امید کا دیا اور دکھ کے سائے

محمد کامران کھاکھی  جمعرات 31 دسمبر 2020
2020 میں دکھوں کے سائے ہر طرف چھائے رہے، مگر امید کا دیا بھی روشن رہا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

2020 میں دکھوں کے سائے ہر طرف چھائے رہے، مگر امید کا دیا بھی روشن رہا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کہتے ہیں کہ زندگی کوئی پھولوں کی سیج نہیں جو ہمہ وقت مہکتی رہے اور خوشیاں ہی خوشیاں ہماری جھولی میں ڈالتی رہے۔ بلکہ زندگی تو سکھ اور دکھ کا ایک ایسا مجموعہ ہے کہ اگر ایک پل میں ہم دکھ سے رنجور ہیں تو اگلے پل ہمیں ایسی خوشی بھی نصیب ہوتی ہے کہ پچھلے تمام دکھوں، تکالیف اور غموں کا مداوا ہوجاتا ہے۔ اور ہم پھر سے ایک امید کے سہارے آگے بڑھنا شروع کردیتے ہیں۔ دکھوں کے سائے بڑھتے جاتے ہیں مگر امید کا دیا جلتا رہتا ہے۔

کیوں اَٹا ہوا ہے غبار میں، غم زندگی کے فشار میں
وہ جو درد تھا ترے بخت میں، سو وہ ہوگیا، اسے بھول جا

2020 کا سال بھی کچھ ایسے ہی خوشی اور غم کے واقعات سے بھرپور گزرا کہ ان کی یاد پر جہاں دل خون کے آنسو بہاتا ہے تو وہیں موہوم سی امید اسے دھڑکنے پر مجبور بھی کرتی ہے۔

سال کا آغاز ایک خوفناک دھماکے کی شکل میں ہوا اور پھر پورا سال ہی اس دھماکے کی دھمک ہمارے کانوں کے پردوں پر دستک دیتی رہی۔ 7 جنوری 2020 کو کوئٹہ کے لیاقت بازار میں ایک موٹر سائیکل کے ذریعے بم دھماکا ہوا جس سے دو افراد زندگی کی بازی ہار گئے اور 14 کے قریب زخمی ہوئے۔ اور اس کے صرف تین دن بعد اسی شہر کوئٹہ کے سیٹلائٹ ٹاؤن میں واقع غوث آباد کے قریب ایک مسجد میں بم دھماکا ہوا۔ یہ سانحہ مغرب کی نماز کے وقت پیش آیا جس سے اللہ کے گھر کے مہمانوں میں سے 15 افراد بشمول معصوم بچوں کے شہید ہوئے اور 19 کے قریب زخمی ہوئے۔اس حادثے نے ملک کے تمام باشندوں کو اداسی کی لپیٹ میں لے لیا۔

اسی دن 10 جنوری کو ہی سال کا پہلا چاند گرہن بھی پیش آیا۔

9 فروری 2020 سے ملک میں کبڈی ورلڈ کپ کا آغاز ہوا اور 16 فروری کو پاکستان نے اپنے روایتی حریف بھارت کو ہرا کر کبڈی ورلڈ کپ کا ٹائٹل اپنے نام کیا، جس سے ملک بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ مگر خوشی کا دورانیہ ہمیشہ ہی بہت کم ہوتا ہے اور اگلے دن ہی، یعنی 17 فروری کو دہشت گردوں نے پھر اسی شہر کوئٹہ کو نشانہ بنایا اور موٹر سائیکل پر جاتے ایک خودکش حملہ آور نے اس وقت اپنے آپ کو اڑا لیا جب پولیس نے اسے روکنے کی کوشش کی، کیونکہ وہ مذہبی ریلی میں داخل ہونا چاہتا تھا۔ اس حادثے میں دو پولیس اہلکاروں سمیت 10 افراد نے جام شہادت نوش کیا اور 35 کے قریب زخمی ہوئے۔

20 فروری کو فیصل آباد کے رہائشی باکسنگ کے اولمپک کھلاڑی عثمان اللہ خان کی وفات ہوئی۔ 25 فروری کو الخدمت فاؤنڈیشن کے چیئرمین نعمت اللہ خان کا انتقال پُرملال ہوا۔ 26 فروری 2020 کو پاکستان میں عالمی وبا کورونا کی پہلی بار دو افراد میں تشخیص ہوئی اور پھر اس وبا نے ہمارے ملک میں بھی اپنے پنجے گاڑ لیے، جس نے ابھی تک جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ 6 مارچ 2020 کو قہقہوں کے بادشاہ امان اللہ ہم سے بچھڑ گئے اور پہلی بار اس شخص کےلیے لوگ اداس ہوئے جس نے ساری زندگی انہیں ہنسانے میں ہی گزار دی۔

21 مئی کو کاون کی ملک بدری کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے دیا۔

22 فروری کو پاکستان میں ایک لرزہ خیز حادثہ پیش آیا جس نے ہر آنکھ کو نم کردیا۔ لاہور سے کراچی آنے والی پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن فلائٹ 8303 کی ایک ائیر بس ’’اے۔320‘‘ کراچی کی ماڈل کالونی میں کریش ہوگئی۔ اس جہاز میں 91 مسافر اور عملے کے 8 افراد سوار تھے، جن میں سے 97 افراد کو موت نے اپنی آغوش میں لے لیا اور دو افراد زخمی حالت میں زندہ رہ جانے میں کامیاب رہے۔ ماڈل ٹاؤن ایک گنجان آباد علاقہ ہے جس کی وجہ سے عمارتوں کے نقصان کے علاوہ وہاں کے رہائشیوں میں سے بھی آٹھ افراد زخمی ہوئے، جن میں سے ایک بعد ازاں چل بسا۔ پاکستانیوں کےلیے یہ ایک روح فرسا حادثہ تھا۔

13 جون کو معروف اداکارہ صبیحہ خانم کا انتقال ہوا۔ 17 جون کو طارق عزیز نے دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کے ساتھ اپنی جاں، جان آفریں کے سپرد کی۔ 20 جون کو مفتی محمد نعیم اپنے خالق حقیقی سے جاملے اور 22 جون کو علامہ طالب جوہری کا انتقال پُرملال ہوا۔ ان دونوں علمائے کرام کی رحلت سے پاکستان میں علم کے دو روشن مینار بجھ گئے۔ 26 جون کو منور حسن جو کہ جماعت اسلامی کے سابقہ امیر تھے، ہم سے جدا ہوگئے۔

29 جون کو پاکستان اسٹاک ایکسچینچ کراچی پر دہشت گردوں نے حملہ کیا، جس میں چاروں دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اس واقعے میں چار شہری بھی جاں بحق ہوئے۔

30 جون کو نگار جوہر پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ بطور عورت لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر فائز ہوئیں۔

5 اگست کو جماعت اسلامی کی ریلی پر گلشن اقبال میں گرینیڈ سے حملہ ہوا، جس سے 39 افراد زخمی ہوئے جبکہ 10 اگست کو چمن بلوچستان میں بم سے حملہ ہوا، جس سے 5 افراد جاں بحق اور کئی زخمی ہوئے۔ 20 اگست کو میر حاصل خان بزنجو کی رحلت ہوئی اور 26 اگست کو مظفر حسن شاہ بھی خالق حقیقی سے جاملے۔

7 ستمبر کو مہمند ایجنسی میں سنگ مرمر کی کان میں دھماکے سے 19 افراد جاں بحق اور 20 افراد زخمی ہوئے۔ 16 اکتوبر کو بلوچستان میں دہشت گردوں کے حملے میں 7 فوجی جوانوں اور سات سیکیورٹی گارڈز نے جام شہادت نوش کیا اور اسی دن شمالی وزیرستان میں ہماری جان و مال کی حفاظت پر مامور فوج کے چھ افراد بم دھماکے میں شہید کردیے گئے۔

21 اکتوبر کو کراچی میں ایک بلڈنگ میں دھماکے سے پانچ افراد جاں بحق اور 27 کے قریب زخمی ہوئے۔ 27 اکتوبر کو پشاور کے ایک مدرسہ جامعہ زبیریہ میں دہشت گردوں نے بم دھماکا کیا، جس سے آٹھ طالب علم شہید اور 110 زخمی ہوئے۔

12 نومبر کو جسٹس وقار احمد سیٹھ کی وفات ہوئی اور 20 نومبر کو علامہ خادم حسین رضوی اپنے خالق حقیقی سے جاملے، جنہوں نے حب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شمع روشن کر رکھی تھی۔ اس عظیم سانحے سے پاکستان میں ہر آدمی رنج کے سمندر میں ڈوب گیا اور ان کے جنازہ میں ملک کے ہر علاقے سے لوگوں نے شرکت کی۔ 2 دسمبر کو میر ظفراللہ خاں جمالی کا انتقال پُرملال ہوا اور 4 دسمبر کو جج ارشد ملک وفات پاگئے۔

سال 2020 پاکستانی عوام کےلیے ایک ایسا سال تھا جس میں دکھوں کے سائے ہر طرف چھائے رہے، کہیں سے کوئی سکھ کی روشنی چھنتی نظر نہیں آئی، مگر امید کا دیا روشن رہا۔

اور امید سحر برقرار ہے کہ مالک الملک آنے والے سال میں ہمارے ملک کےلیے بہتری لائے گا، ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق دے گا۔ جو ہم سے بچھڑ گئے ان کی مغفرت اور ہم پر اپنی رحمت نازل کرے گا۔ (ان شاء اللہ)

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔