پیپلزپارٹی سینٹرل ایگز یکٹو اور پی ڈی ایم کے درمیان

مزمل سہروردی  جمعرات 31 دسمبر 2020
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو نے ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا جس پر ہم حیران پریشان ہو جائیں۔ سینٹرل ایگز یکٹو کے جو بھی فیصلے سامنے آئے ہیں آپ پاکستان میں کسی عام فہم کے حامل شخص سے بھی سینٹرل ایگز یکٹو کے اجلاس سے پہلے پوچھ لیتے وہ یہی بتا دیتا۔

شاید پیپلزپارٹی کے پاس بھی ان فیصلوں کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا۔ وہ اس کے علاوہ کوئی فیصلے کر ہی نہیں سکتے تھے۔ اس لیے اگر عام آدمی ان فیصلوں سے حیران نہیں ہوا تو پی ڈی ایم میں شامل باقی جماعتیں ان فیصلوں سے حیران و پریشان کیوں ہوئی ہونگی۔

پیپلزپارٹی نے سینیٹ اور ضمنی انتخابات لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ پیپلزپارٹی کی اس بات میں بھی سچائی ہے کہ جب پی ڈی ایم معرض وجود میں آئی تھی تو اس وقت جو روڈ میپ اور ایکشن پلان طے ہوا تھا اس میں ضمنی انتخابات اور سینیٹ انتخابات نہ لڑنے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا تھا۔ اس لیے پی ڈی ایم اس بارے میں ابھی تک خاموش ہے۔

پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں اس ضمن میں اپنی اپنی رائے ضرور دے رہی ہیں کہ کیا ضمنی انتخابات اور سینیٹ انتخابات میں حصہ لینا چاہیے کہ نہیں لیکن اجتماعی طور پر پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر ابھی تک کوئی باقاعدہ فیصلہ نہیں ہوا۔ اس لیے جہاں پی ڈی ایم خاموش ہے وہاں سیاسی جماعتوں کو اپنی مرضی کا فیصلہ کرنے کی اجازت ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ پیپلز پارٹی واقعاتی طور پر درست بات کر رہی ہے۔ شاید جب پی ڈی ایم معرض وجود میں لانے کے لیے اے پی سی منعقد ہوئی تب اپوزیشن کی ان جماعتوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ درمیان میں ضمنی انتخابات اور سینیٹ انتخابات آجائیں گے۔یہ سارا کھیل اس سے پہلے کھیلنے کی ہی سوچ رہے تھے۔

لانگ مارچ پہلے کرنے کی سوچ تھی۔ شائد موسم کی سختی کا کسی کو کوئی اندازہ ہی نہیں تھا اور استعفوں پر ایک رسمی اتفاق کافی سمجھا گیا۔ لیکن کوئی باقاعدہ طریقہ کار اور حکمت عملی بھی طے نہیں کی گئی۔ بس اتنا ہی کافی سمجھا گیا کہ استعفیٰ دینے پر اتفاق ہو گیا۔ لیکن حکومت نے درمیان میں ضمنی انتخاب کا اعلان کر کے پی ڈی ایم کو سرپرائز دے دیا ہے۔ اور پی ڈی ایم سرپرائز میں پھنس گئی ہے اور اس میں سے نکلنے کی راہ نہیں نکال سکی۔

اگر اے پی سی میں جب پی ڈی ایم بنی تھی اور ایک ایکشن پلان پر سب نے دستخط کیے تھے تب ہی یہ بھی طے کر لیا جاتا کہ اب جب تک یہ حکومت ختم نہیں ہوتی تب تک ملک میں کسی بھی انتخابات میں حصہ نہیں لیا جائے گا۔ تو شاید آج پیپلزپارٹی یہ فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتی۔ یہ بات بھی کافی حد تک جائز ہے کہ بلاول اور آصف زرداری سینٹرل ایگزایکٹو کو اب اپنے مفاد میں استعمال کر رہے ہیں۔ ورنہ جب پی ڈی ایم میں شامل ہوئے تھے ، جب پی ڈی ایم کے مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کیے تھے تب کون سی سینٹرل ایگز یکٹو سے اجازت یا رائے لی گئی تھی۔

اس لیے آپ کہہ سکتے ہیں کہ اب بلاول اور آصف زرداری کسی نئے کھیل کی تیاری میں اپنی سینٹرل ایگز یکٹو کو استعمال کر رہے ہیں تا کہ کوئی بہانہ تو موجود ہو۔ ورنہ پی ڈی ایم اور اپوزیشن کی باقی جماعتوں کو کیا منہ دکھائیں گے۔ جب پہلے فیصلے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر سینٹرل ایگزیکٹو کی مرضی کے بغیر کیے گئے ہیں تو اب پی ڈی ایم کی بجائے سینٹرل ایگز یکٹو کیسے اہم ہو گئی۔ اس لیے کھیل بہت سادہ ہے اور بچے بچے کو سمجھ آرہا ہے۔

لیکن اس سب کے ساتھ یہ بات بھی اہم ہے کہ پیپلزپارٹی اور بلاول زرداری کی جوڑی کو یہ بات بھی بخوبی علم ہے کہ ان کی تما م تر اہمیت پی ڈی ایم کی وجہ سے ہی ہے۔ اگر پی ڈیم نہ ہو تو وہ پہلے کی طرح دوبارہ جیل جا سکتے ہیں۔ ان کے جیل سے باہر رہنے کی ضمانت پی ڈی ایم ہے۔ جتنا جتنا پی ڈی ایم حکومت اور اسٹبلشمنٹ کے خلاف سخت رویہ اپنائے گی اتنی ہی پیپلزپارٹی بلاول اور زرداری کی اہمیت بن جائے گی۔ لیکن اگر آج پی ڈی ایم ان کو نکال دے تو یہ ساری اہمیت ختم ہو جائے گی۔

میں سمجھتا ہوں کہ بلاول اور زرداری پی ڈی ایم سے باہر نکلنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ انھیں اندازہ ہے کہ عمران خان ان کو گلے نہیں لگائے گا۔ کوئی وقتی ریلیف تو مل سکتا ہے لیکن وقت نکلنے کے بعد وہ ریلیف بھی واپس ہو جائے گا۔ اور وہ دوبارہ انھیں مشکلات میں پھنس جائیں گے جیسا کے پہلے ہوا ہے۔ اس لیے ریلیف کی تلاش میں پی ڈی ایم سے نکلنا ان کا آپشن نہیں ہے۔ وہ دونوں کھیل ساتھ ساتھ چلانا چاہتے ہیں۔ ایک ٹکٹ میں دو مزے لینا چاہتے ہیں۔ دونوں سائیڈ کو بیوقوف بنانا چاہتے ہیں۔ ایک عام فہم ذہن کا یہ خیال ہے کہ یہ ایک حد تک تو ممکن ہے لیکن ایک حد سے آگے پیپلز پارٹی کے ساتھ وہی ہوگا کہ یا تو انھیں ایک گھر کا فیصلہ کرنا ہوگا یا وہ دونوں گھروں سے جائیں گے۔

ویسے تو میں نہیں سمجھتا کہ پی ڈی ایم ضمنی انتخابات اور سینیٹ انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کرے گی۔ اگر پیپلزپارٹی سینٹرل ایگز یکٹو کی بجائے پی ڈی ایم کے سامنے بھی اپنے دلائل رکھتی تو یہ فیصلہ ممکن تھا۔ لیکن شاید پوائنٹ اسکورنگ اور دوسری طرف کو اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے انھوں نے ایسا کیا ہے۔ ن لیگ بھی گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کے ضمنی انتخابات چھوڑنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اس لیے ن لیگ پیپلزپارٹی کا یہ فیصلہ اب پیپلزپارٹی کے سر پر احسان کر کے مان لے گی۔ کہ ہم آپکی بات کا بھرم رکھ رہے ہیں۔ ورنہ ہم اس کے لیے تیار نہیں تھے۔ اتحادی سیاست میں کڑوی گولی کھانی پڑتی ہے۔ اس لیے ہم نے کھا لی ہے۔

ن لیگ اور مولانا فضل الرحمن کو یہ علم ہونا چاہیے اور میں سمجھتا ہوں کہ سب کو علم ہو گا کہ لانگ مارچ تک پیپلزپارٹی ان کے ساتھ ہے۔پیپلزپارٹی لانگ مارچ کے نتائج تک پی ڈی ایم کا ساتھ نہیں چھوڑے گی۔ اگر لانگ مارچ کامیاب ہوگیا۔

واقعی ن لیگ اور فضل الرحمن لاکھوں لوگ اسلام آباد لانے میں کامیاب ہو گئے اور کھیل نئے انتخابات کی طرف لے گئے تو پیپلزپارٹی ساتھ کھڑی رہے گی۔ لیکن اگر لانگ مارچ ناکام ہو گیا مطلوبہ تعداد میں لوگ نہ آئے تو وہ رنگ بدلنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ پیپلزپارٹی کو دوسرے فریق کے بارے میں بخوبی علم ہے کہ وہ مشکل میں کوئی بھی بڑی رعایت اور معاہدہ کرنے کے لیے تیار ہو سکتا ہے۔ اس لیے پیپلزپارٹی خود کو اس بڑی رعایت اور معاہدہ کے کھیل سے باہر نہیں کرے گی۔ اس کا بھر پور چانس لے گی۔ چاہے ان کا اپنا اندازہ اور سوچ یہی ہو کہ اس کے امکانات کم ہیں۔ لیکن وہ کم امکانات کو بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔

آصف زرداری کوشش کر رہے ہیں کہ وہ پی ڈی ایم کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ جائیں۔ لیکن شائد ایسا ممکن نہ ہو سکے۔ اگر مجھے اور آپ کو یہ بات سمجھ آرہی ہے تو سب کو سمجھ آرہی ہے۔ اس لیے ن لیگ اور باقی سب جماعتیں ان کو کبھی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے نہیں دیں گے۔ اسی لیے تو شدید کوشش کے باوجود آصف زرداری پی ڈی ایم کے سربراہ نہیں بن سکے۔ کیونکہ باقی جماعتوں کو ان پراعتبار نہیں تھا۔ اعتبار کے اس کھیل میں زرداری صاحب تو پہلے ہی ہار چکے ہیں۔ لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ بلاول کیا کرتے ہیں۔

کیا  اپوزیشن کی جماعتوں میں اپنا جو مقام بنایا ہے وہ اس کو قائم رکھیں گے۔ مریم اور بلاول کے درمیان جو اعتماد کا رشتہ نظر آرہا ہے اس کو ایک دھچکا ضرور لگا ہے۔ لیکن یہ ابھی ٹوٹا نہیں ہے۔ لیکن بلاول کو یہ بات سمجھنا ہو گی کہ بار بار یہ کھیل کھیل کر اس رشتہ کو بھی قائم نہیں رکھ سکیں گے۔ یہ رشتہ زیادہ دھچکے برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اور شاید جب ن لیگ نے جوابی دھچکا دیا تو پیپلزپارٹی کا کافی نقصان ہو جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔