خُوش کلامی کے کمالات

راحیل گوہر  جمعـء 2 اپريل 2021
 ۔ نرم اور شائستہ اندازِ گفت گو مخاطَب کے دل میں انسان کی عزت اور قلبی لگاؤ کا باعث بنتا  فوٹو: فائل

۔ نرم اور شائستہ اندازِ گفت گو مخاطَب کے دل میں انسان کی عزت اور قلبی لگاؤ کا باعث بنتا فوٹو: فائل

انسان کا طرزِکلام اس کی شخصیت کا عکاس ہوتا ہے۔ نرم اور شائستہ اندازِ گفت گو مخاطَب کے دل میں انسان کی عزت اور قلبی لگاؤ کا باعث بنتا ہے جب کہ سخت کلامی اور درشت لہجہ انسان کی اخلاقی کج روی اور تربیت کی کمی کی واضح علامت ہے۔ معاشرتی زندگی میں اندازِ گفت گو کو بہت اہمیت حاصل ہے۔

قرآنِ حکیم میں سورہ الرحمن کی ابتداء ہی میں خلق الانسان کے ساتھ ہی علمہ البیان کے الفاظ بیان فرما کر انسان کو اخلاقی اور تمدنی زندگی کی تعلیم دے دی گئی۔ اس طرح تخلیق آدم کے ساتھ بیان کے وصف کو واضح کردیا گیا۔ اسی بناء پر انسان کو حیوان ناطق بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ یہی وہ نعمت خداوندی ہے جو انسان کو حیوان مطلق سے ممتاز کر تی ہے۔

نرم لب و لہجہ اتنا اعلیٰ انسانی وصف ہے کہ جب خالق کائنات نے اپنے رسول موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کو اپنا پیغام دے کر فرعون کے پاس بھیجا تو فرما یا کہ ’’جاؤ تم دونوں فرعون کے پاس کہ وہ سرکش ہوگیا ہے، اس سے نرمی کے ساتھ بات کر نا، شاید کہ و ہ نصیحت قبول کر لے یا ڈر جائے۔‘‘ (سورہ طٰہ) کیوں کہ انسان کی فطرت کا یہ خاصا ہے کہ وہ یا تو وعظ و نصیحت اور تلقین و حکمت سے راہِ راست پر آتا ہے یا پھر اپنے انجامِ بد کی وعید سے متاثر ہوتا ہے۔ اس لیے انسان کے فکر و عمل کو راست کرنے کے لیے پہلا کام افہام و تفہیم کی راہ اختیار کر نا ہے۔

اپنی بات اور اپنے مدعا کو موزوں ترین الفاظ میں ڈھال کر بیان کر نے کا سلیقہ جتنا زیادہ ہوگا اسی قدر تہذیب و شائستگی کا اظہار ہوگا اور معاشرتی و تمدنی زندگی میں انسان کو اپنے اعلیٰ مقاصد میں کام یابیوں کے حصول میں ممد و معاون ہوگا اور ایسا شخص ہر دل عزیز بھی ہو جائے گا۔

اسی وصف کو اجاگر کرنے ہوئے اﷲ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ سے ارشاد فرمایا: ’’(اے پیغمبرؐ) یہ اﷲ کی بڑی رحمت ہے کہ آپ ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگر کہیں تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گرد و پیش سے چھٹ جاتے۔‘‘

بلاشبہ اﷲ کی طرف سے انسان کو عطا کی ہوئی فہم و فراست، معاملہ فہمی، دُور اندیشی بہت عظیم نعمتیں ہیں تاہم ان اوصاف کریمہ کے ساتھ اگر انسان اپنے خیالات و نظریات کو خوش بیانی، شائستگی اور متوازن انداز میں پیش نہ کرسکے تو سننے والے پر وہ کوئی اچھا تأثر نہیں چھوڑتا اور اس طرح اس کی شخصیت بے وزن ہوجاتی ہے۔ انسانی معاشرے میں وہی لوگ اپنی جگہ بنا پاتے ہیں جن کی گفت گو میں رواداری، شگفتگی، نرمی اور خوش خلقی کا واضح اظہار ہوتا ہو۔

ارشاد ربانی کا مفہوم ہے: ’’لوگو! اچّھے طریقے سے بھلی بات کہو۔‘‘ اﷲ کے رسول ﷺ کا ارشاد مبارکہ ہے ’’کیا میں تمہیں بتاؤں کہ کون شخص آگ پر حرام ہے اور کس پر آگ حرام ہے، ہر اس شخص پر جو لوگوں سے قریب ہو، نرم ہو اور آسان ہو۔‘‘ (ترمذی باب الزہد)

گفت گو انسان کی شخصیت کی آئینہ دار ہے۔ ہم دراصل کسی شخص کے اخلاقی معیار، اس کی فکری تطہیر اور اس کے بلند خیالی کا اندازہ اس کے طرز گفت گو اور طرزِ تکلم سے ہی لگا تے ہیں۔ ہر دل عزیز ہونے کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ انسان اپنے مخاطَب کی بات کو صبر و تحمل سے سنے، کیوں کہ دوسرے کی بات کو غور و توجہ سے سننا اکثر لوگوں پر گراں گزرتا ہے، اور وہ بار بار قطع کلامی کر نے کے عادی ہوتے ہیں اور ان کی یہ عادت انہیں لوگوں کا گرویدہ بننے میں بہت بڑی رکاوٹ بنتی ہے۔

فحش گوئی یا عامیانہ گفت گو بھی انسان کے کر دار کو بے حیثیت بنا دیتی ہے ایسے شخص کو لوگ اپنی محفلوں میں شریک کرنے سے کترانے لگتے ہیں۔ رسول کریمؐ کے ارشاد کا مفہوم: ’’جو شخص اﷲ اور اس کے رسولؐ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ اچھی بات کرے ورنہ خاموش رہے۔‘‘ (البخاری)

گفتار کی پاکیزگی کو ہی کردار کی پاکیزگی کا معیار مانا گیا ہے۔ اور بیہودہ گوئی، یاوہ گوئی اور بازاری زبان کو ہمیشہ بُری نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ گفت گو کے ضمن میں یہ بھی تاکید کی گئی ہے کہ ہمیشہ مخاطَب کی ذہنی سطح اور اس علمی حیثیت کے مطابق گفت گو کرنی چاہیے۔ ایک عامیانہ سوچ رکھنے والے شخص سے علمی گفت گو کرنا اپنے وقت کو ضایع کر نے کے مترادف ہے۔ بات کرتے وقت مخاطَب کی ذہنی استعداد، فطری ذوق، عقائد و نظریات کے پورے شعور کے ساتھ بات چیت کرنا فہم و فراست کا تقاضا ہے۔ بات کرتے وقت غیر ضروری طوالت سے بھی گریز کرنا لازمی ہے۔

اس طرز عمل سے بھی انسان کی بات بے وقعت اور مخاطب کے لیے بے زاری کا باعث بن جاتی ہے اور پھر وہ پوری توجہ اور انہماک سے بات نہیں سنتا۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: ’’بہترین بات وہ ہے جو مختصر اور مدلل ہو۔‘‘ کہتے ہیں کہ جب علم بڑھتا ہے تو انسان کی گویائی کم ہونے لگتی ہے۔ یہی وجہ ہے انبیاء علیہم السلام، صحابۂ اکرام ؓ، صالحین، بزرگانِ دین اور مصلحین ملت سب کلام سے زیادہ عمل پر زور دیتے تھے۔ کم بولنا، کم سونا، کم کھانا اور کم ملنا اﷲ کے ولیوں کی صفات ہیں۔ چناں چہ انسان کو چاہیے کہ کم بولے اور جب بھی بولے تو لہجہ میں فروتنی، انکساری، نرمی اور نستعلیق طرز تکلم کو ملحوظ خاطر رکھے۔

سید سلیمان ندوی ؒ سیرت النبی ؐ کی جلد ششم میں لکھتے ہیں: ’’خُوش گوئی اور خوش کلامی آپس میں میل ملاپ پیدا کر تی ہے اور بد گوئی و بدکلامی پھوٹ پیدا کر تی ہے جو شیطان کا کام ہے اور وہ اس کے ذریعے سے لوگوں میں غصہ، نفرت، حسد اور نفاق کے بیج بوتا ہے، اس لیے اﷲ کے بندوں کو چا ہیے کہ نیک بات بولیں، نیک بات کہیں، اچھے لہجے میں کہیں اور نرمی سے کہیں کہ آپس میں میل ملاپ اور مہر و محبت پیدا ہو۔‘‘

رسول کریمؐ کے ارشاد مبارک کا مفہوم: ’’مسلمان نہ طعنہ دیتا ہے، نہ لعنت بھیجتا ہے، نہ بد زبانی اور فحش کلامی کرتا ہے۔‘‘

(صحیح بخاری، باب طیب الکلام)

رسول کریم ؐ نے فرمایا: ’’ اﷲ اور روزِ جزا پر یقین رکھنے کا یہ نتیجہ ہونا چاہیے کہ کلمۂ خیر کے سوا کچھ اور زبان سے نہ نکلے، کیوں کہ اﷲ اور قیامت پر ایمان رکھنا یہ بتاتا ہے جو کرے گا وہ بھرے گا، اگر تمہیں کوئی بُرا کہے تو ہو سکے تو چپ رہو کہ اس کی سزا آج نہیں تو کل اس کو مل کر رہے گی۔‘‘

دنیا میں زندگی تو سب ہی گزارتے ہیں، لیکن جو زندگی کو حسن آداب، تصنع و بناوٹ سے پاک، ظاہری اور باطنی پاکیزگی کے ساتھ ا ور زبان و کلام کی خوب صورتی کے ساتھ گزارتا ہے وہ انسانوں کی اس بھیڑ میں اپنا ایک نمایاں مقام بنا لیتا ہے اور ایسا انسان ہی اس دنیا سے جانے کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ زندگی تو تلخ کلامی، ترش روئی، توازن و اعتدال سے عاری، خوفِ خدا سے بے پروا، آخرت کی جواب دہی سے لاعلم رہ کر بھی گزر ہی جاتی ہے، تاہم یہ بے راہ روی کی زندگی نہ انسان کو دنیا میں ہی کوئی قابل ذکر مقام دیتی ہے اور نہ ازروئے قرآن و سنت یومِ آخر میں اسے کوئی بہتر زندگی دے سکے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔