ذہین نوجوانوں کی سول سروس سے بے رغبتی

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  بدھ 25 دسمبر 2013
advo786@yahoo.com

[email protected]

نو آبادیاتی دور سے ہی سول سروس کا حصول نوجوانوں کا سہانہ خواب رہا ہے، اعلیٰ صلاحیتوں اور تعلیمی معیار کے نوجوانوں کی بڑی تعداد تندہی اور تیاری کے ساتھ اس کے لیے قسمت آزمائی کرتی تھی۔ لیکن حیرت انگیز طور پر اس میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کی تعداد ہر سال کم ہوتی جا رہی ہے۔ فیڈرل سروس کمیشن کی سالانہ رپورٹ کے مطابق مقابلے کے تحریری امتحان میں امیدواروں کی کامیابی کا تناسب جو 2002 میں 30 فیصد تھا 2013 میں ناقابل یقین حد تک گر کر 3 فیصد سے بھی کم رہ گیا ہے۔ پارلیمنٹ میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق حکومت کو 285 عہدوں پر بھرتی کے لیے امیدوار درکار تھے مگر اسے صرف 240 میسر آسکے، باقی عہدوں کے لیے اہل امیدوار ہی دستیاب نہیں تھے۔ اس سال 15998 امیدواروں نے درخواستیں دیں 11406 امتحانات میں بیٹھے جن میں سے صرف 238 ہی پاس ہوسکے۔ اس سلسلے میں اہم مسئلہ یہ ہے کہ امیدواروں میں تجزیاتی صلاحیت اور تحریری مہارت کا فقدان ہے۔

برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کے بعد انڈین سول سروس کا نام تبدیل کرکے سول سروس آف پاکستان رکھ دیا گیا تھا۔ اس سروس کے لیے اعلیٰ تعلیمی و تخلیقی اہلیت کے حامل امیدوار منتخب کی جاتے تھے۔ تقسیم کے وقت 1100 افراد انڈین سول سروس کے ملازمین تھے جس میں مسلمانوں کا تناسب 10 فیصد کے قریب تھا۔ ان میں سے 83 ملازمین نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا اور یہاں کی سیاسی، سماجی اور معاشی سرگرمیوں کی بہترین رہنمائی کی۔ سول سروس کا تنظیمی ڈھانچہ اور پالیسیاں 1958 تک مثالی اور فعال رہیں۔ ایوب خان نے ذاتی سوچ ، ترجیحات اور اپنے فہم و تدبر سے سول سروس کی بنیاد ، ڈھانچے اور ترکیبی عمل کو ناقابل تلافی نقصانات پہنچائے۔ سب سے پہلے بدانتظامی اور بدعنوانی کے الزام میں 313 افسران برطرف کیے جس نے سول سروس کا محکمہ متزلزل کرکے رکھ دیا۔ اس سے قبل جو نوجوان سرکاری ملازمت کو فوقیت دیا کرتے تھے ان ذہین اور اہل نوجوانوں نے دوسرے پیشوں اور محکموں کا رخ کرنا شروع کر دیا۔

اس کے بعد بھٹو دور میں تعلیمی سطح، تجربات اور مہارتوں کے اعلیٰ معیار سے قطع نظر پسندیدہ افراد کا انتخاب سول سروس میں کیا گیا تو محکمے کی بنیاد اہلیت و معیار نہیں رہی۔ یہ اقدامات پاکستان سول سروس کے لیے شدید طور پر ضرر رساں ثابت ہوئے۔ پھر ضیا دور میں مقامی حکومتوں کا نظام ان کی ذاتی نگرانی کے سبب بہتر رہا لیکن مشرف دور کے نچلی سطح پر انتقال اقتدار کے منصوبے نے ایک مرتبہ پھر سول سروس کی بنیادیں کھوکھلی کرکے رکھ دیں۔ سابق چیف سیکریٹری اور ڈی ایم جی آفیسر سلیم عباس جیلانی نے مشرف کے انتقال اختیارات کو اس نظام کی تباہی کے مترادف قرار دیا تھا جو بعد میں سچ ثابت ہوا۔ سول سروس جو ملک کی سماجی، سیاسی اور معاشی نظام کی بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے اسے مقامی حکومتوں کے منتخب نمایندوں، ناظمین جو سول ملازمین کے مقابلے میں اہلیت، صلاحیت اور تربیت میں کم تر ہوتے ہیں، کے سامنے ملکی معاملات میں جوابدہ ہونا پڑا۔ کمشنری نظام بطور خودمختار نظام آزمودہ، قابل عمل اور کارآمد تھا اس میں بغیر کسی رکاوٹ کے لوگوں کی خدمت کی صلاحیت موجود تھی، مقابلے کے امتحان کے ذریعے بھرتیاں ہوتی تھیں امیدواروں کا انتخاب میرٹ پر ہوا کرتا تھا جو اعلیٰ تعلیم، تحقیق و انتظامی صلاحیتوں کے مالک ہوتے تھے جنھیں تربیت دی جاتی تھی کہ وہ اپنا کام آزادانہ و منصفانہ طور پر کریں عوام کی فلاح و بہبود ان کی پالیسی کا اہم حصہ تصور کی جاتی تھی، جو نظر بھی آتی تھی یہاں تک کہ کہیں سیکریٹری اور وزیر کے نقطہ نظر میں اختلاف پیدا ہوجائے تو وزیر سیکریٹری کی رائے کو رد نہیں کرسکتا تھا۔ یہ مسئلہ وزیراعظم کے سامنے رکھ دیا جاتا تھا لیکن موجودہ سیاسی کلچر میں وزیراعظم کی جو بھی منشا، مرضی و خواہش و ترجیح ہو اولیت اسے ہی دی جاتی ہے، چاہے اس کے کتنے ہی منفی اثرات مرتب ہوں۔

ایک مرتبہ راقم اپنی ایک شکایت کی پیروی کے سلسلے میں ایک ڈپٹی سیکریٹری کے پاس پہنچا تو اس نے درخواست پر اگلے ہی روز مطلقہ آفیسر کو جواب کے ساتھ طلب کرنے کے احکامات تحریر کرکے اپنے سیکریٹری کے سپرد کردیا، بات چیت کے دوران کسی حوالے سے ان سے تعلق نکل آیا تو بے تکلفی اور اخلاص کے ساتھ بولے کہ ’’عدنان صاحب! آپ نے متعلقہ افسر سے اختلاف کرتے ہوئے اسے تحریری شکایت دی پھر کل میرے پاس شکایت جمع کرائی، میں کراچی میں موجود نہیں تھا آج پھر آئے ہیں، کل میں نے متعلقہ افسر کو جواب کے ساتھ طلب کیا ہے آپ پھر آئیں گے، اس طرح آپ کے چار چکر لگ جائیں گے وقت ضایع ہوگا آپ بھی ایگزاسٹ ہوں گے۔ بہتر یہ ہے کہ معاملات کو پہلی ہی سطح پر کچھ لو اور کچھ دو کے اصول کے تحت طے کرکے وقت، پیسہ اور مشقت سے خود کو بچا لیا جائے۔‘‘ انھوں نے مزید انکشاف کیا کہ ’’میری یہ 21 ویں تعیناتی ہے میں جہاں گیا ایک سسٹم بنانے کی کوشش کی مگر میرے ماتحت اور بالا (Superior & Sub Ordinat) ہی مجھ سے ناراض رہے، اتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کہ اب تو میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہم اسی ’اسٹیٹس کو‘ کا حصہ رہیں اور کوششیں کریں کہ یہ مزید خراب نہ ہونے پائے‘‘۔

مذکورہ سیکریٹری کے ان جذبات، احساسات اور مشاہدات کو اس کی ذاتی رائے قرار نہیں دیا جاسکتا۔ گزشتہ ایک عشرے سے تو بیوروکریسی کی اکھاڑ پچھاڑ نوازشات، خوش آمد، حق تلفیاں، سیاسی مداخلت، اقربا پروری اور ان اقدامات پر عدالتوں میں مقدمات اور عدالتی احکامات کی نافرمانی اور تمسخر کا مظاہرہ تو پورے ملک کے عوام اور دنیا دیکھ رہی ہے۔ شاید سول بیورو کریسی کا ایک بڑا طبقہ اس قسم کے تحفظات اور احساسات کا شکار ہے جنھوں نے اس گمبھیر صورت حال کو دیکھتے ہوئے ایک سال قبل اخلاقی اقدار اور پیشہ واریت کی بحالی کے لیے Moral Revival یعنی اخلاقی بحالی کے نام سے ایک تنظیم بنائی تھی، جس میں مڈ کیریئر بیورو کریسی کے 17 تا 19 گریڈ کے افسران شامل تھے۔ جن کا کہنا تھا کہ سرکاری ملازمین سیاسی آقاؤں کے ذاتی نوکر کے طور پر کام کرنا چھوڑ دیں۔ اخلاقی بحالی کا بنیادی مقصد سرکاری ملازمین کی حوصلہ افزائی کرنا ہے تاکہ وہ اصولوں پر ڈٹے رہیں۔ یکے بعد دیگرے آنے والے حکمرانوں کے ذاتی ملازم کی طرح اصولوں کو فراموش کرنے کے بجائے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں خالصتاً، اخلاقی اقدار اور پیشہ ورانہ استقامت و استعداد (Professionalism) کا مظاہرہ کریں۔ تنظیم کے بانی ارکان کا کہنا ہے کہ Moral Revival جس کا بنیادی مقصد سول سروس آف پاکستان کی ساکھ اور وقار کو بحال کرنا ہے یہ تنظیم آئین کے آرٹیکل 17(1) کے تحت قائم کی گئی ہے۔

بیورو کریسی کو تکنیکی بنیادوں پر دیگر ریاستی اداروں پر فوقیت اور بالادستی حاصل ہوتی ہے۔ کیونکہ اس کا براہ راست تعلق نظام مملکت کے لیے وضع کردہ امور، اصول و ضوابط، طریقہ کار اور پروٹوکول سے ہوتا ہے۔ اس کی خوبی یہ ہے کہ یہ ریاست کے نظام اور اداروں کے درمیان نظم و ضبط، ترتیب اور کمانڈ اینڈ کنٹرول فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ جہاں ہمارے سامنے کرپٹ بیورو کریٹس اور ان کے سرپرست فوجی آمروں اور سیاستدانوں کے کردار سامنے آتے ہیں وہیں سہیل احمد اور ظفر قریشی جیسے بہت سے کردار بھی سامنے آتے ہیں جو حکومتی بدسلوکی اور انتقامی اقدامات کے باوجود اپنے مستقبل اور جان و مال کو داؤ پر لگا کر پیشے کی حرمت کو قائم رکھنے کی جدوجہد میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ مڈکیئر پر بیوروکریسی کی اخلاقی بحالی کی تحریک بھی ان کوششوں کا احیا ہے کہ پیشہ واریت کے خلاف دباؤ کا مقابلہ کرکے گڈ گورننس کی بحالی کا راستہ ہموار کیا جائے، صرف اس صورت میں سول بیوروکریسی کا اعتماد بحال ہوگا اور ذہین اور باصلاحیت نوجوانوں کا رخ ایک مرتبہ پھر سول سروس کی جانب ہوگا اور حکومت کو وافر مقدار میں اہل امیدوار دستیاب ہوں گے، ورنہ آج کی دنیا میں ذہین نوجوانوں کے لیے خطیر مشاہیرات و مراعات کے دیگر بہت سے مواقعے موجود ہیں پھر ایماندار اور اہل امیدوار سول سروس کا انتخاب کیوں کریں گے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔