عالمی صف بندی، سیاسی محاذ آرائی سے خارجہ امور نظرانداز

ارشاد انصاری  بدھ 2 دسمبر 2020
دسمبر بہت اہم ہے یہ ملک کے سیاسی مستقبل کے رخ کا تعین کرے گا اور مارچ میں سینٹ کے انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔فوٹو : فائل

دسمبر بہت اہم ہے یہ ملک کے سیاسی مستقبل کے رخ کا تعین کرے گا اور مارچ میں سینٹ کے انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔فوٹو : فائل

 اسلام آباد:  نئی امریکی قیادت کے آنے سے پہلے ہی دنیا کے حالات تیزی سے تبدیلی کی جانب بڑھنا شروع ہوگئے ہیں ابھی پچھلے چند روز میں عالمی سطح پر اہم واقعات رونما ہوئے ہیں جس کے ملک کے مستقبل پر یقینی طور پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔

ایک جانب اٖفغانستان میں امریکہ کی جانب سے امن کی بحالی کی کوششوں کیلئے طالبان کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے باوجود افغانستان میں تشدد کی کاروائیاں بڑھنا شروع ہوگئی ہیں اور حال ہی میں افغانستان کا دارالحکومت رواں ماہ میں تیسری بار دھماکوں سے گونج اْٹھا، جس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ دوحہ میں طالبان اور افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیموں کے درمیان امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کی مداخلت کے باوجود تاحال پیشرفت نہیں ہو سکی ہے اور کابل میں پْرتشدد واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے۔

عالمی سطح پر جاری تنازعات کے تانے بانے عالمی بالادستی سے جا ملتے ہیں اور مستقبل کی عالمی چوہدراہٹ کی جنگ کیلئے صف بندی نیا رخ اختیار کرنے جا رہی ہے جس سے امریکہ کی نئی قیادت کیلئے نہ صرف داخلی سطح پر بلکہ خارجی سطح پر بھی درپیش چیلنجز بڑھ گئے ہیں۔ یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ امریکہ میں اقتدار کی منتقلی ناخوشگوار انداز میں ہونے جا رہی ہے اور ماضی کی روایات دم توڑنا شروع ہوگئی ہیں۔

سابق صدر باراک اوبامہ کی جانب سے کہا جا رہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو وائٹ ہاوس سے فوج کے ذریعے نکالنا پڑے گا تاہم ابھی اچھی خبر سامنے آئی ہے کہ امریکی صدرٹرمپ نے کڑواگھونٹ پیتے ہوئے بائیڈن انتظامیہ کو بالآخر اختیارات منتقلی کی منظوری دیدی ہے جس کے بعد کئی ہفتوں سے امریکی صدر کی جانب سے جاری ٹال مٹول انجام کو پہنچ گئی ہے لیکن ساتھ ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح کیا ہے کہ جوبائیڈن کے خلاف قانونی جنگ جاری رہے گی جو امریکی نومنتخب صدر جوبائیڈن کیلئے واضح پیغام ہے کہ انہیں اپنے دور اقتدار میں جہاں امریکہ کی عالمی بالادستی قائم رکھنے اور اپنی کارکردگی دکھانے کیلئے عالمی سطح پر شدید چیلنجز سے نمٹنا ہوگا وہیں انہیں داخلی سطح پر اپوزیشن کی مزاحمت کا بھی سامنا کرنا ہوگا۔ یہ تو وقت بتائے گا کہ نومنتخب امریکی صدر کیا روش اپناتے ہیں۔

دوسری جانب امریکا کے نو منتخب صدر جوبائیڈن اپنی کابینہ کا بھی اعلان کرنے جا رہے ہیں اور خارجہ امورکے ماہر انتھونی بلینکن کو وزیرخارجہ اور جیک سلیوان کو نیشنل سیکیورٹی مشیر منتخب کئے جانے کی اطلاعات ہیں اور نئی امریکی قیادت کے اختیارات سنبھالنے سے قبل امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو دنیا کے اہم دورے پر ہیںاس دوران انکی اہم ملاقاتوں کی خبریں بھی سامنے آرہی ہیں اور سب سے زیادہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نتن یاہو اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی مبینہ ملاقات کی خبریں عالمی میڈیا و پاکستانی میڈیا سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث کا محور بنی ہوئی ہیں۔

اس مبینہ ملاقات کے پاکستان پر ہونے والے اثرات پر پاکستان میں ٹاک شوز اور سوشل میڈیا پر پاکستانی و غیر ملکی میڈیا کی جانب سے تبصرے سامنے آ رہے ہیں اور یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا پاکستان کو اپنی اسرائیل پالیسی میں تبدیلی لانی چاہیے؟

اور بعض حلقوں کی جانب سے یہ تو یہ تک کہا جا رہا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے شدید دباو ہے اور اسی معاملہ پر پاکستان و سعودی عرب کے درمیان تعلقات انتہائی اہم اور خطرناک موڑ پر آگئے ہیں اور یہ بھی اطلاعات آرہی ہیں کہ کپتان عمران خان اور سعودی رہنما محمد بن سلمان کے درمیان فاصلے بہت بڑھ گئے ہیں اور اسی وجہ سے کپتان کا سعودی عرب کا دورہ شیڈول نہیں ہو پا رہا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ملک کی عسکری قیادت کی جانب سے بھی اس معاملے پر سخت پیغام دیا گیا ہے۔

سفارتی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سعودی عرب کو ایران اور ترکی کے ساتھ پاکستان کی قربت بھی برداشت نہیں ہے اور ایرانی وزیر خارجہ کے حالیہ بیان نے بھی پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان رنجشوں کو بڑھوتری دینے کیلئے جلتی پر تیل کا کام دکھایا ہے، دوسری طرف ترکی،ملائیشیاء ،ایران روس اور چین سمیت دیگر ممالک کی صدف بندی بھی امریکی و سعودی پریشانی کی ایک وجہ ہے۔

دنیا کی نظریں اس وقت نئی امریکی قیادت اور ان کی پالیسوں پر ہیں اور ہر ملک اس وقت اپنی خارجی پالیسی پرکام کر رہا ہے اور ہمارے ہاں اپنی سیاسی لڑائی ہی ختم نہیں ہو رہی۔ اپوزیشن اور حکومت کسی ایشو پر بھی ساتھ نہیں، ہمیشہ سے یہی ہوتا رہا ہے اور اس کا نقصان بعد میں پاکستان کو ہی اٹھانا ہوتا ہے۔

جلسے جلوسوں کی سیاست اور آپس کی لرائی سے باہر نکل آنا ہی بہتر ہوگا ا بھی بھی وقت ہے کہ ہم حکومت اور اپوزیشن مل کر خارجہ پالیسی کے معاملے پر ایک ہو جائیں اسی میں ملک و قوم کی بھلائی ہے لیکن ایسا ہوتا ابھی دکھائی نہیں دے رہا ہے بلکہ گلگت بلتستان انتخابات کے بعد تو سیاست میں تشدد کا عنصر بڑھتا دکھائی دے رہا ہے اور گلگت بلتستان میں انتخابات کے متنازعہ ہونے کے بعد ہنگامے پھوٹ پڑے تھے اور جلاو گھیراو کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔

ابھی تو لگ رہا ہے کہ ان پر قابو پا لیا گیا ہے لیکن حکومت نے دانشمندی سے کام نہ لیا تو یہ کک سٹارٹ ریس ثابت ہوگا اور پنجاب سمیت دوسرے صوبوں میں ریس پکڑیں گے جسے روکنا ہوگا۔

ورنہ یہ آگے چل کر پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور ملتان میں پی ڈی ایم کی عوامی طاقت کے مظاہرے کو حکومت کی طرف سے طاقت سے روکنے کی کوشش سے ہنگاموں کا دائرہ کار ملک تک پھیلنے کے خدشات بڑھ گئے ہیں انہیں خدشات کے پیش نظر سیاسی و غیر سیاسی فیصلہ ساز قوتوں کی جانب سے کپتان اور اس کے قریبی رفقاء کو اپوزیشن کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریز کرنے کے مشورے دیئے گئے اور مقتدر قوتوں کی جانب سے تو حکومت کو اپوزیشن کے ساتھ معاملات مذاکرات کے ذریعے طے کرنے کے مشورے دیئے گئے ہیں۔

یہی نہیں بلکہ آئی ایس پی آر کی جانب سے بھی قومی ڈائیلاگ کا بیان سامنے آیا اور ملتان جلسے سے ایک روز قبل میاں شہباز شریف کی جانب سے قومی ڈائیلاگ کے موقف کی تائید بھی معنی خیز ہے۔

بعض سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ جیسے عمران خان کے دوسرے دھرنے کی کوشش کو پاکستان مسلم لیگ(ن)کی حکومت نے ناکام بنایا تھا اسی طرح پی ٹی آئی کی حکومت اپوزیشن کے جلسے اور دھرنوں کی کوششوں کو ناکام بنائے گی اور اگر اس کیلئے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے آرٹیکل 245 کے تحت فوج طلب کر کے حالات کو کنٹرول کر لے گی لیکن بعض دفاعی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ماضی میں بھی فوج نے قانونی دائرے میں رہتے ہوئے منتخب حکومتوں کا ساتھ دیا ہے اور ابھی فوج بطور ادارہ پی ٹی آئی کی حکومت کا ساتھ دے گا لیکن فوج کے پاس پولیس یا دوسرے اداروں کی طرح کوئی لاٹھی،آنسو گیس جیسے حربے نہیں ہوتے۔

کبھی بھی فوج اپنے لوگوں کے خلاف نہیں جائے گی اور ایسا ہی ن لیگ کے دور میں کیا گیا تھا اس لئے حکومت کو مشورہ یہی دیا جا رہا ہے کہ حالات کو پوائنٹ آف نوریٹرن کی جانب نہ جانے دیا جائے۔

کیونکہ پشاور کے پی ڈی ایم کے جسلے میں اپوزیشن کی تمام قیادت اپنے تیور دکھا چکی ہے اور اس جلسے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو بھی میاں نوازشریف کے بیانئے پر عمل پیرا دکھائی دیئے۔

اسی طرح محمود خان اچکزئی اور سردار اختر مینگل کے لب و لہجے کی تلخی بھی بہت بڑھ گئی ہے جبکہ مولانا فضل الرحمٰن تو پہلے سے ہی توپوں کا رخ مخالفین پر کئے ہوئے ہیں ابھی ملتان جلسے کو طاقت سے روکنے کی حکومتی کوششوں کے تناظر میں مولانا فضل الرحمن کا سامنے آنے والا بیان زیادہ خطرناک ہے جس میں واضع پیغام دیا گیا ہے کہ کوئی ہمیں مارے گا تو ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے جبکہ بلاول بھٹو جنوری میں حکومت کے جانے کی پیشنگوئی کر چکے ہیں۔

اس کیلئے اب اپوزیشن کے اور حکومت کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے جو بھی ہونا ہے وہ دسمبر میں ہونا ہے۔ دسمبر بہت اہم ہے یہ ملک کے سیاسی مستقبل کے رخ کا تعین کرے گا اور مارچ میں سینٹ کے انتخابات ہونے جا رہے ہیں اس سے پہلے اپوزیشن کی پوری کوشش ہوگی کہ حکومت کا بوریا بستر گول کردیا جائے اور اگر ایسا نہ ہو سکا تو حکومت پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہو جائے گی اور ابھی اپوزیشن رہنماوں کی سختیاں کم نہیں ہوئی ہیں کہ اس کے بعد یہ مزید بڑھ جائیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔