- خیبر پختونخوا میں بارشوں اور لینڈ سلائیڈنگ سے ابتک 7 افراد جاں بحق
- ’’آپریشن مکمل ہوا! سفارتخانے کو نشانہ بنانے کے جواب میں اسرائیل پر حملہ کیا‘‘
- مشرق وسطیٰ میں جاری پیشرفت پر پاکستان کی گہری تشویش ہے، دفتر خارجہ
- کراچی میں 2 ہزار سے زائد موبائل فون چھیننے والا ڈاکو گرفتار
- چین کے تعاون سے ریلوے کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا فیصلہ
- عالمی بینک داسو ہائیڈرو پاور منصوبے کیلیے ایک ارب ڈالر قرض دیگا
- آئی ایم ایف سے نئے قرض کاحصول، پاکستانی وفد امریکا روانہ
- پاک نیوزی لینڈ سیریز؛ کیوی ٹیم پاکستان پہنچ گئی
- ٹی20 ورلڈکپ ٹرافی؛ پاکستان کب آئے گی؟
- دیپیندرا سنگھ کے ایک اوور میں 6 چھکے، دنیا کے تیسرے بیٹر
- ہیمسٹرنگ انجری، مچل اسٹارک نے آسٹریلیا واپسی کا فیصلہ کرلیا
- ایران کا اسرائیل پر حملہ؛ فلسطینیوں کا مسجد اقصیٰ کے باہر جشن
- ٹی 20 ورلڈکپ اینتھم، سپراسٹارز کی خدمات حاصل
- ڈاکوؤں نے دکانوں اور گھروں کے بعد مسجد کو بھی نہ بخشا
- کراچی کے مختلف علاقوں میں بارش سے موسم خوشگوار
- سعودی عرب کی ریکوڈک میں 1بلین ڈالر کی سرمایہ کاری جلد متوقع
- بچوں میں اسمارٹ فون کی لت کے متعلق خوفناک انکشاف
- داڑھی مونچھ چیمپیئن شپ، تین عالمی ریکارڈ قائم
- ایپل کی آئی فون صارفین کے لیے بڑی سہولت
- ایران کا اسرائیل پر حملہ، 300 سے زائد ڈرونز اور بیلسٹک میزائل فائر کردیے
زمین کو جنگلات کی ضرورت ہے
ایک ایسی تقریب جہاں ناصرف اپنی فیلڈ کے نامی گرامی موجود ہوں بلکہ ان میں سکھانے کا جذبہ بھی ہو تو کیا ہی کہنے۔ ایک ایسی ہی ورکشاپ جس کا دعوت نامہ ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کی جانب سے موصول ہوا۔
ماحول سے متعلق صحافیوں کی تعداد شاید ایک ہی ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ بڑھتے ہوئے ماحولیاتی اور موسمیاتی مسائل اور ان کو حل کرنے کی کوشش میں جٹے ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان اور معروف ماحولیاتی لکھاری شبینہ فراز نے اپنی کاوشوں میں فوٹو جرنلزم کو شامل کرکے اس ورکشاپ کو آٹھ چاند لگائے۔ موسم کے بدلتے تیور، مینگروز کی بحالی کی کوششوں، سندھ، بلوچستان میں ماحولیاتی مسائل کے حوالے سے ساتھیوں سے گفتگو، نادر موقع ثابت ہوئی۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے زیر اہتمام جاری دو روزہ ورکشاپ میں پاکستان کے موسمیاتی اور ماحولیاتی مسائل، ان کے تدارک، آئندہ درپیش خطرات کی پیش بندی پر ماہرین نے اظہارِ خیال کیا۔ اس موقع پر سندھ، بلوچستان سے تعلق رکھنے والے صحافیوں سمیت الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے نمائندوں نے شرکت کی۔ پاکستان کے متنوع ماحول اور اسے لاحق خطرات کی نشان دہی کرتے ہوئے ڈبلیو ڈبلیو ایف سندھ، بلوچستان کے ریجنل ہیڈ ڈاکٹر طاہر رشید، ماحولیاتی صحافی شبینہ فراز، موبائل جرنلزم کے ماہر ایاز امتیاز، سوشل میڈیا کے ٹرینر حسن ضیا، عرب نیوز کے نعمت اور معروف صحافی سدرہ ڈار اور دیگر نے خطاب کیا۔
ڈاکٹر طاہر رشید نے ماحولیات کے موضوع پر عوام میں آگاہی اور شعور بیدار کرنے میں صحافیوں کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے بتایا پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں قدرت نے متنوع نظامِ حیات بخشا، مگر پاکستان میں بے دردی سے شکار کرنا مشغلہ سمجھا جاتا ہے اور اس کی تصاویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں بہترین ماحولیاتی قوانین موجود ہیں، جن پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔
شبینہ فراز نے اس موقع پر بتایا کہ دنیا کے دوسرے بڑے انڈس ڈیلٹا میں سمندری پانی کے چڑھنے، زراعتی زمین کی عدم دستیابی، تیمر کے بے دریغ کاٹنے سے مچھلی اور جھینگوں کی معدومیت کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ تیمر کے درخت کو سمندری حیات کےلیے محفوظ پناہ گاہ مانا جاتا ہے۔ ماحولیاتی صحافت پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ یہ ایک صحافی کی ذمے داری ہے کہ اپنے اردگرد ماحول کے مسائل سے پوری طرح باخبر ہوکر رپوٹنگ کرے۔ پلاسٹک کو ایک خطرہ قرار دیتے ہونے انہوں نے کاغذ اور کپڑے کے بنے ہوئے بیگز کے استعمال پر زور دیا۔ انہوں نے اپنے پیشہ ورانہ تجربات بھی شیئر کیے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ترجمان سعید نے حاضرین کو بتایا کہ پاکستان میں کل ساڑھے چار لاکھ ہیکٹرز پر تیمر کے جنگلات موجود ہوا کرتے تھے۔ ایندھن کی خاطر ان کی لکڑیاں کاٹنے سے ان کی تعداد گھٹ کر محض پچاسی ہزار ہیکٹر رہ گئی تھی، مگر اب مقامی افراد کے تعاون سے ان کی تعداد ڈھائی لاکھ ہیکٹر ہوچکی ہے۔ اس سلسلے میں مقامی افراد کو پودے تیار کرنے کی تربیت فراہم کی جاتی ہے اور پھر ان سے وہ پودے خرید کر لگائے جاتے ہیں۔
اس موقع پر موبائل جرنلزم کے ماہر ایاز امتیاز خان نے صحافیوں کو آئندہ وقتوں میں موبائل جرنلزم کی اہمیت سے روشناس کرایا اور اس سلسلے میں کارآمد تکنیک اور ٹولز کے استعمال کی معلومات فراہم کیں۔ انہوں نے بتایا کہ زمانہ تیزی سے ڈیجیٹل ہورہا ہے جس کے نتیجے میں اطلاعات کی فراہمی محض خبروں تک محدود نہیں۔ سوشل میڈیا تک آسان رسائی اور استعمال کی بدولت اب ہر فرد خود ہی رائٹر، کیمرہ پرسن، ایڈیٹر، اینکر اور پبلشر کا کردار ادا کرسکتا ہے۔
ویٹ لینڈ مینگروز فاریسٹ کے انچارج عبدالرحمن نے بتایا کہ پاکستان میں ویٹ لینڈز کی بہت اہمیت ہے، اس کے پیچھے بیک واٹر چینل اور سامنے سمندر ہے۔ یہ پرندوں اور مختلف اقسام کے جانوروں کی آماج گاہ اور مسکن ہے۔ ورکشاپ کے دوسرے دن کے شرکا نے تیمر کی شجرکاری اور سرگرمی کے طور پر ماحولیات کے موضوع پر فوٹوجزنلزم کی تکنیک پر مبنی وڈیو کلپس بنا کر داد حاصل کی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔