاتا ہے جو مقامی افراد کے لیے الارم ہوتا ہے کہ اب سخت سردی آنے کو ہے، کیوںکہ ان پہاڑوں پر اصل میں تین ہی موسم ہوتے ہیں۔ کچھ دن بہار کے، سردی اور سخت سردی۔

میں مکمل طور پر ان پھولوں میں کھویا ہوا تھا۔ دودی پت کے راستے بالکل سیدھے ہیں، جلیبی کی طرح بل نہیں کھاتے۔ اس لیے آپ اس فکر سے آزاد ہو جائیں کہ آپ گم ہو سکتے ہیں۔ میں آنکھیں بند کیے ان پھولوں کے درمیان بیٹھا ہوا تھا۔ ٹھنڈی ہوائیں اپنی زبان میں کچھ گا رہی تھیں۔ میں جو اس راستے کی طوالت کی وجہ سے جھیل کو دیکھنے کی دلچسپی کھو بیٹھا تھا، ایک دم سے تازہ دم ہو گیا تھا کہ وہ ٹھنڈی ہوائیں میرے جسم کو سکون دے رہی تھیں، کانوں میں رس گھول رہی تھیں۔ کہ خذیفہ نے مجھے آ لیا۔

کتنی پیاری جگہ ہے نا۔

بہت زیادہ۔

یہ پھولوں والی وادی مزید پیاری لگنے لگتی تھی جب سورج کے سامنے ایک آدھا بادل آ جاتا تھا۔

کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم یہی رہ جائیں۔

نہیں یہ نا ممکنات میں سے ہے۔

منزل ہم نے ابھی دیکھی نہ تھی اور جو دیکھ رہے تھے وہاں سے نظر ہٹانے کو دل نہ چاہ رہا تھا کہ ہم جانتے تھے کہ یہ رنگیناں صرف سفر کی ہیں۔ منزل آنے کا مطلب سفر ختم ہونے کا ہے. سفر ختم تو سمجھو سب کچھ ختم۔

نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں اٹھنا پڑا کہ ہماری منزل ابھی دور تھی۔ شاید بہت دور۔ ہمیں کالے پہاڑ نظر آرہے تھے جن کے دامن میں جھیل دودی پت تھی۔ یہ پہاڑ اصل میں کالے نہ تھے، سبز تھے، طوالت اور گہرے بادلوں کے سائے کی وجہ سے یہ پہاڑ کالے نظر آ رہے تھے۔ ہمیں جوں جوں ان پہاڑوں کے قریب ہونا تھا، ان کالے رنگوں نے رفتہ رفتہ سبز ہو جانا تھا۔

جوں جوں ہم چل رہے تھے، خنکی میں اضافہ ہو رہا تھا، کالے پہاڑ بڑے اور نزدیک تو ہو رہے تھے مگر کم بخت سبز نہیں ہو رہے تھے۔ بقول ہمارے پورٹر یاسر کے ابھی ہم دریا کو پل سے پار کریں اور وہ گھوڑے کو لے کر دریا کے اندر سے گزرے گا۔ میں نے یاسر کو عقل مندانہ آفر کی کہ وہ بھی گھوڑے کے ساتھ پُل پر سے گزرے۔ تب معلوم ہوا کہ پل سے مراد ایک عدد لکڑی کا پھٹا ہے جسے ہم بمشکل پار کریں گے۔ میری سِٹّی گم ہو چکی تھی اور میں نے پل پار کرنے سے بغاوت کر دی۔ مرتا کیا نہ کرتا، پل پار کرنا ہی تھا۔ اللہ بھلا کرے یاسر کا، جس نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے پل پار کروایا۔ اس طرح تو شاید کوہ نورد بیافو گلیشئر کے نالے بھی پار نہ کرتے ہوں گے جس نے میں نے اس پھٹے نما پل کو پار کیا۔

ہماری کیمپ سائیٹ کتنا دور تھی، اب مجھے یہ جاننے میں ذرا بھی دل چسپی نہ تھی کیوںکہ مجھے اچھی طرح سمجھ آ چکا تھا کہ مجھے بس چلتے جانا ہے۔ راستہ ایک نیم پہاڑ لے ساتھ مڑ رہا تھا اور مڑ کر نہ جانے کہاں گم ہو رہا تھا۔ میرے کانوں میں یاسر کی آواز پڑی کہ جونہی ہم اس راستے پر مڑیں گے تو سامنے کیمپ سائیٹ ”ملاں کی بستی” نظر آ جائے گی۔

میں خوشی خوشی موڑ مڑ گیا کہ کیمپ سائیٹ ساتھ ہی ہو گی مگر مڑتے ہی میرا لٹکا ہوا منہ مزید لٹک گیا اور میرے دو کمینے ہم سفر زور دار قہقہے لگا دیے۔ کیمپ سائٹ نظر تو آ رہی تھی مگر بہت دور تھی۔ میں نے یاسر اور اپنے دوست خذیفہ کو آگے روانہ کیا کہ وہ جا کر کیمپ لگائیں اور میرے لیے بستر اور نوڈلز تیار کریں۔ میری مرتی ہوئی شکل دیکھ کر شاید دونوں کو ترس آ گیا تھا اور دونوں چپ چاپ آگے کو چل دیے اور میں نے رینگنا شروع کر دیا کہ مجھے میں فقط رینگنے کی ہی طاقت تھی۔

کوئی چڑھائی نہ تھی، کوئی ٹیلا نہ تھا۔ میں تقریباً ساڑھے چھ یا پونے سات گھنٹوں سے چل رہا تھا اور میرا برا حال ہو چکا تھا۔ میں رینگتا رینگتا کیمپ سائٹ پر پہنچ ہی گیا۔ میرا کیمپ لگا ہوا تھا۔ میں نے جوتے اتارے، سلیپنگ بیگ کھولا اور لم لیٹ ہو گیا۔

یار اس مریض کو نوڈلز یہی دے دو اور پھر مریض کو نوڈلز اسی کیمپ اسپتال میں دے دیے گئے۔ نوڈلز کھانے کے بعد میں ایسا سویا کہ دنیا جہاں کا ہوش نہ تھا۔ سورج غروب ہونے پر شفق کی سرخی ہر سو پھیلی تو ہر طرف پھیلا سبزا رَت میں تبدیل ہو گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں چاند نکل آیا اور پوری وادی اور اس کے پانی چاندی میں نہا گئے۔ میرے نم آلود جسم پر چاند کی ٹھنڈی لُو نے مجھے خوش قسمتی اور اور آزادی کے ایک ان جانے احساس سے روشناس کیا۔ ہر طرف سحرانگیز سکون تھا۔ میں خیمے کے اندر جا کر لیٹ گیا۔

چمکتا ہوا پانی یہاں سے دکھائی دے رہا تھا۔ چاند کی کرنوں کی وجہ سے خیمے کے اندر بھی ہلکی ہلکی روشنی تھی۔ مجھ پر غنودگی طاری ہوگئی اور میں جلد ہی سو گیا۔ تقریباً رات کے نو بجے حذیفہ نے مجھے زبردستی جگا دیا کہ میں کیمپ سے باہر نکلو اور آسمان دیکھو۔ مجھے شدید ترین غصہ آ رہا تھا مگر خذیفہ کے بے حد اصرار پر میں نے ہلکی سی اپنی ٹنڈ کیمپ سے باہر نکال ہی لی۔ باہر چاندنی میں نہایا ہوا چمکتا دمکتا شفاف پانی تھا۔ آسمان دیکھ کر میں ششدر رہ گیا۔ ایسا آسمان پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔

میں کہکشاں کے اصل تصور سے ناواقف تھا اور اکثر سوچتا تھا کہ کہکشاں کیسی ہوتی ہوگی؟ اس رات پتا چل رہا تھا کہ کہکشاں کیسی ہوتی ہے۔ یہاں ہم شہروں میں صرف سیاہ آسمان دیکھتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ چند گنتی کے ستارے مگر وہاں کے آسمان کی بات ہی کچھ الگ تھی۔ سارا آسمان ستاروں سے بھرا پڑا تھا اور درمیان سے دودھیا کہکشاں۔ آسمان سے نظریں ہٹانے کو جی نہ چاہتا تھا مگر ٹھنڈ اس قدر زیادہ تھی کہ ہمیں واپس کیمپ میں آنا پڑا۔ سردی اس قدر زیادہ تھی کہ دو جرابیں، گرم ٹوپی اور دستانے پہننے کے باوجود میں کانپ رہا تھا۔ رات جیسے تیسے کر کے ٹھٹھرتے مرتے گزر ہی گئی۔ گیلی زمین کے لمس میں کتنی آسودگی تھی۔

اگلی صبح جب آنکھ کھلی تو گھاس پر اوس جمی ہوئی تھی۔ پہاڑوں پر شام جتنی جلدی اترتی ہے، اتنی ہی دیر سے سویر ہوتی ہے۔ سورج کی روشنی ابھی پہاڑوں کی صرف چوٹیوں پر تھی۔ ہم میں سے کوئی بھی باہر نہیں نکلنا چاہتا تھا مگر کچھ جسمانی ضروریات کے لیے ہمیں نکلنا ہی پڑا۔ ہمارے سامنے جھیل سے آنے والا یخ ٹھنڈا پانی انتہائی خاموشی سے بہہ رہا تھا۔ پانی اس قدر یخ تھا کہ ہاتھ بھی نہ لگتا تھا۔ ہم نے منہ دھونے کے نام پر آنکھوں کو فقط گیلے ٹشوز سے صاف کیا۔ اس سے کچھ زیادہ کرنے کی ہم ہمت بھی نہ رکھتے تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں سویر کی دھندلی سفیدی کی گھلاوٹ میں سورج کی ٹھٹھرتی ہوئی کرنیں ہم تک پہنچنا شروع ہو گئیں۔ سورج میں ذرا بھی گرمی نہ تھی۔ جھیل کا پانی اب ذرا شور کرنے لگا تھا۔

دھوپ نیچے تک اتر آئی تھی مگر وہ، وہ دھوپ نہ تھی جس کی ہمیں اس وقت ضرورت تھی۔ دھوپ نے بھی ہم سے دغا کردی تھی۔ یہ وہ دھوپ نہ تھی جس سے ہم واقف تھے۔ یہ دو نمبر دھوپ تھی جس نے ہمیں شدید مایوس کیا تھا۔ سویرا اب مکمل صبح میں بدل چکا تھا۔ ایک بڑا مگ کافی اور کچھ بسکٹ اپنے پاپی پیٹ میں ڈالنے کے بعد ہم جھیل دودی پت جانے کو تیار تھے۔ لوگ ٹریک کے دوسرے دن گھوڑا ہو جاتے ہیں۔

پہلے دن کی نسبت زیادہ تیزی سے چلتے ہیں مگر میں گھوڑا ہونے کی بجائے گھر پر ہو گیا تھا۔ ہمارا سارا سامان چونکہ کیمپ سائیٹ پر ہی تھا اس لیے گھوڑا فارغ تھا۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور گھوڑے پر سوار ہوگیا۔ اب کالے نظر آنے والے پہاڑ رفتہ رفتہ سبز ہو رہے تھے۔

موسم صاف اور ابر آلود نہ تھا۔ سارے مناظر ہم پر کھلے ہوئے تھے۔ چراگاہیں بلا کی خوب صورت تھیں۔ دودی پت۔ جہاں دودھ بہت ہوتا تھا کہ وہاں جانور بہت تھے مگر اب ان میں کافی حد تک کمی آچکی تھی۔ انسانوں کی طرح جانوروں کو بھی اب جھیل سے بہت پیچھے روک لیا جاتا تھا مگر دودی پت اب بھی دودی پت ہی تھی۔ سو ہم دودی پت جا رہے تھے جو ہمیں گذشتہ دن سے خوار کروا رہی تھی۔ ظالم نظر ہی نہیں آ رہی تھی۔ ہمیں ترسا ترسا کر مار رہی تھی۔ پہاڑ اب مکمل طور پر سبز ہو چکے تھے، مطلب ہم جھیل کے قریب تھے۔

”اس ٹیلے کو پار کرنے کے بعد آپ کو جھیل نظر آجائے گی۔” ہمارے گائیڈ نے ہمیں خوش خبری سنا دی۔ میرا اس پر یقین کرنے کو جی تو نہ چاہتا تھا مگر اس بار وہ سچا تھا۔ ٹیلے کے پار جھیل تھی۔ سبز پہاڑ جن پر کہیں کہیں برف تھی، انہی کے دامن میں جھیل دودی پت تھی اور ہماری نظروں کے سامنے تھی۔ ہم سب مسکرا دیے۔ پانیوں کی قربت میں، تیرہ ہزار فٹ کی بلندی پر کھڑے ہم مسکرا رہے تھے۔ نہ تو ہم پر بلندی کا اثر ہوا تھا اور نہ ہم پاگل ہوئے تھے مگر پھر بھی ہم مسکرا رہے تھے۔ جھیل سیف الملوک کی چھوٹی بہن ہماری قربت میں تھی، ہمارے سامنے تھی۔ ہم نے اسے پا لیا تھا۔

ہم اسے چھو سکتے تھے، اس کے پانیوں میں اتر سکتے تھے اور ہم نے اسے چھوا بھی اور چھوٹی بہن کے پانیوں میں اتر بھی گے۔ اتنی مشقت کے بعد اتنا حق تو ہمارا بنتا تھا۔ جھیل سیف الملوک سے مشابہت رکھنے والی جھیل کی خاص بات یہ تھی کہ وہ ہر کسی کے نصیب میں نہ رکھی گئی تھی۔ چند آنکھیں ہی اسے دیکھ سکتی تھی، چند ہاتھ ہی اسے چھو سکتے تھے۔

ہم اسے دیکھ بھی رہے تھے، چھو بھی رہے تھے، اس لیے ہمیں خود پر فخر ہونے لگا۔ ہم جھیل کے رو بہ رو تھے۔ میرے لیے جھیل کی پہلی جھلک جوانی کے فریبوں اور پہلی محبت کے احساسات سے زیادہ حسین اور ہیجان خیز ثابت ہو رہی تھی۔ جھیل دودی پت کو دیکھتے ہی میرے ذہن میں جھیل سیف الملوک کی پہلی جھلک کے تاثرات ابھرے جو جوانی کے فریبوں اور پہلی محبت کی کسک سے زیادہ حسین اور ہیجان خیز تھے لیکن اب میں چاہے کتنی بار ہی اس جھیل پر کیوں نہ آؤں، میرے احساسات میں وہ گرمی اور وارفتگی نہ ہو گی۔ جھیل دودی پت کے حسن میں نفاست کے ساتھ ساتھ معصومیت اور لڑکپن بھی ہے۔ ایسی نفاست جسے قدرت نے خاص لوگوں کی تفریح طبع کے لیے ایک خاص منصوبے کے تحت ترتیب دیا ہو۔

جھیل کا پانی ریشم کی طرح ملائم اور کھنکتے شیشوں کی مانند شفاف تھا۔ ہمارا ساقی ہماری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہمیں پلا رہا تھا اور ہم پی رہے تھے۔ جوں جوں سورج چڑھ رہا تھا، جھیل کے رنگ بدل رہے تھے۔ لوگوں کی آمد میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ ہر کوئی اپنے اپنے فریم میں رہتے ہوئے جھیل کے پانیوں سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔

ہمیں چوںکہ اسی دن واپس مانسہرہ بھی پہنچنا تھا لہٰذا واپسی کا نقارہ بجا دیا گیا۔ دل تو نہیں تھا مگر بوجھل دل کے ساتھ جھیل کو الوداع کہنا ہی پڑا کہ ہم ہمیشہ کے لیے یہاں نہیں آئے تھے۔ وقت پر واپسی کا سفر شروع کرنے میں ہی عقل مندی تھی۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کے مختصر سفر کے بعد ہم اپنی کیمپ سائیٹ پر واپس پہنچ چکے تھے جہاں ہم نے اپنی اب تک کی زندگی کی بہترین سبزی کھائی۔

ہاں تیل ذرا زیادہ تھا مگر وہ مقامی سبزی اپنے اندر بہترین ذائقہ لیے ہوئے تھی. ناشتے کے بعد سارا سامان باندھ کر گھوڑے پر رکھ دیا گیا۔ واپسی کے مناظر بالکل ہی مختلف تھے، جس طرف پہلے ہماری پشت تھی، اب اس وقت رخ تھا۔ ایسے معلوم ہو رہا تھا کہ جیسے ہم پہلے ان راستوں پر آئے ہی نہیں۔ یہ راہیں وہی تھیں مگر سمت کا فرق تھا۔ راستے میں بہت سے لوگ مل رہے تھے جو دودی پت کو جاتے تھے۔ اکثریت بالکل میری طرح معصوم منہ بنائے اب مجھ سے ہی پوچھ رہی تھی کہ کیمپ سائیٹ کتنی دور ہے اور میں ہنس کر کہہ دیتا تھا کہ بس چپ کر کے چلتے جاؤ۔ چڑھائی کی اپنی تھکن ہوتی ہے اور اترائی کی اپنی۔ کوئی بھی آسان نہیں۔ دونوں صورتوں میں تھکتے ہیں۔ ہم میدانی لوگ تو کچھ زیادہ ہی تھکتے ہیں۔ اترائی بے شک آسان ہوتی ہے مگر اپنا آپ وہ بھی دکھاتی ہے۔

چڑھائیاں اب اترائیاں بن رہی تھیں اور اترائیاں چڑھائی میں بدل رہی تھیں۔ وہی گلیشئر، دریا، میدان پھر سے آ رہے تھے تو ایک خوش گوار سا احساس ہو رہا تھا، ایک جیت کا احساس تھا کہ ہم نے ایک مشکل کام کر دکھایا ہے۔

اپنے آپ پر ایک فخر سا محسوس ہو رہا تھا۔ وہی ڈولی اب پھر سامنے آ چکی تھی جس پر بیٹھ کر ہم نے دودی پت کو جاتے راستوں پر قدم رکھا تھا اور اب اسی ڈولی پر بیٹھ کر ہمیں ان راہوں کو چھوڑ دینا تھا اور ہم نے چھوڑ بھی دیا۔ جھیل دودی پت سے آتے ہوئے پانیوں کو دیکھ کر عجیب سا احساس ہو رہا تھا۔ یہ پانی جھیل کے دامن سے پھوٹ رہے تھے اور ہم بھی جھیل کے پانیوں کو چھو کر آئے تھے۔ نہ ان پانیوں کو اب واپس جھیل دودی پت نہیں جانا تھا اور نہ ہمیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔