کھسّے یا سلیم شاہی جوتی

حسن آرا  منگل 29 دسمبر 2020
شاہانہ پہناوے کا رنگ لیا ایک روایتی پاپوش

شاہانہ پہناوے کا رنگ لیا ایک روایتی پاپوش

کُھسے یا سلیم شاہی جوتے ہماری روایات و ثقافت کا ایک اہم حصہ ہیں۔ جنھیں مختلف ادوار میں تیار کیا جاتا رہا ہے۔ پرانے زمانے میں یہ بہت ذیادہ استعمال ہوتے تھے، مگر آج کل پھر ان کا فیشن عام ہے۔ ویسے تو کُھسوں کا فیشن کبھی پْرانا نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر زمانے میں تیار کیے جاتے رہے ہیں۔

گزشتہ کچھ عرصے کے دوران ان کُھسوں کی مانگ بڑھتی ہوئی دکھائی دی ہے۔ اس کی ایک وجہ پاکستانی اداکاراؤں کی جانب سے ان کھسوں کا استعمال کرنا ہے۔ ابتدا میں تو صرف سنہری یا سلور کُھسے تیار کیے جاتے تھے، تاکہ شادیوں کے ملبوسات کے ساتھ وہ میچنگ کر جائیں۔

پہلے پہل ’’ملتانی کھسے‘‘ زیادہ مشہور تھے، لیکن چوں کہ اس کی کڑھائی اور اسے بنانے میں محنت بہت لگتی تھی، اس لیے اس کے کاری گر کم ہوتے گئے، اب یہ کھسے مل تو جائیں گے لیکن کم دکانوں پر ہی دست یاب ہوں گے اور ان کی قیمت عام کُھسوں سے زیادہ ہوگی۔ ان دنوں تو چمڑے سے تیار کردہ سادہ کُھسے زیادہ پسند کیے جا رہے ہیں، کیوں کہ اصلی چمڑے سے تیار کردہ کھسے بہت مہنگے ہوتے ہیں، اس کے علاوہ کچھ ڈیزائنرز نے ٹرک آرٹ والے کھسے بھی متعارف کروانے کا سلسلہ شروع کیا، جو کہ لڑکیوں میں بہت پسند کیا گیا ہے۔

آج کل کپڑوں کے ساتھ میچنگ کھسے پہنے جاتے ہیں۔ ان دونوں انداز کے کھسوں کو عام دنوں میں باقاعدگی سے پہنا جا سکتا ہے۔ شادی بیاہ کی تقاریب کے لیے مختلف برانڈز کی جانب سے مخمل پر کورے، دبکے، موتیوں کا کام کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسے کئی ہیں جو لڑکیوں کو ان کی پسند کے مطابق میچنگ کھسے تیار کر کے دے رہے ہیں۔

اس کے علاوہ شادیوں کی تقریبات کے لیے اگر زنانہ کُھسے خریدنے ہیں، تو سلور یا سنہری رنگ کے کندن کے کھسے بھی بہترین انتخاب ثابت ہوں گے۔ کپڑوں کے ساتھ میچنگ کھسے بہت ہی پرکشش معلوم ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ آج کل شیشے کے کام والے ملبوسات فیشن میں ہیں، تو ان کے ساتھ میچنگ کر کے شیشوں والے کھسے خرید لیے جائیں، تو بہت خوب صورت لگتے ہیں۔ یہ مارکیٹ میں بہ آسانی دست یا ب ہیں۔ شادی بیاہ کے لیے تیار کیے جانے والے کندن، مخمل، کورے دبکے، ستارے اور شیشے والے کُھسوں کی قیمت ہزاروں میں ہوتی ہے۔

دکان داروں کا کہنا ہے کہ اس میں مہنگے نگینے، کندن وغیرہ لگائے جاتے ہیں، کچھ کھسوں کے درمیان میں گھنگھرو بھی لگائے جاتے ہیں، دبکے کا کام کیا جاتا ہے، اس لیے محنت بھی زیادہ لگتی ہے اور مٹیریل بھی مہنگا ہوتا ہے، اس لیے انھیں ان کُھسوں کو مہنگے داموں فروخت کرنا پڑتا ہے۔ یہ کھسے یا سلیم شاہی کم سے کم دو ہزار روپے میں مل سکتے ہیں۔ بنارسی کپڑے سے تیار کردہ سادہ کھسے بھی لڑکیوں میں مقبول ہیں، یہ فراکس اور لہنگوں کے ساتھ پہنے جائیں، تو خوب صورت لگتے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ کھسے صرف مشرقی ملبوسات کے ساتھ پہنے جائیں، لڑکیاں چاہیں، تو انھیں جینز کے ساتھ بھی پہن سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل لڑکیاں کالج اور جامعات میں بھی کھسے پہنتی دکھائی دیتی ہیں۔

سینڈلوں یا دیگر جوتوں سے موازنہ کیا جائے، تو یہ کھسے کم قیمت ہوتے ہیں۔ مقامی مارکیٹ میں آپ کو تین سو سے لے کر ایک ہزار روپے کی قیمت میں بہترین کھسے مل سکتے ہیں، اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ یہ دیگر سینڈلز اور چپلوں کی نسبت قیمت میں کم بھی ہوتے ہیں لیکن پہننے میں یہ اسٹائلش ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ملازمت پیشہ خواتین بھی سردیوں میں گھسے استعمال کرتی ہیں، کیوں کہ یہ سارا دن کام کرنے اور چلنے پھرنے کے آرام دہ ہوتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔