پی ڈی ایم کا لاہور جلسہ حکومت کی پریشانی میں اضافہ کر سکتا ہے!

رضوان آصف  بدھ 2 دسمبر 2020
ملتان کاجلسہ اس لحاظ سے تاریخی ہے کہ اس میں آصفہ بھٹو کی صورت میں جیالوں اورعوام نے ’’بے نظیرثانی‘‘ کی آمد دیکھی ہے۔ فوٹو: فائل

ملتان کاجلسہ اس لحاظ سے تاریخی ہے کہ اس میں آصفہ بھٹو کی صورت میں جیالوں اورعوام نے ’’بے نظیرثانی‘‘ کی آمد دیکھی ہے۔ فوٹو: فائل

 لاہور:  ملتان میں ’’پی ڈی ایم‘‘ کے جلسے کی کامیابی کا سہرا وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلی سردار عثمان بزدار کے ان مشیروں کے سر پر سج گیا ہے جنہوں نے اپوزیشن کے ایک معمول کے جلسہ کو کئی روز تک میڈیا میں بڑا سیاسی ایونٹ بنائے رکھا۔

گرفتاریاں، نظر بندیاں، لاٹھی چارج، سڑکیں میدان سیل کر کے صوفیائے کرام کے شہر کو ’’وار زون‘‘ میں بدلنے کے باوجود اپوزیشن کی پیش قدمی نہیں روکی جا سکی تو پھر آخری لمحات میں اپنی سبکی کو سیاسی فراخ دلی میں پوشیدہ کرنے کیلئے یہ کریڈٹ لینے کی کوشش کی گئی کہ حکومت نے جلسہ کی اجازت دے دی ہے۔

تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی اور فواد چوہدری سمیت کئی اہم رہنما پنجاب حکومت کی جلسہ بارے حکمت عملی سے سخت خفا ہیں اور اس کا اعلانیہ اظہار کر رہے ہیں۔

سیاسی تجزیہ نگار بھی حیران ہیں کہ اگر جلسہ ہونے دینا تھا تو پھر کئی روز تک دھینگا مشتی کیوں کی گئی، اپوزیشن کو ’’فاتح‘‘ کیوں بنایا گیا۔ ملتان کے جلسہ کی کامیابی نے اپوزیشن کو ’’توانا‘‘ کردیا ہے جبکہ حکومت ’’کمزور‘‘ ہوئی ہے۔

یہ جلسہ روک ٹوک کے بغیر ہونے دیا جاتا تو باقی کے جلسوں کی مانند ایک معمول کا جلسہ ہوتا اور شاید عددی اعتبار سے کم بھی ہوتا لیکن حکومتی حکمت عملی نے جلسہ کے شرکاء کی تعداد کا سوال ہی مٹا دیا ہے اور اب اسے اپوزیشن کی جیت سمجھا جانا حق بجانب ہے۔

13 دسمبر کو مینار پاکستان میں ہونے والا جلسہ حکومت اور اپوزیشن بالخصوص مسلم لیگ(ن) کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے ۔ تین دہائیوں سے زائد عرصہ سے لاہور، مسلم لیگ(ن) کا سب سے مضبوط مرکز تسلیم کیا جاتا ہے، ڈھائی سالہ دور حکومت کے باوجود تحریک انصاف اسے ن لیگ سے چھین نہیں سکی ہے۔

توقع کی جا رہی ہے کہ ن لیگ اپنا پورا زور لگا کر اس جلسہ کو ’’تاریخ ساز‘‘ سیاسی ایونٹ بنانے کی کوشش کرے گی اور یہی وجہ ہے کہ نہ صرف لاہور بلکہ جی ٹی روڑ پر واقع شہروں میں ن لیگی رہنما بہت جوش وجذبہ کے ساتھ جلسہ کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔

مینار پاکستان کے میدان میں ایک بڑے سیاسی اجتماع کا قوی امکان ہے اور اگر یہ جلسہ کچھ غیر معمولی طاقت اختیار کر گیا تو حکومت کیلئے کئی سنگین چیلنج پیدا ہو سکتے ہیں۔

اس جلسہ کی کامیابی آنے والے دنوں میں ’’پی ڈی ایم‘‘ کے اسلام آباد کی جانب ممکنہ لانگ مارچ کو طاقت فراہم کرے گی۔ حکومت کیلئے مسئلہ یہ ہے کہ وہ ملتان میں تشدد اور طاقت کے ذریعے جلسہ روکنے کا ناکام تجربہ کرنے کے بعد لاہور میں اگر اسے دہراتی ہے تو ردعمل ملتان سے کہیں زیادہ شدید اور سخت ہوگا کیونکہ ن لیگ لاہور میں نہایت مضبوط سیاسی جماعت ہے اور ویسے بھی لاہوریوں کا اپنا ایک منفرد مزاج ہے۔

رہنماوں کی گرفتاری یا نظر بندی کا آپشن استعمال کرنا بھی آسان نہیں ہے تاہم کسی عدالتی فیصلے کی آڑ میں حکومت ایسا کرنے کا رسک لے سکتی ہے۔گزشتہ دو یا تین ماہ کی سیاست کا جائزہ لیں تو حکومت مشکلات کے نرغے میں دکھائی دیتی ہے جبکہ اپوزیشن کیلئے حالات سازگار ہوتے نظر آتے ہیں تاہم یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ اپوزیشن کی مضبوطی ’’عارضی‘‘ ہے یا اسے مقتدر حلقوں کی جانب سے حمایت حاصل ہے۔

دسمبر اور جنوری میں ملکی سیاست میں بہت سے اتار چڑھاو آنے والے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کیلئے اب DO OR DIE والا معاملہ بن چکا ہے اور اس تمام صورتحال میں سب سے زیادہ دباو اسٹیبلشمنٹ پر ہے جس کے بارے میں عمومی تاثر ہے کہ وہ حکومت کو غیر معمولی اور بلا جواز حمایت فراہم کر رہی ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کسی بھی صورت ملک میں انارکی، پر تشدد سیاست کا ماحول پیدا ہونے نہیں دے گی اور اگر اپوزیشن کوئی میگا پاور شور کرنے میں کامیاب ہو گئی اور لانگ مارچ کامیابی کے ساتھ اسلام آباد تک جا پہنچا تو اسٹیبلشمنٹ کو ’’ثالث‘‘ کی حیثیت سے کچھ بڑے اقدامات کرنا پڑ سکتے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں کچھ بھی ’’ناممکن‘‘ نہیں ہے، کل کے دشمن آج کے دوست بن جاتے ہیں اور آج کے دوست کل کے دشمن ہو جاتے ہیں ۔

مولانا فضل الرحمن کو ’’ایزی‘‘ لینا حکومت کیلئے ٹھیک نہیں ہوگا، مولانا صاحب کے عقیدت مندوں کی تعداد بھی بہت ہے اور خود مولانا صاحب کی بھی مقتدر حلقوں کے ساتھ پرانی دوستی ہے یہ الگ بات کہ کچھ عرصہ سے ہلی پھلکی ناراضگی چلی آرہی ہے۔

ملتان کا جلسہ اس لحاظ سے تاریخی ہے کہ اس میں آصفہ بھٹو کی صورت میں جیالوں اور عوام نے ’’بے نظیر ثانی‘‘ کی آمد دیکھی ہے۔آصفہ بھٹو جب جلسہ سے خطاب کر رہی تھیں تو لوگوں کو اس میں شہید بی بی کی جھلک واضح دکھائی دے رہی تھی اور جلسہ گاہ میں موجود پیپلز پارٹی کے کارکنوں سمیت گھروں میں بیٹھے جیالے بھی جذباتی ہو گئے تھے۔آصفہ بھٹو کا جوشیلا انداز، بلند خوداعتمادی، پر اعتماد باڈی لینگوئج دیکھ کر یہ احساس نہیں ہو رہا تھا کہ اس کی یہ پہلی بڑی سیاسی تقریر ہے۔

اپنی شہید والدہ کی مانند آصفہ بھٹو کو بھی کراوڈ کو اپنی جانب متوجہ کرنا آتا ہے۔آصفہ کی تقریر مختصر ضرور تھی لیکن اسے ’’دبنگ انٹری‘‘ قرار دیا جا رہا ہے۔آصفہ کے سیاسی سفر کا آغاز ہو چکا ہے اور سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ آصفہ سیاسی میدان میں پیپلز پارٹی کیلئے بڑا پاور سورس بن سکتی ہیں۔

عام طور پر سیاست میں ایک خاندان یا ایک ہی گھرانے کے لوگ ہوں تو اختلافات پیدا ہو جاتے ہیں اور ہر ایک اپنی سولو فلائٹ کی کوشش کر رہا ہوتا ہے جس کی مثال مریم اور حمزہ یا پھر اسد عمر اور محمد زبیر کی صورت میں سامنے موجود ہے لیکن ملتان جلسہ میں آصفہ بھٹو نے اپنے بھائی بلاول بھٹو کے حق میں نعرے لگوا کر بتا دیا ہے کہ قیادت بلاول بھٹو کے ہاتھ میں ہی رہے گی اور وہ اپنے بھائی کے شانہ بشانہ سیاسی جدوجہد کریں گی۔

مسلم لیگ (ن) کا کارکن بھی اس وقت مریم نواز شریف کی قیادت کو تسلیم کر رہا ہے اور گزشتہ چند ماہ کی بات کریں تو ن لیگ کے کارکن کو دوبارہ متحرک اور فعال کرنے کا کریڈٹ مریم نواز کو جاتا ہے تاہم مریم نواز کو اندھے جوش خطابت کی بجائے ایک بڑے سیاسی رہنما کی طرح فہم وفراست کے ساتھ بات کرنا چاہیئے۔ مین سٹریم میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا اتنا چوکس اور ایکٹو ہے کہ سیاستدانوں کی کہی بات کی حقیقت چند ہی منٹوں میں آشکار ہوجاتی ہے۔

مریم نواز کو سمجھنا ہو گا کہ ان کی جانب سے اپنی دادی کی وفات کی اطلاع نہ دینے پر حکومت کو ذمہ دار قرار دینے اور جیل میں انہیں چوہوں کا بچا ہوا کھانا فراہم کرنے کے بیان نے عوام اور میڈیا میں ان کی ساکھ کو ٹھیس پہنچائی ہے۔

ن لیگ کو اب یہ بھی طے کرنا ہے کہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کس حد تک محاذ آرائی کرنا ہے آیا ’’ریڈلائن‘‘ عبور کرنی ہے یا پھر ’’واپسی‘‘ کا راستہ کھلا رکھنا ہے۔اس معاملے میں پیپلز پارٹی بہت سیانی نکلی ہے، بلاول بھٹو کو اسٹیبلشمنٹ میں پسند کیا جا رہا ہے اور مستقبل کی سیاست میں بلاول کے پاس کئی آپشن موجود ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ بلاول بھٹو سمیت پیپلز پارٹی کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ پر کی جانے والی تنقید ایک مخصوص دائرہ اور الفاظ تک محدود ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کو پی ڈی ایم کے لاہور جلسے کے حوالے سے حکمت عملی کی تیاری میں گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور، سینئر وزیر عبدالعلیم خان، وزیر صنعت میاں اسلم اقبال اور وزیر ہاوسنگ میاں محمود الرشید کو ٹاسک دینا چاہئے۔

لاہور میں علیم خان نے بطور ضلعی صدر تحریک انصاف اور بطور صدر سنٹرل پنجاب بہت محنت کی ہوئی ہے اور اب بھی وہ اپنے ساتھی قائدین کے ساتھ ملکر لاہور میں تحریک انصاف کے کارکنوں کو سیاسی طور پر متحرک کر کے پی ڈی ایم جلسہ کی خبریت کو کم کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔