بائیڈن کے صدر بننے سے امریکا کی 230 سالہ تاریخ میں کیا کیا پہلی بار ہوا !

رانا محمد آصف  جمعرات 21 جنوری 2021
صدر بائیڈن امریکا کی تاریخ کے معمر ترین صدر ہیں(فوٹو، رائٹرز)

صدر بائیڈن امریکا کی تاریخ کے معمر ترین صدر ہیں(فوٹو، رائٹرز)

صدر جوزف  آر بائیڈن کے منصب صدارت سبنھالنے کے دن امریکا کی دو سو تیس برس کی تاریخ میں بہت سے واقعات پہلی مرتبہ پیش آئے جس میں  امید افزا ، حیران کُن اور تشویش ناک سبھی پہلو شامل ہیں۔

معمر ترین سے معمر ترین تک 

78 برس کی عمر میں انتخابات میں کام یاب ہونے کے بعد 20 جنوری کو اپنے عہدے کا حلف اٹھانے والے جو بائیڈن امریکا کی صدارتی تاریخ میں پہلی مرتبہ منتخب ہونے والے معمر ترین صدر بن گئے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ان کے پیش رو صدر ٹرمپ بھی اپنے انتخاب کے وقت امریکا کی تاریخ کے معمر ترین صدر تھے۔

پہلی خاتون نائب صدر 

امریکا کی 231 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ کوئی خاتون اور غیر سفید فام نائب صدارت کے عہدے پر فائز ہوئی ہیں۔ کملا ہیرس کو حلف برداری کے بعد یہ اعزاز حاصل ہوا ہے اور اسے امریکا میں سیاہ فام اور تارکین وطن خواتین کے لیے ایک امید افزا علامت قرار دیا جارہا ہے۔

استقبال سے انکار

صدارتی منصب کے ساتھ کئی روایات بھی جڑی ہیں، لیکن امریکا کی صدارتی تاریخ میں سابق صدر ٹرمپ نے انوکھی روش اختیار کی اور کئی سابقہ روایات کا پاس نہیں رکھا۔ ٹرمپ نے صدارتی روایات کے مطابق صدر بائیڈن کا وائٹ ہاؤس میں استقبال کیا اور نہ ہی ان کی تقریب حلف برداری میں شریک ہوئے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے الوداعی خطاب میں بھی انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کیا۔ امریکی مبصرین صدر ٹرمپ کے اس اقدام کو امریکا کی جمہوری اقدار کی بڑی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں۔

ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا 

صدر بائیڈن کے نصف صدی پر محیط سیاسی کرئیر میں کئی اتار چڑھاؤ آئے۔ انہوں نے صدارتی نامزدگی کے لیے 1988 اور 2008 میں کوشش کیں اور بالاخر 2020 میں یہ منصب حاصل کرلیا۔ لیکن اس دوران انہیں سیاسی مشکلات کے ساتھ ساتھ ایک ایسے مسئلے کا بھی سامنا تھا جس کی وجہ سے اکثر افراد میں خود اعتمادی پیدا نہیں ہوپاتی۔ جو بائیڈن کو بچن سے ہکلانے اور اٹک اٹک کر بولنے کا مسئلہ درپیش رہا ہے ۔ انہوں نے نہ صرف اس جسمانی کمی کے ساتھ اپنا کریئر برقرار رکھا اور دنیا کے سب سے طاقتور ترین تصور ہونےو الے منصب ، امریکی صدارت پر فائز ہوگئے۔

محدود عوامی شرکت 

صدارتی انتخابات سے جڑی دیگر روایات کے ساتھ امریکا میں نئے صدر کی حلف برداری کا دن بھی تہوار کی طرح منایا جاتا ہے۔ یہ تقریب منتخب ہونے والے صدر کی عوامی مقبولیت اور سیاسی فکر کی علامت تصور کی جاتی ہے۔  صدر ٹرمپ کی تقریب حلف برداری میں عوام کی نسبتاً کم شرکت کی خبروں پر میڈیا میں بہت ہنگامہ بھی رہا تھا تاہم کورونا وائرس کے باعث امریکی تاریخ میں پہلی بار اس قدر محدود پیمانے پر حلف برداری کی تقریب کا اہتمام کیا گیا اور تقریب میں عوامی شرکت کی علامت کے طور پر  پنڈال میں ایک لاکھ امریکی پرچم لگائے گئے۔

خطروں کا شدید احساس 

امریکا کی تاریخ میں پہلی بار اس قدر بے یقینی کی صورت حال میں اقتدار کی منتقلی ہوئی۔ صدر ٹرمپ انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکار کرتے رہے اور انتہا یہ ہوئی کہ صدارتی انتخاب کی توثیق کے دن ان کے حامی امریکی کانگریس کی عمارت پر چڑھ دوڑے۔ ان حالات کی پس منظر میں جو بائیڈن کی تقریب حلف برداری کے لیے غیر معمولی اقدامات کرنا پڑے اور 20 ہزار سے زائد سیکیورٹی اہلکار دارالحکومت میں تعینات کرنا پڑے۔ ماضی میں بھی اس تقریب کی سیکیورٹی کے لیے خاص اہتمام کیا جاتا ہے لیکن پہلی مرتبہ حلف برداری کو محفوظ بنانے کے لیے لگائی گئی سیکیورٹی سے ظاہر ہوا کہ امریکا کے داخلی خطرات کس سطح پر پہنچ چکے ہیں۔

صدر بائیڈن نے حلف اٹھانے کے بعد حسب روایت آنے والے چیلنجز کا ذکر کیا۔ اس بار ظاہر ہے کہ امریکا میں بڑے پیمانے پر کورونا سے ہونے والی اموات اور وبا کی بڑھتی ہوئی تباہ کاریاں ہی ان کا سب سے بڑا چیلنج تصور کی جارہی تھیں تاہم صدر بائیڈن نے اس کے ساتھ سفید فام نسل پرستی کو بھی اپنی انتظامیہ کے لیے ایک بڑا چیلنج قرار دیا ہے۔ حالیہ تاریخ میں وہ پہلے امریکی صدر ہیں جنھوں نے سفید فام نسلی تفاخر کو باقاعدہ امریکا کے داخلی خطرے کے طور پر باقاعدہ ایک چلینج قرار دیا ہے۔

متعلقہ خبریں: 
جوبائیڈن امریکا کے معمر ترین صدر اور کملا ہیرس پہلی خاتون نائب صدر بن گئیں
دنیا میں اپنے اتحادیوں سے پیدا ہونے والی دوریاں ختم کریں گے، صدر بائیڈن
ٹرمپ نے صدارت کے آخری روز ’اپنوں‘ کو نوازنے کی تاریخ رقم کردی

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔