امریکا میں تبدیلی کے اثرات

ناصر الدین محمود  جمعـء 29 جنوری 2021
امریکا کی دو سوسالہ انتخابی تاریخ میں عوام کے ایک غلط فیصلے سے ملک کا تشخص بری طرح مجروح ہوا تھا

امریکا کی دو سوسالہ انتخابی تاریخ میں عوام کے ایک غلط فیصلے سے ملک کا تشخص بری طرح مجروح ہوا تھا

امریکا کی دو سوسالہ انتخابی تاریخ میں عوام کے ایک غلط فیصلے سے ملک کا تشخص بری طرح مجروح ہوا تھا، لیکن محض اگلے ہی انتخابات میں رائے دہندگان نے اپنی اس غلطی کا ازالہ کردیا۔ اب جوبائیڈن نے امریکا کے 46 ویں صدرکی حیثیت سے حلف اٹھا لیا ہے اور امریکی عوام کو عالمی سطح پر شرمندگی سے دوچارکرنے والے تنگ نظر صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے اقتدارکی مدت مکمل کرکے سرکاری رہائش گاہ وائٹ ہاؤس سے رخصت ہوگئے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے چار سالہ دورِ حکومت میں اپنی سفید فام نسل پرستی، مخالفین سے نفرت اور شدت پسند سوچ کی بناء پر دنیا کے سامنے امریکا کے لبرل، سیکولر اور جمہوری تشخص کو بری طرح نقصان پہنچایا۔ ان کے دور حکومت میں ایسے لرزہ خیز مواقعے بھی آئے کہ وہ امریکا کہ جو ساری دنیا کے لیے ایک آئیڈیل کی حیثیت رکھتا تھا، اسے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔

جوبائیڈن کے لیے یوں توکرنے کے بہت سے کام ہیں لیکن ان کی ترجیح یقیناً یہی ہوگی کہ وہ سب سے پہلے عالمی سطح پر امریکا پر لگے ان دھبوں کو صاف کریں، اس کے حقیقی تصورکو بحال کریں اور خود امریکی معاشرے سے خوف کا خاتمہ کرکے اپنے عوام کے اعتماد کو بحال کریں۔ بہرحال یہ امر ایک حقیقت ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی متعصبانہ سیاست کی بنا پر ایک تقسیم شدہ ، خوف کا شکار اور امریکی عوام میں خانہ جنگی جیسے جذبات چھوڑکرگئے ہیں۔

ایسے میں نومنتخب امریکی صدرکوکئی چیلنجزکا سامنا ہے اور یہ امر قابلِ اطمینان ہے کہ صدر جوبائیڈن نے بطور صدر اپنے پہلے ہی خطاب میں امریکی ریاست میں آئین کے دفاع ، سیاسی انتہا پسندی کا خاتمہ، معاشرے میں پھیلائی گئی نفرت اور سفید فام نسل پرستی کی بنیاد پر غیر فطری امتیازکی سوچ وفکرکو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے اقدامات اٹھانے کا عندیہ دیا ہے اورساتھ ہی ساتھ پوری امریکی عوام کے لیے آزادی اور انصاف کے یکساں ماحول پیدا کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔ صدر بائیڈن نے اپنے خطاب میں امریکی انتخابات میں اپنی کامیابی کو جمہوریت کی فتح قرار دیا ہے۔ دنیا اور اپنے اتحادیوں کے لیے ان کا پیغام بہت واضح ہے کہ امریکا اپنے اتحادیوں سے پیدا ہونے والی دوریوں کا خاتمہ کرے گا اور امن، ترقی اور سلامتی کے لیے ایک قابل اعتماد اتحادی ثابت ہو گا۔

نو منتخب صدر جوبائیڈن کے اقتدار میں آنے کے بعد امریکا کی اندرونی پالیسیوں میں بے پناہ تبدیلیوں کی توقع کی جارہی ہے، جس کا خود انھوں نے اظہار بھی کردیا ہے لیکن امریکا میں ہونے والی اس تبدیلی کے گہرے اثرات دنیا پر بھی مرتب ہونگے اور آج کی گلوبل دنیا میں یقینی طور پر ہمارا خطہ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن، پاکستان کے حوالے سے بہت اچھے جذبات رکھتے ہیں اور ماضی میں وہ پاک امریکا تعلقات میں بہتری کے لیے خدمات انجام دیتے رہے ہیں اسی بناء پر حکومت پاکستان نے انھیں ’’ ہلال پاکستان‘‘ کے دوسرے بڑے سول اعزاز سے نوازا تھا۔

وہ علاقائی استحکام کے لیے پاکستان کے جیو اسٹر ٹیجک اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اب یہ ہماری سیاسی قیادت اور خارجہ پالیسی کا امتحان ہوگا کہ ہم موجودہ امریکی قیادت کی تبدیلی سے کس حد تک اپنے قومی مفادات کے دفاع اور تحفظ کے لیے کیا فوائد حاصل کرسکتے ہیں؟ مزید یہ کہ خطہ میں اپنی جغرافیائی اہمیت کو ہم اپنے قومی معاشی استحکام کے لیے کس طرح بروئے کار لاتے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ اپوزیشن جماعتوں کو امریکا میں حکومت کی تبدیلی سے یہ توقعات پیدا ہوئی ہیں کہ وہ اب پاکستان میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لیے اپنا بھرپور اثرورسوخ استعمال کرے گی۔

اب پاکستان میں سول بالادستی اور آئین و پارلیمنٹ کے حق حکمرانی کے لیے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ PDM کے پلیٹ فارم سے چلائی جانے والی تحریک کو عالمی سطح پرکسی مخالفت یا مزاحمت کا سامنا نہیں ہو گا بلکہ اس سلسلے میں سول بالادستی کی تحریک کو عالمی حمایت حاصل رہے گی۔ یہ امید بے محل اور غیر منطقی بھی نہیں کیونکہ ماضی میں جب دنیا سردجنگ کا شکار تھی اور پاکستان اپنے محل وقوع کی وجہ سے امریکا کے لیے انتہائی اہم تھا اور اس کے بعد بھی جب دنیا عالمی دہشت گردی کے خلاف صف آراء تھی اور پاکستان اس جنگ میں عالمی امن کے لیے دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کے طور پر اہم اتحادی کی صورت میں دہشت گردوں کے خلاف برسرِ پیکار تھا۔

ان دونوں ادوار میں جب بھی امریکا میں ڈیموکریٹک پارٹی برسرِ اقتدار آئی ہے تو اس نے یقینی طور پر امریکا کے تمام مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ پاکستان میں آمریت کے مقابلے میں جمہوریت کی بحالی کی حمایت کی تھی۔ آج جب کہ دنیا نہ تو سرد جنگ کا شکار ہے اور نہ ہی اسے 2002 جیسے عالمی دہشت گردی کے خطرات لاحق ہیں لہٰذا ان حالات میں یہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ اب امریکا کہ جہاں ایک بار پھر ڈیموکریٹک پارٹی برسرِ اقتدار آچکی ہے تو اس صورت میں اب پاکستان میں حقیقی جمہوریت کی بحالی اور اس کے استحکام کے لیے چلائی جانے والی تحریک کو یقینی طور پر امریکا کی نومنتخب حکومت کی اخلاقی حمایت حاصل رہے گی۔

اب اگر اس تصورکو درست تسلیم کرلیا جائے تو پھر موجودہ حکومت جو پہلے ہی معاشی طور پر پاکستان کو بے پناہ قرضوں میں جکڑ چکی ہے، اسے مستقبل میں IMF اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے قرض کے حصول میں بہت دشواریوں کے سامنے کا امکان رہے گا۔ ایسے حالات میں کہ جب ہمارے کل قرضوں کا حجم ہماریGDP کے تقریباً برابر ہو چکا ہے، موجودہ حکومت کی ناتجربہ کاری اور کورونا وائرس کی وجہ سے معیشت دن بدن سکڑچکی ہے جس کی واضح مثال حکومت کی اپنے ہی مقررکیے گئے ٹیکس ریونیو کے اہداف حاصل کرنے میں مسلسل ناکامی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ دوسری جانب ملک میں بجلی،گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں اور اس کی لوڈشیڈنگ میں مسلسل اضافہ صنعتوں کی بندش کا سبب بن رہی ہے۔ صنعتیں بند ہونے سے جہاں ٹیکس ریونیو جمع کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے وہیں دوسری جانب معاشرے میں بے پناہ بیروزگاری اور منہگائی نے غربت میں ہولناک حد تک اضافہ بھی کر دیا ہے۔

ملک ایک طرف تو ایسے حالات سے دوچار ہے اور دوسری طرف موجودہ حکمرانوں نے آج کی اپوزیشن کے خلاف نفرت اور تعصب زدہ وہی لب ولہجہ اختیار کیا ہوا ہے جو ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے مخالف سیاسی نظریات کے حامل افراد کے خلاف اختیار کر رکھا تھا۔ اس غیر سیاسی آمرانہ اندازکی وجہ سے ملک شدید سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے اور حکومت کی کرپشن کے الزام کے نام پر اپوزیشن کو کچل دینے کی خواہش پر عملدرآمد کے لیے نیب کے اختیارات میں اضافے نے مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ دارکے لیے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے امکانات کو مزید محدود کردیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔