مزید دو کروڑ بچے اسکولوں سے دور ہوسکتے ہیں

محمد عاطف شیخ  اتوار 24 جنوری 2021
اسکولوں میں موجود بچوں کے اس زبردستی کے ڈراپ آوٹ کا ذمہ دار کون۔۔۔ والدین یا اسکولوں کی انتظامیہ ؟ فوٹو: فائل

اسکولوں میں موجود بچوں کے اس زبردستی کے ڈراپ آوٹ کا ذمہ دار کون۔۔۔ والدین یا اسکولوں کی انتظامیہ ؟ فوٹو: فائل

ـ’’ دنیا بھر میں کوویڈ19 کے معاشی اثرات اور اسکولوں کی بندش کا مشترکہ اثر سیکھنے کا بحران پیدا کرسکتا ہے جو نسل کی تباہی میں بدل سکتا ہے‘‘ اقوام متحدہ نے یہ تنبیہہ اگست 2020 میں جاری ہونے والی اپنی رپورٹ ’’ پالیسی بریف: ایجوکیشن ڈیورننگ کوویڈ19 اینڈ بیانڈ‘‘ میں دی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کوویڈ19 کے وبائی مرض نے تعلیم کے نظام میں تاریخ کی سب سے بڑی رکاوٹ پیدا کر دی ہے۔ جس سے دنیا کے 190 سے زائد ممالک کے 1.6 ارب سیکھنے والے متاثرہوئے ہیں۔ اسکولوں اور سیکھنے والی دوسری جگہوں کی بندش نے دنیا کے طالب علموں کے94 فیصد کو متاثر کیا ہے اور کوویڈ 19 کے معاشی اثر کی وجہ سے اگلے سال (یعنی موجودہ سال) تقریباً 2 کروڑ38 لاکھ اضافی بچے اور نوجوان تعلیمی ادارے چھوڑ سکتے ہیںاور اسکولوں کی بندش کے بعد اپنی تعلیم کی طرف واپس نہ آنے والے بچوں کی کل تعداد اور بھی زیادہ ہونے کا امکان ہے۔

جبکہ کوویڈ 19سے پہلے کی دنیا کے 2 کروڑ 50 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر اور8 کروڑ بالغ افراد ناخواندہ ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کوویڈ19کی وجہ سے مالی دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ جس سے تعلیم کے لیے مختص بجٹ میں کمی ہوسکتی ہے۔ اس لیے تعلیم کی مالی اعانت بھی بڑے چیلنجوں کا سامنا کرسکتی ہے۔

اسکولوں کی بندش کے وقت سیکھنے کے تسلسل کو یقینی بنانا دنیا بھر کی حکومتوں کی ترجیح بن گیا ہے۔ اس حوالے سے بہت سے ممالک میں انفارمیشن کمیونیکشن ٹیکنالوجی کو اختیار کیا گیا ہے۔ لیکن کم آمدن ممالک میں ڈیجیٹل سہولیات کی کمی اور طلباء، والدین اور اساتذہ کی کم ڈیجیٹل لیٹرسی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ COVID-19 کے ملازمت اور تنخواہوں پر مختلف طرح کے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

حالیہ اعداد و شمار کے مطابق صرف چند ایک ممالک میں قانونی اساتذہ کی ادائیگی نہیں کی گئی۔ تاہم تنخواہوں کی ادائیگیوں میں تاخیر زیادہ عام رہی۔ سرکاری شعبے میں عارضی معاہدوں پر پڑھانے والے خاص طور پر متاثر ہوئے کیوں کہ اُن کہ معاہدوں کی تجدید نہیں کی گئی تھی ۔

کم آمدنی والے ممالک میں والدین کی اکثریت نے فیسوں کی ادائیگی بند کردی جس سے نجی شعبہ میں کام کرنے والے اساتذہ کی بڑی تعدادروزگار سے محروم ہوگئی۔ ایجوکیشن انٹرنیشنل کے ایک سروے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 67 ممالک سے تعلق رکھنے والی 93 اساتذہ یونینوں میںتقریبا دوتہائی نے اطلاع دی ہے کہ نجی اداروں میں تعلیمی کارکنان نمایاں طور پر متاثر ہوئے ہیں ۔جبکہ عارضی معاہدوں پر رکھے گئے معلم اورمعاون عملہ سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔اس تمام صورتحال میں آج ( 24 جنوری) دنیا بھر میں تعلیم کا تیسرا بین الاقوامی دن ’’ کوویڈ 19 کی جنریشن کے لیے تعلیم کی بازیافت اور بحالی‘‘ کے عنوان سے منایا جارہا ہے۔تاکہ تعلیم کو کوویڈ کی وجہ سے درپیش اضافی چلینجوں سے نمٹا جایا جاسکے۔

تعلیم نہ صرف ایک بنیادی حق ہے بلکہ یہ ایک ایسا حق ہے جس کا براہراست اثر دوسرے تمام حقوقِ انسانی کے حصول پر پڑتا ہے۔ پاکستان جہاں تعلیم کا یہ حق 30 فیصد بچوں کو پہلے ہی حاصل نہیں۔ یعنی ملک کا ہر چوتھا بچہ کوویڈ 19 سے قبل بھی تعلیمی اداروں سے دور تھا۔پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرڈز میژرمنٹ سروے2018-19 کے مطابق ملک کے5 سے16 سال کی عمر کے23.55 فیصد بچے تو کبھی اسکول گئے ہی نہیں اور6.5 فیصداسکول چھوڑ چکے ہیں۔اب کویڈ 19 کے باعث کیا اس تعداد میں اضافہ ہوجائے گا؟ خصوصاً سرکاری تعلیمی اداروں کی نسبت نجی تعلیمی اداروں میں فیسوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے کیا مزید بچے اسکول سے دور ہوجائیں گے؟ کیونکہ نجی تعلیمی اداروں میں فیسوں کے بقایاجات کی عدم ادائیگی کی وجہ سے بچوں کو کلاسز میں بیٹھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

اُن کے امتحانات نہیں لیے جائیں گے ۔اُن کے نام اسکول سے کاٹ دیئے جائیں گے۔ کیونکہ اکثرنجی تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کی جانب سے والدین کو تواتر کے ساتھ ایسے میسجزموصول ہو رہے ہیں ۔ یہ وہ تلخ حقائق ہیں جنکا کوویڈ 19کی پہلی اور دوسری لہر کے دوران والدین کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اسکولوں میں موجود بچوں کے اس زبردستی کے ڈراپ آوٹ کا ذمہ دار کون۔۔۔ والدین یا اسکولوں کی انتظامیہ ؟ نجی اسکولوں کا موقف ہے کہ انہی فیسوں سے اُنھوں نے اپنے اسٹاف کو تنخواہیں دینی ہوتی ہیں اگر فیسیں نہیں ملیں گی تو وہ اسٹاف کو تنخواہیں کیسے دیں گے اسکول کی عمارت کا کرایہ کہاں سے ادا کریںگے۔والدین کا موقف ہے کہ جب نجی اسکولوں نے سروسز ہی فراہم نہیں کیں تو پھر فیسیں کس بات کی۔

بڑے نجی تعلیمی اداروں کو تو کوویڈ 19 کی پہلی اور دوسری لہرکے دوران مکمل فیسز ملتی رہیں جبکہ درمیانے اور چھوٹے نجی تعلیمی اداروں کو فیسز کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اکثرایسے نجی تعلیمی اداروں نے اپنے متعدد اساتذہ اور معاون عملے کو نوکریوں سے فارغ کردیا یا اُن کی تنخواہوں میں بڑی کٹوتی کردی۔

دوسری جانب جب کوویڈ 19 کی وجہ سے لوگ اپنی آمدن سے محروم ہوئے یا اُن کی آمدن میں کمی واقع ہوئی تو پھراُنھوں نے بچوں کی اسکول فیسز کی عدم ادائیگی کا مشکل فیصلہ کیا اوراس کے ساتھ ساتھ بچوں کے دیگر تعلیمی اخراجات بھی روک لیے۔ والدین کے اس عمل سے ڈراپ آوٹ کی شرح بڑھ سکتی ہے اور نئے داخلوں کی شرح میں بھی کمی آسکتی ہے۔

نجی اسکولوں نے والدین کے سروسز فراہم نہ کرنے کے اعتراض کو آن لائن کلاسز کے ذریعہ دور کرنے کی کسی حد تک کوشش کی ہے۔کوویڈ 19 کی پہلی اور دوسری لہر کے دوران تعلیمی اداروں کی جانب سے ہونے والی آن لائن کلاسز زکتنی موثر ہیں۔ یقینا اس کا تجربہ اکثر قارئین کو باخوبی ہوگا۔ لیکن ہمارے چند بنیادی زمینی حقائق اِن کی افادیت پر کئی سوال اٹھا رہے ہیں۔ مثلاً ڈیجیٹل2020 پاکستان نامی رپورٹ کے مطابق ملک کی صرف35 فیصد آبادی انٹر نیٹ استعمال کرتی ہے۔ پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے2017-18 بتاتا ہے کہ ملک کے صرف11.8 فیصد گھرانوںمیں انٹرنیٹ کنکشن دستیاب ہے۔

جبکہ15 فیصد گھروں میں کمپیوٹر موجود ہیں۔ہاں یہ ضرور ہے کہ ملک کے 94 فیصد گھروں میں موبائل فون ضرور موجود ہے۔لیکن (Newzoo)گلوبل موبائل مارکیٹ رپورٹ2019 کے مطابق پاکستان کی صرف 15.9 فیصد آبادی سمارٹ موبائل فون کی مالک ہے۔اب اگر کسی ایک گھر میں صرف ایک سمارٹ فون ہے ۔ جو زیادہ تر گھر کے سربراہ کے پاس ہوگا تو اُس کے گھر سے باہر ہونے کی صورت میں آن لائن کلاسز کیسے لی جائیں۔ یا گھر میں ایک سمارٹ فون ہے اور بچے زیادہ جو مختلف کلاسز میں ہیں تو پھر کیا کیاجائے۔

لہذا بچوں کو آن لائن کلاسز دلوانی ہیں تو پہلے ڈیجیٹل یوائسز لیں انٹر نیٹ کنکشن لیں اور بچوں کو کلاسز دلوائیں یعنی والدین پر اضافی مالی بوجھ۔ لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی ۔ ہمارے ملک کے اکثر علاقوں میں انٹرنیٹ کی کچھوا سپیڈ بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔اب ایک دوسرا پہلو ملاحظہ ہو کہ وہ اساتذہ جن کا آن لائن کلاسز کنڈکٹ کرنے کااس سے پہلے کوئی تجربہ ہی نہیں تھا اُنھیں بغیر کسی تربیت، رہنمائی اور وسائل کے یہ ذمہ داری سونپ دی گئی۔

اس تمام صورتحال میں حکومت کی جانب سے فاصلاتی تعلیم کے لیے ریڈیو اور ٹی وی کا استعمال بہت احسن اقدام ہے۔ اب نیا تعلیمی سال شروع ہونے کے نام پرنجی تعلیمی اداروں کی جانب سے فیسز کے علاوہ دیگر واجبات کے واچرز بھی والدین کو بھیجے جارہے  ہیں۔ ایک ملک گیر نیٹ ورک کے حامل درمیانہ درجہ کے نجی اسکول نے والدین کو اس ماہ  فیسز کے ساتھ ساتھ سالانہ فنڈ، اسٹیشنری چارجز پر مبنی واجبات کے واچرز بھی بھیجے ہیں جبکہ اگلے ماہ سیلبس کے چارجز بھی والدین سے وصول کیے جائیں گے۔والدین کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال کونسی اتنی تواتر سے کلاسز ہوئی ہیں جو سالانہ فنڈ اور اسٹیشنری چارجزاس بار پھر لیے جارہے ہیں اوربچوں کا سیلبس بھی تقریباً ویسے کا ویسا ہی ہے۔

اُس کا کیا کیا جائے؟اس تمام صورتحال کاہمارے تعلیمی معیار پر کیا اثر پڑے گا جو پہلے ہی کوئی اتنا زیادہ حوصلہ افزا نہیں کیونکہ ASER پاکستان کی جنوری2020 میں جاری شدہ انیول اسٹیٹس آف ایجوکیشن رپورٹ 2019 کے مطابق ملک کے دیہی اور شہری علاقوں میں پانچویں کلاس میں پڑھنے والے بچوں کا بالترتیب 59 اور70 فیصد اردو، سندھی یا پشتو میں کہانی پڑھ سکتے ہیں۔ اسی طرح شہروں کے پانچویں کلاس میں پڑھنے والے بچوںکا67 فیصداور دیہہ کے 55 فیصد پانچویں جماعت کے بچے دوسری جماعت کی سطح کی انگلش کا جملہ پڑھ سکتے ہیں۔ ریاضی کے حوالے سے معیار کی صورتحال یہ ہے پانچویں کلاس کے شہری طلبا کا 66 فیصد اور دیہی طلبا کا57 فیصد دو عدد کی تقسیم اور جمع کرسکتے ہیں۔

تعلیم میں نجی شعبہ کا کردار ہمارے ملک میں بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ہماری بڑھتی ہوئی آبادی کی تعلیمی ضروریات کی تکمیل اکیلے حکومت کے لیے ممکن نہیںاس کے ساتھ ساتھ سرکاری تعلیمی اداروں کی تنزلی کی شکار ساکھ نے ملک میں نجی تعلیمی اداروں کے فروغ کے لیے سازگار فضا فراہم کی ہے۔

جس کا حاصل یہ ہے کہ ملک میں 2007-08 سے2016-17 کے دوران تمام سطح کے نجی تعلیمی اداروں کی تعداد میں48 فیصد اضافہ ہوا جبکہ اس عرصہ کے دوران ملک میں سرکاری تعلیمی اداروں کی تعداد میں صرف 2 فیصد اضافہ ہوا۔اسی طرح نجی اداروںمیں داخل بچوں کی تعداد میں ایک عشرہ کے دوران 54 فیصد اضافہ ہوا اس کے برعکس سرکاری اداروں میں یہ اضافہ12 فیصد رہا۔ اوپر بیان کردہ دس سالوں کے دوران نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ کی تعداد میں 52 فیصد اضافہ جبکہ سرکاری اداروں میں یہ اضافہ 16.5 فیصد رہا۔ نیشنل ایجوکیشن منجمنٹ انفارمیشن سسٹم کی رپورٹ پاکستان ایجوکیشن اسٹیسٹکس2016-17 کے اعدادوشمار کے تجزیہ کہ مطابق ملک کے تمام سطح کے تعلیمی اداروں ( فاؤنڈیشنز کے اداروں کو نکال کر) کا 36 فیصدنجی شعبہ میں ہے۔

مڈل، ہائی، ہائیر سیکنڈری/ انٹر کالجزتک تعلیمی سطح کے حامل نجی اداروں کی تعداد سرکاری سے زائد ہے۔ ملک کے 65.5 فیصد مڈل اسکولز نجی تحویل میں کام کر رہے ہیں۔ 58.4 فیصد ہائی اسکولز اور 61 فیصدہائیر سیکنڈری /انٹر کالج نجی شعبہ میں مصروف ِ عمل  ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کے تمام سطح کے طالب علموں کا 38 فیصد نجی تعلیمی اداروں میں زیر تدریس ہیں۔ جبکہ ملک کے آدھے اساتذہ نجی اداروں میں فرائض ادا کررہے ہیں۔ملک میں مڈل،ہائی اور ہائیر سیکنڈری/ انٹر کالجز کی سطح پر اساتذہ کی تعداد کا زیادہ تناسب سرکاری اداروں کی نسبت نجی اداروں میں تدریسی ذمہ داریاں ادا کررہا ہے۔یعنی ملک کا ہر تیسرا تعلیمی ادارہ ، ہر تیسرا طالب علم اور ہر دوسرا استاد نجی شعبہ سے تعلق رکھتا ہے۔

ملک میں تعلیمی اداروں سے ڈراپ آوٹ کی وجوہات بہت پیچیدہ ہیں یہ صوبے سے صوبے یہاں تک کے ایک ضلع سے دوسرے ضلع تک بھی مختلف ہوسکتی ہیں۔ڈراپ آوٹ کے بارے میں ہونے والے مختلف تحقیقی مطالعات سے پتا چلتا ہے کہ غربت، اسکول کا فاصلہ، تعلیم کا ناقص معیار، سہولیات کی عدم دستیابی، غیرتربیت یافتہ اساتذہ، اساتذہ کی غیر حاضری، لڑکیوں کے اسکولوں میںخواتین اساتذہ کی عدم موجودگی، تدریس کے لیے استعمال کی جانے والی زبان، لڑکیوں کے اسکول میں سیکورٹی کا مسئلہ، کلاس رومز میں طلبا کی زیادہ تعداد، ناقص تدریسی نگرانی، ناخواندہ والدین، غربت ، صحت اور غذائیت کی ناقص حالت جیسے عوامل ڈراپ آوٹ کا باعث بنتے ہیں۔

ڈراپ آوٹ کی اصطلاح کا مطلب تعلیم کی کسی بھی مخصوص سطح یعنی پرائمری، مڈل اور ہائی اسکولوں کی تکمیل سے پہلے اسکول چھوڑ دیا جائے۔ اس کے علاوہ بچے اپنا شروع کردہ تعلیمی سال مکمل کرنے سے پہلے ہی تعلیمی ادارہ چھوڑ جائیں اورجس کلاس میں وہ پڑھ رہے ہوں اُس جماعت کے امتحانات میں شریک نہ ہوں اور کلاس پاس کرنے کا سرٹیفیکٹ حاصل نہ کریں۔یا یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ طلبا جو تعلیمی پروگرام مکمل ہونے سے پہلے کسی دوسرے اسکول میں منتقل ہوئے بغیر ،موت کے سوا کسی بھی وجہ سے اسکول چھوڑ دیں۔

کیا کوویڈ19 کی وجہ سے ملک کے تعلیمی اداروں سے واقعی ڈراپ آوٹ ہوسکتا ہے؟ یہ سوال جب ملک کے معروف ماہر تعلیم ڈاکٹر افتخار احمد بیگ کے سامنے رکھا گیا تو اُنھوں نے کہا کہ ’’ ابھی اس کے نتائج ہمارے سامنے نہیں ہیں۔ ہمارے پاس اس حوالے سے کوئی ڈیٹا موجود نہیں ہے کہ کوویڈ کی وجہ سے کتنے بچے اسکولوں سے چلے گئے یا نہیں گے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جو تو پبلک سیکٹر اسکولوں میں ہیں اُنھوں نے کیا جانا۔ اُن کا کوئی خرچہ نہیں ۔ جب اسکول کھلیں گے بچے چلیں جائیں گے۔

اِن اسکولوں کی انرولمنٹ پہلے ہی بہت کم ہے۔ جبکہ پرائیویٹ اسکولوں کی ڈراپ آوٹ اس لئے نہیں ہوگی کہ وہاں وہ ہی والدین بچے پڑھا رہے ہیں جو افورڈ کرتے ہیں۔ اس لیے اگر اسکول کھلے ہوں یا نا کھلے ہوں اِن کے لیے فیسیں دینا کوئی مسئلہ نہیں‘‘۔ کوویڈ19 سے ہمارا سرکاری تعلیمی شعبہ زیادہ متاثر ہوا ہے کہ نجی؟ اس سوال کے جواب میں اُن کا کہنا ہے کہ’’ مجھے دو نجی جامعات سے متعلقہ انتہائی ذمہ دار دوستوں نے بتایا ہے کہ ہمارا فیس ریکوری ریٹ عموماً 65 سے70 فیصد کے درمیان ہوتا ہے۔

لیکن کوویڈ19 کے دوران یہ ریٹ98 فیصد رہا۔ لیکن میں یہ کہنا چاہوں گا کہ کوویڈ میں یہ ضرور کیا گیا کہ کچھ نجی تعلیمی اداروںکے ملازمین کی تنخواہوں کو50 فیصد کم کردیا گیا۔حتیٰ کے چوکیدار اور مالی جو پہلے ہی بہت غریب ہوتے ہیں اُن کی تنخواہ میں بھی قابل ذکر کٹوتی کردی گئی۔ اور اِن کٹوتیوں سے جو پیسے بچائے گئے وہ اداروں نے اپنے کاموں پر لگائے۔ کیونکہ یہ ہمارے سرمایہ دار کا مزاج ہے کہ وہ موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ رہی بات سرکاری تعلیمی اداروں کی تو جو بچے کوویڈ سے پہلے اسکول جارہے تھے وہ کوویڈ کی پہلی لہر کے بعد بھی اسکولوں میں جارہے ہیں‘‘۔

COVID-19 وبائی مرض کے نتیجے میں کم از کم ایک مثبت چیز سامنے آئی ہے اور وہ اسکولوں کی اہمیت کا احساس ہے۔ چونکہ اسکول کی بندش کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کے ساتھ گھر میں کام کرنے کے لئے جدوجہد کررہے ہیں لہذا ایسے میں اسکولوں کا کردار معاشرے میں عوامی توجہ حاصل کرتا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ معاشی تناؤ نے لوگوں کو ایک بار پھر سرکاری اسکولوں کی جانب متوجہ کیا ہے۔ جس سے ہمارے پبلک سیکٹر اسکولز کی انرولمنٹ میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔