زمین کو جنگلات کی ضرورت ہے

سعدیہ عبید خان  ہفتہ 10 اپريل 2021
پاکستان میں بہترین ماحولیاتی قوانین موجود ہیں، جن پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان میں بہترین ماحولیاتی قوانین موجود ہیں، جن پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ (فوٹو: فائل)

ایک ایسی تقریب جہاں ناصرف اپنی فیلڈ کے نامی گرامی موجود ہوں بلکہ ان میں سکھانے کا جذبہ بھی ہو تو کیا ہی کہنے۔ ایک ایسی ہی ورکشاپ جس کا دعوت نامہ ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کی جانب سے موصول ہوا۔

ماحول سے متعلق صحافیوں کی تعداد شاید ایک ہی ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ بڑھتے ہوئے ماحولیاتی اور موسمیاتی مسائل اور ان کو حل کرنے کی کوشش میں جٹے ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان اور معروف ماحولیاتی لکھاری شبینہ فراز نے اپنی کاوشوں میں فوٹو جرنلزم کو شامل کرکے اس ورکشاپ کو آٹھ چاند لگائے۔ موسم کے بدلتے تیور، مینگروز کی بحالی کی کوششوں، سندھ، بلوچستان میں ماحولیاتی مسائل کے حوالے سے ساتھیوں سے گفتگو، نادر موقع ثابت ہوئی۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے زیر اہتمام جاری دو روزہ ورکشاپ میں پاکستان کے موسمیاتی اور ماحولیاتی مسائل، ان کے تدارک، آئندہ درپیش خطرات کی پیش بندی پر ماہرین نے اظہارِ خیال کیا۔ اس موقع پر سندھ، بلوچستان سے تعلق رکھنے والے صحافیوں سمیت الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے نمائندوں نے شرکت کی۔ پاکستان کے متنوع ماحول اور اسے لاحق خطرات کی نشان دہی کرتے ہوئے ڈبلیو ڈبلیو ایف سندھ، بلوچستان کے ریجنل ہیڈ ڈاکٹر طاہر رشید، ماحولیاتی صحافی شبینہ فراز، موبائل جرنلزم کے ماہر ایاز امتیاز، سوشل میڈیا کے ٹرینر حسن ضیا، عرب نیوز کے نعمت اور معروف صحافی سدرہ ڈار اور دیگر نے خطاب کیا۔

ڈاکٹر طاہر رشید نے ماحولیات کے موضوع پر عوام میں آگاہی اور شعور بیدار کرنے میں صحافیوں کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے بتایا پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں قدرت نے متنوع نظامِ حیات بخشا، مگر پاکستان میں بے دردی سے شکار کرنا مشغلہ سمجھا جاتا ہے اور اس کی تصاویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں بہترین ماحولیاتی قوانین موجود ہیں، جن پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔

شبینہ فراز نے اس موقع پر بتایا کہ دنیا کے دوسرے بڑے انڈس ڈیلٹا میں سمندری پانی کے چڑھنے، زراعتی زمین کی عدم دستیابی، تیمر کے بے دریغ کاٹنے سے مچھلی اور جھینگوں کی معدومیت کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ تیمر کے درخت کو سمندری حیات کےلیے محفوظ پناہ گاہ مانا جاتا ہے۔ ماحولیاتی صحافت پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ یہ ایک صحافی کی ذمے داری ہے کہ اپنے اردگرد ماحول کے مسائل سے پوری طرح باخبر ہوکر رپوٹنگ کرے۔ پلاسٹک کو ایک خطرہ قرار دیتے ہونے انہوں نے کاغذ اور کپڑے کے بنے ہوئے بیگز کے استعمال پر زور دیا۔ انہوں نے اپنے پیشہ ورانہ تجربات بھی شیئر کیے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ترجمان سعید نے حاضرین کو بتایا کہ پاکستان میں کل ساڑھے چار لاکھ ہیکٹرز پر تیمر کے جنگلات موجود ہوا کرتے تھے۔ ایندھن کی خاطر ان کی لکڑیاں کاٹنے سے ان کی تعداد گھٹ کر محض پچاسی ہزار ہیکٹر رہ گئی تھی، مگر اب مقامی افراد کے تعاون سے ان کی تعداد ڈھائی لاکھ ہیکٹر ہوچکی ہے۔ اس سلسلے میں مقامی افراد کو پودے تیار کرنے کی تربیت فراہم کی جاتی ہے اور پھر ان سے وہ پودے خرید کر لگائے جاتے ہیں۔

اس موقع پر موبائل جرنلزم کے ماہر ایاز امتیاز خان نے صحافیوں کو آئندہ وقتوں میں موبائل جرنلزم کی اہمیت سے روشناس کرایا اور اس سلسلے میں کارآمد تکنیک اور ٹولز کے استعمال کی معلومات فراہم کیں۔ انہوں نے بتایا کہ زمانہ تیزی سے ڈیجیٹل ہورہا ہے جس کے نتیجے میں اطلاعات کی فراہمی محض خبروں تک محدود نہیں۔ سوشل میڈیا تک آسان رسائی اور استعمال کی بدولت اب ہر فرد خود ہی رائٹر، کیمرہ پرسن، ایڈیٹر، اینکر اور پبلشر کا کردار ادا کرسکتا ہے۔

ویٹ لینڈ مینگروز فاریسٹ کے انچارج عبدالرحمن نے بتایا کہ پاکستان میں ویٹ لینڈز کی بہت اہمیت ہے، اس کے پیچھے بیک واٹر چینل اور سامنے سمندر ہے۔ یہ پرندوں اور مختلف اقسام کے جانوروں کی آماج گاہ اور مسکن ہے۔ ورکشاپ کے دوسرے دن کے شرکا نے تیمر کی شجرکاری اور سرگرمی کے طور پر ماحولیات کے موضوع پر فوٹوجزنلزم کی تکنیک پر مبنی وڈیو کلپس بنا کر داد حاصل کی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔