کیا پاکستان میں خواجہ سرا ہونا جرم ہے؟

شایان تمثیل  ہفتہ 9 جنوری 2021
پاکستان کی پہلی ٹرانس جینڈر ماڈل ریمل علی پر بہیمانہ تشدد قابل مذمت ہے۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان کی پہلی ٹرانس جینڈر ماڈل ریمل علی پر بہیمانہ تشدد قابل مذمت ہے۔ (فوٹو: فائل)

ذہن کے پردے پر اجلے شعر ابھریں کس طرح
اس قدر لکھے گئے الفاظ سب میلے ہوئے

شاعر کو تو صنف شاعری میں ندرت خیال کی نایابی کا شکوہ ہے کہ ہر خیال و زمیں کا استعمال کسی نہ کسی صورت ہوچکا ہے، اب نئے اشعار کس قالب میں ڈھالے جائیں؟ لیکن یہی کچھ صورت حال نثر میں بھی ہے، دردِ دل رکھنے والے صاحبان صفحات سیاہ کیے جارہے ہیں، اپنا فگار سینہ قارئین کے سامنے رکھے دیتے ہیں لیکن وہ ارباب اختیار جن کی توجہ کےلیے یہ خامہ فرسائی کی جاتی ہے، ازلی بے حسی کی چادر تانے سوئے رہتے ہیں۔ اب نثر میں بھی کوئی نیا مضمون نہیں باندھا جاسکتا کہ ہر خیال پہلے ہی پیش کیا جاچکا ہےٍ، بس اسلوب اور بیان سے تحریر کو نیا پن دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان دیوانوں کے خیال میں پانی کا مستقل گرنا پتھر میں سوراخ کرنے کا موجب بنتا ہے۔ آخر کبھی تو مستقل دستک ان ارباب اقتدار کو دروازہ کھولنے پر مجبور کردے گی، جن کی نظر میں عوامی مسائل محض سیاست کے کھیل کو جاری رکھنے کا بہانہ ہیں۔

آج کا موضوع بھی ایک ایسا ہی ’’عام‘‘ سا خیال ہے جس پر مختلف صورتوں میں طبع آزمائی کی جاچکی ہے اور کی جارہی ہے لیکن پھر بھی مثبت نتائج دکھائی نہیں دیتے۔ البتہ لکھنے والوں کو ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ شاید پتھر میں سوراخ پڑنے کی ابتدا ہوچکی ہے۔ آج سے صرف ایک دہائی پیچھے ہی چلے جائیں تو ’’خواجہ سراؤں‘‘ کے مسائل اور ان کے حق میں لکھنے والوں کو اس طرح تنقید کا سامنا کرنا پڑتا تھا جیسے انھوں نے اس معاشرے میں بسنے والی اس ’’مخلوق‘‘ کے بارے میں لکھ کر قلم کی حرمت کو پامال کیا ہو۔ تنقید کے وہ تیر برسائے جاتے تھے کہ حق پر ہونے والے بھی شرمندہ ہوکر تائب ہوجاتے۔ لیکن پھر وقت کی کروٹ نے اس ’’مظلوم مخلوق‘‘ کے بارے میں کم از کم بات کرنے کو معاشرے کےلیے ’’قابل برداشت‘‘ بنادیا۔ اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ حکومتی ایوانوں میں اسے محض مخلوق سے زیادہ ’’انسان‘‘ سمجھنے اور معاشرے کا حصہ ماننے کی باتیں ہونے لگیں۔ کئی قوانین بھی پاس کیے گئے۔ یوں لگتا تھا کہ شاید اب یہ مظلوم مخلوق، انسان اور معاشرے کے فرد کا درجہ پاکر قبولیت کا شرف حاصل کرلے گی۔ لیکن صدیوں میں پنپ کر راسخ ہوجانے والے عمومی رویوں اور معاشرتی برتاؤ کا اس قدر جلد بدل جانا ممکن نہیں۔ خواجہ سراؤں پر ہونے والے مظالم اور اندوہناک واقعات اس بات کے گواہ ہیں کہ معاشرے میں قبولیت کےلیے اس کمیونٹی کو ابھی مزید کئی کٹھن پہاڑ عبور کرنے ہیں۔

چند روز قبل پاکستان کی پہلی خواجہ سرا ماڈل ریمل علی پر بہیمانہ تشدد، سر کے بال اور بھنوؤں کو مونڈھ دینے کی خبر پڑھ کر زیادہ حیرت نہیں ہوئی، کیونکہ ہمارے معاشرے میں ابھی تک خواجہ سراؤں کو توقیر نہیں ملی ہے۔ ریمل علی کو شوبز انڈسٹری میں قبولیت حاصل کرنے میں آٹھ سال سے زیادہ کا عرصہ لگا۔ اس واقعے کے بعد ریمل کا کہنا تھا کہ انھیں شوبز انڈسٹری میں کام کرنے سے روکا جارہا ہے اور ان کی جان کو خطرہ ہے۔ ریمل کا خدشہ درست بھی ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ گزشتہ کچھ برسوں میں پاکستان میں درجنوں نہیں بلکہ سیکڑوں خواجہ سراؤں کو بے رحمی سے قتل کیا جاچکا ہے۔ آخر ایک خواجہ سرا ماڈل سے کسے خطرہ لاحق ہوسکتا ہے جو کچھ لوگ اس کی جان کے درپے ہوگئے ہیں؟ اور عوامی رویہ دیکھیے۔ اگر یہی واقعہ کسی ’’عورت‘‘ ماڈل کے ساتھ پیش آیا ہوتا تو ہر مین اسٹریم میڈیا پر یہ خبر بار بار دکھائی جاتی، ایک شور سا بپا ہوجاتا۔ لیکن چونکہ یہ واقعہ ایک ٹرانس جینڈر کے ساتھ پیش آیا ہے اس لیے محض چند ایک جگہ کے کہیں خبر بھی نشر نہیں کی گئی۔

اور یہ واقعہ اپنی طرز کا پہلا واقعہ بھی نہیں ہے۔ اس طرح کے درجنوں واقعات ملک کے طول و عرض میں روزانہ کی بنیاد پر وقوع پذیر ہوتے ہیں لیکن چونکہ متاثرہ فرد ایک خواجہ سرا ہوتا ہے اس لیے اس کی خبر ہم تک نہیں پہنچ پاتی۔ ہاں جب یہ واقعات تھوڑے سے مزید سنگین ہوکر کسی خواجہ سرا کی جان لینے تک پہنچ جائیں تو صرف وہی ’’خبر‘‘ کی سند حاصل کرپاتے ہیں۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے مقابلے میں سوشل میڈیا کے ذریعے ان واقعات تک رسائی ہوجاتی ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے میں تواتر سے ایسی ویڈیوز اور پوسٹس نظروں سے گزریں جن میں خواجہ سراؤں پر بدترین تشدد، زیادتی اور قتل تک کے واقعات شامل ہیں۔ یہاں تک کہ وہ ویڈیوز بھی وائرل ہوئیں جن میں خود ’’نام نہاد مرد‘‘ ملزمان نے ان خواجہ سراؤں کو برہنہ کرکے تشدد کرتے ہوئے ویڈیوز بناکر انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کردیں، جیسے کہ یہ ایک کارنامہ ہو۔ ان ویڈیوز میں تشدد کرنے والے ’’مردوں‘‘ کے چہرے واضح ہونے کے باوجود بھی کسی تادیبی کارروائی تک کی خبر سامنے نہیں آئی۔ شاید حکومتی اداروں میں بھی اسی ’’مردانہ‘‘ سوچ کے حامل افراد کی اکثریت ہے جو خواجہ سراؤں پر تشدد کو ’’اہمیت‘‘ نہیں دیتے۔

ہم یہاں پر خواجہ سراؤں کی مظلومیت اور بدترین استحصال کا بار بار تذکرہ نہیں کریں گے، کیونکہ یہ سب ہی باتیں مختلف مضامین میں کئی بار دہرائی جاچکی ہیں لیکن ذہن میں بار بار یہ سوال تو اٹھتا ہے کہ کیا واقعی پاکستان میں خواجہ سرا ہونا جرم ہے؟ آخر اس قدر تضحیک اور نفرت کی وجہ کیا ہے؟ کیا صرف یہی کہ وہ جسمانی طور پر عورتوں اور مردوں سے مختلف ہیں۔ لیکن اس میں ان خواجہ سراؤں کا کیا قصور؟ یہ تو خدا کی تخلیق ہے۔ تو پھر خدا کی بنائی ہوئی دوسری مخلوق انھیں قبول کرنے سے انکاری کیوں ہے؟

کچھ لوگ (بلکہ اکثریت) کا خیال ہے کہ ان واقعات کے پیچھے بھی خواجہ سراؤں کا ہی قصور ہے، کیونکہ خواجہ سرا معاشرے میں بے حیائی اور غیر فطری جنسی تعلقات کو پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں۔ اس سوچ کے پیچھے بھی وہی صدیوں سے پنپتے معاشرتی رواج کارفرما ہیں، ورنہ بے حیائی اور غیر فطری تعلقات کا الزام صرف خواجہ سراؤں کے سر منڈھنا ’’بندر کی بلا طویلے کے سر‘‘ کے مصداق ہے۔ بھلا بتائیے معاشرے کے وہ افراد جو اصل آبادی کا پانچ فیصد بھی نہیں، کیا صرف وہ معاشرے میں بے حیائی پھیلانے کا موجب ہیں؟ کہنے والے بے موقع اور لایعنی مثال دے کر بات سنبھالنے کی کوشش تو کرتے ہیں کہ ’’ایک گندی مچھلی پورے تالاب کو گندا کردیتی ہے‘‘ لیکن جناب ہر محاورے کا اطلاق ہر وقوعے پر نہیں کیا جاسکتا۔ ’’معاشرے میں پھیلتی بے حیائی‘‘ ایک الگ موضوع ہے جس کا احاطہ پھر کبھی سہی۔ لیکن بہرحال جس طرح اچھے برے افراد ہر جگہ ہوتے ہیں ویسے ہی چند ایک خواجہ سرا جو جنسی افعال میں مبتلا ہیں، ان کی وجہ سے پوری خواجہ سرا کمیونٹی کو بدنام کرنا جائز نہیں۔

خواجہ سراؤں کی اکثریت معاشرے میں باعزت مقام اور روزگار چاہتی ہے۔ چونکہ معاشرے کی جانب سے ہی انہیں مواقع فراہم نہیں کیے گئے اس لیے پیٹ کا دوزخ بھرنے کےلیے چوراہوں پر بھیک مانگنا اور ناچ گا کر کمانا ان کی مجبوری ہے۔ یاد رکھیے کہ خواجہ سراؤں کی اکثریت سیکس ورکر نہیں، لیکن معاشرے کے مردوں کی جانب سے ہی انہیں اس کام کےلیے مجبور کیا جاتا ہے۔ چند ماہ پہلے ایک خواجہ سرا کی جان صرف اس بات پر لے لی گئی کہ اس نے محفل میں رقص کرنے کے بعد مردوں کی ’’تسکین‘‘ پوری کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ایسے ہی مردوں نے صوبہ خیبرپختونخواہ اور صوبہ پنجاب میں خواجہ سراؤں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ پشاور میں تو باقاعدہ خواجہ سراؤں کے خلاف یہ کہہ کر مہم چلائی جارہی ہے کہ خواجہ سراؤں کے ڈیرے فحاشی کے اڈے ہیں اس لیے انھیں شہر بدر کیا جائے۔ لیکن مہم چلانے والوں کے کردار خود سوالیہ ہیں۔ ملک کے دیگر صوبوں میں بھی حالات اتنے اچھے نہیں ہیں۔

خواجہ سراؤں پر مظالم اور حق تلفی کی داستان ایک مختصر بلاگ میں نہیں سمٹ سکتی۔ چونکہ احقر کے اکثر مضامین نفسیات سے تعلق رکھتے ہیں، اور جنسیات کے بغیر نفسیات کا موضوع ادھورا ہے اس لیے اپنے تحقیقاتی کام کے سلسلے میں کئی ٹرانس جینڈرز کا بھی انٹرویو کرنے کا موقع ملا، نیز مختلف این جی اوز کے توسط سے خواجہ سراؤں کے سرکردہ رہنماؤں سے بھی ملاقات ہوئی۔ جب کہ اپنی زیر طبع کتاب ’’پاکستان میں ہم جنس پرستی، اسباب اور سدباب‘‘ کے حوالے سے اس طبقے کے خیالات بھی جاننے کا موقع ملا جو نہ صرف ٹیبو ہے بلکہ پاکستان کے آئین و قانون میں ان کے لیے قطعی جگہ نہیں۔ لیکن اس کے باوجود انسانی نفسیات کے ان پہلوؤں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

افسوسناک امر یہ کہ ہم جنس پرستوں اور خواجہ سرا کمیونٹی کو خلط ملط کردیا گیا ہے، جس کے باعث حقیقی خواجہ سرا مزید تحفظات کا شکار ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ خواجہ سراؤں کو صرف پدرسری نظام سے ہی شکایتیں نہیں بلکہ خود ان کی اپنی کمیونٹی کے ممبرز اور بہروپیے خواجہ سرا بھی حقیقی خواجہ سراؤں کے استحصال میں ملوث ہیں۔ نیز پاکستان میں کام کرنے والی بہت سی این جی اوز جو ٹرانس جینڈرز کمیونٹی کے نام پر کام کررہی ہیں، وہ بھی مخلص نہیں۔ بلکہ ان کے مطمع نظر اس کمیونٹی کے نام پر آنے والا بیرونی ممالک کا فنڈز ہوتا ہے۔ پاکستان میں محض چند ایک این جی اوز ہی ایسی ہیں جو ٹرانس جینڈرز کمیونٹی کےلیے خلوص دل سے کام کررہی ہیں۔ ان میں سے کچھ خواجہ سراؤں کے حقوق کےلیے اور کچھ ہیلتھ سے متعلق معاملات جیسے ایچ آئی وی ایڈز وغیرہ پر کام کررہی ہیں۔ لیکن قابل افسوس امر یہ ہے کہ ان مخلص این جی اوز کے پاس فنڈنگ کی کمی ہے جبکہ بیرونی فنڈز زیادہ تر ان این جی اوز کے پاس جارہا ہے جو ’’شور‘‘ تو بہت کرتی ہیں لیکن کام کچھ نہیں کرتیں۔ چونکہ میں نے اس حوالے سے بہت کام کیا ہے تو میں سمجھتا ہوں پاکستان میں Queer Mental Health پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان میں جنسی تشدد اور بے راہ روی کے بڑھتے واقعات کے بعد اس فیلڈ میں کام کرنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اس موضوع پر کام کرنے کےلیے اور این جی او کے قیام میں اگر صاحبِ حیثیت افراد میری مدد کرنا چاہیں تو مجھے خوشی ہوگی۔

ان سب باتوں کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی بھی فرد یا این جی او ٹرانس جینڈرز کے حقوق کےلیے آواز تو بلند کرسکتی ہے اور اپنی بساط بھر کوششوں سے ان کی بہتری کے لیے تھوڑا بہت کام بھی کرسکتی ہے، لیکن خواجہ سراؤں کا تحفظ اور حقوق کی فراہمی ریاست کی ذمے داری ہے۔ نیز معاشرتی رویوں کو بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنی سوچ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ آپ کسی طبقے کی راہیں مسدود کریں گے تب ہی وہ متبادل راہوں کا انتخاب کرے گا۔ ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو بھی معاشرہ کا حصہ تسلیم کیجئے اور ان سے برابری کا انسانی سلوک کیجئے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

Shayan Tamseel

شایان تمثیل

بلاگر کوچہ صحافت کے پرانے مکین ہیں اور اپنے قلمی نام سے نفسیات وما بعد النفسیات کے موضوعات پر ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ معاشرت، انسانی رویوں اور نفسانی الجھنوں جیسے پیچیدہ موضوعات پر زیادہ خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ صحافت اور ٹیچنگ کے علاوہ سوشل ورک میں بھی مصروف رہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔