پاکستان افغانستان میں امن کا داعی

غیر مستحکم افغانستان ہمارے لیے ایک بڑے خطرے سے کم نہیں ہے۔


April 16, 2021
غیر مستحکم افغانستان ہمارے لیے ایک بڑے خطرے سے کم نہیں ہے۔ (فوٹو : فائل)

پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور امریکی وزیرخارجہ کے درمیان ٹیلیفون پر رابطہ ہوا ہے ، آرمی چیف کا کہنا ہے کہ پاکستان ہمیشہ افغان امنگوں کے مطابق افغان مسئلہ کے حل کا حامی رہا ہے، تمام فریقین کے اتفاق رائے سے افغان عمل کی کامیابی کے متمنی ہیں، جب کہ امریکی وزیر خارجہ نے علاقائی امن واستحکام کے لیے پاکستانی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان،امریکا دوطرفہ تعلقات کو مزید وسعت دی جائے گی.

دوسری جانب امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ افغانستان میں گیارہ ستمبر سے فوجی انخلا شروع ہوجائے گا ۔ یعنی بیس برس بعد افغانستان میں موجود باقی امریکی فوجیوں کو واپس بلا لیا جائے گا۔

پاکستانی سپہ سالار جنرل قمرجاوید باجوہ نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ صائب ہیں اور دنیا کو یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی کہ پر امن افغانستان کی مدد سے علاقائی وسائل کے بہترین استعمال کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ خطے کے دیگرممالک کے درمیان تعاون واشتراک کی راہیں ہموار ہوں گی۔ افغانستان میں مستقل اور پائیدار امن خطے کی سلامتی اور ترقی وخوشحالی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

دنیا جانتی ہے کہ افغانستان میں امن کی اہمیت کے مد نظر پاکستان نے افغان طالبان اور امریکاکے درمیان سیاسی روابط کے لیے نتیجہ خیزکوششیں کیں۔ قطر میں افغان طالبان کے سیاسی دفتر کی تشکیل سے امریکا، چین، روس جیسے ممالک سے سیاسی روابط کے لیے پاکستان نے سنجیدہ کوششیں جاری رکھیں۔اس سلسلے میں پاکستان کی طرف سے افغانستان میں سیاسی حکومت کے قیام کے لیے بھی کوششیں کیں۔

بون کانفرنس میں پاکستان کے فعال کردار کی وجہ سے پیدا ہونے والے اتفاق رائے سے افغانستان میں عام انتخابات کا انعقاد ممکن ہوا اور کابل میں سیاسی حکومتوں کی تشکیل ہوئی۔ پاکستان نے افغانستان میں سیاسی حکومت کی تشکیل میں ٹھوس کردار ادا کیا اور اس کے ساتھ افغان طالبان اور عالمی برادری کے ذمے دار ممالک کے درمیان تعمیری مذاکرات کی راہ ہموار کی۔

یہ پاکستان کی مخلصانہ کوششوں ہی کا ثمر ہے کہ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان تاریخی امن معاہدہ طے پایا، اور اب امریکی صدرجوبائیڈن بھی اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ وہ جلد ہی امریکی فوجیوں کا افغانستان سے انخلا مکمل کرنا چاہتے ہیں ۔افغانستان جسے پہلے ہی دنیا کا سب سے پرتشدد ملک کہا جاتا ہے، وہاں کے شہریوں کو اب خانہ جنگی کا خدشہ ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ منصوبہ بندی کی جائے کہ جنگ کے بعد کے افغانستان کو پائیدار امن منتقل کرنے کے لیے دنیا کیا مدد کر سکتی ہے۔ افغان امن عمل کے تمام کرداروں کو خرابیاں دور کرنے کے لیے اپنا عمل دخل بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ افغان امن مذاکرات میں زبردستی نہیں ہونی چاہیے، تاہم تمام فریق کشیدگی کم کرنے میں کردار ادا کریں۔

پاکستان چار دہائیوں سے افغانستان میں پائیدار امن کے لیے موثر کردار ادا کرتا چلا آ رہا ہے۔ طویل جغرافیائی سرحدیں، مذہبی،سماجی، ثقافتی تعلق اور دفاعی حوالے سے دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات ایسے زمینی حقائق ہیں کہ جن کی بنیاد پر پاکستان برادر اسلامی ملک افغانستان کے ساتھ کھڑا ہے۔

سوویت یونین کی فوجی مداخلت، سوویت افواج کا انخلاء اور اس کے بعد پیداہونے والے غیر سنجیدہ حالات، طالبان کی حکومت سازی، نائن الیون سانحہ اور اتحادی افواج کی جار حانہ آمد سمیت کسی بھی قسم کے حالات میں پاکستان نے افغانستان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ چالیس سال سے زائد عرصے سے لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان میں قیام پذیر ہیں۔

نائن الیون سے قبل اور بعد ازاں غیر ملکی جنگجوؤں کی افغانستان آمد سے پاکستان کو امن وسلامتی کے حوالے سے سخت مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں جرأت مندانہ شرکت کے نتیجے میں پاکستان کو انتہا پسندی، عدم برداشت اور ان سب کے نتیجے میں ہولناک دہشت گردی کاسامنا کرنا پڑا ہے۔

دیہی افغانستان کی آمدن کے ایک بڑے حصے کا دارومدار پوست کی کاشت کاری، اس کی ہیروئن میں منتقلی اور اس کی اسمگلنگ پر ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بہت سے لوگ افیون اور ہیروئن کے عادی بن چکے ہیں، افغانستان اور پاکستان کے درمیان سب سے زیادہ اسمگل ہونے والی چیزوں میں سے ایک بھی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اس وقت ممکنہ طور پر 80 لاکھ منشیات کے عادی افراد پائے جاتے ہیں، اور اسمگلرز افسران اور مقامی بااثر افراد کو رشوتیں دے کر اسمگلنگ کرتے ہیں، اس وجہ سے گورننس میں بہتری لانے کی کوششوں کو ٹھیس پہنچتی ہے۔

غیر مستحکم افغانستان ہمارے لیے ایک بڑے خطرے سے کم نہیں ہے۔ مفاہمتی عمل کی غیرموجودگی یا پھر سنجیدہ غیر ملکی مدد کے بغیر کی جانے والی مفاہمتی کوششوں سے افغانستان کی بگڑتی صورتحال پر قابو نہیں پایا جاسکے گا اور طورخم اور چمن بارڈر کے ذریعے افغان باشندوں کی آمد کے سلسلے میں کئی گنا اضافہ ہوگا۔

ایک اندازے کے مطابق روزانہ چالیس ہزار افغان باشندے مذکورہ سرحدوں سے یہاں آتے ہیں۔ہم جہاں اپنی افغان سرحد کو باڑ لگا کر محفوظ بنانے کا کام بڑی حد انجام دے چکے ہیں، وہیں ہم نے افغانستان کے ساتھ ویسے ہی تعلقات قائم کرنے کی طرف قدم بھی بڑھایا ہے جیسے دنیا کے دیگر حصوں میں دو پڑوسی ممالک کے درمیان ہوتے ہیں۔

پاکستان کا افغان عوام کے لیے واضح پیغام ہے کہ ہمارا کوئی پسندیدہ نہیں اور نہ ہم آپ کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنا چاہتے ہیں۔ ہم افغانستان کی خود مختاری' سلامتی اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتے ہیں اور کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں اس بات پر یقین ہے کہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ صرف اور صرف افغان ہی کر سکتے ہیں۔افغان قیادت میں مفاہمتی عمل کے ذریعے ہی افغانستان میں پائیدار امن قائم ہوسکتا ہے، اس کے لیے افغانستان کے سیاسی حقائق اور جہتوں کو سمجھنا ہوگا۔

امید ہے کہ افغان حکومت اپنی حدود میں قائم غیر منظم ٹھکانوں کو بھی کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات کرے گی۔ پاکستان اور دیگر ملکوں میں پناہ گزیں لاکھوں افغانوں کی وطن واپسی کے لیے ماحول کو کس طرح سازگار بنایا جا سکتا ہے کیونکہ افغانستان کے علاوہ پاکستان سے بڑھ کر کسی نے افغان جنگ کی قیمت ادا نہیں کی اس لیے ضروری ہے کہ دوحہ مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے تمام فریق اپنا کلیدی کردار ادا کریں طالبان نے بھی اس سلسلے میں مثبت کردار ادا کیا ہے۔

بھارت نے افغانستان میں ایسے پنجے گاڑ رکھے ہیں کہ امن کی ہر کوشش ان کی وجہ سے کامیاب نہیں ہو پاتی۔ جب تک افغان عوام اور حکومت کو بیرونی سازشوں اور استعماری طاقتوں کی ریشہ دوانیوں سے نجات نہیں مل جاتی، خطے میں پائیدار امن کاقیام مشکوک رہے گا۔ امید ہے کہ افغان حکومت اپنی حدود میں قائم غیر منظم ٹھکانوں کو بھی کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات کرے گی۔

پاکستان اور دیگر ملکوں میں پناہ گزیں لاکھوں افغانوں کی وطن واپسی کے لیے ماحول کو کس طرح سازگار بنایا جا سکتا ہے کیونکہ افغانستان کے علاوہ پاکستان سے بڑھ کر کسی نے افغان جنگ کی قیمت ادا نہیں کی۔پاکستان اور افغانستان کی قیادتیں باہمی ہم آہنگی کی بنیاد پر آگے بڑھنے کاسلسلہ جاری رکھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ کابل میں مستقل سیاسی استحکام نہ ہو اور افغانستان میں موجود امن دشمن عناصر کا قلع قمع کر کے خطے کو امن وسلامتی کا گہوارہ نہ بنایا جا سکے۔

دریں اثنا ء آئی ایس پی آر کے مطابق جاپان کے سفیر متسودا کونینوری نے جی ایچ کیو راولپنڈی کا دورہ کیا اور آرمی چیف سے ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور کے علاوہ علاقائی سیکیورٹی اور باہمی تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ پاکستان جاپان کے ساتھ تعلقات کو خصوصی اہمیت دیتا ہے ، علاقائی استحکام کے لیے جاپان کی کوششیں لائق تحسین ہے ۔جاپان کے سفیر متسوداکونینوری کا کہنا تھا کہ خطے میں امن واستحکام کے لیے پاکستان کا کردار قابل قدر ہے ، افغان مفاہمتی عمل کے لیے پاکستان کی کوششیں لائق تحسین ہیں ۔

افغانستان کے پر امن ہونے کا دوسرا مطلب وسط ایشیا کے تمام ایشیائی خطوں اور ممالک سے محفوظ تجارتی تعلقات کی بحالی ہے ۔پاکستان کے حوالے سے بات کی جائے تو پر امن افغانستان بلوچستان سے ایران اور ترکی جب کہ خیبر پختونخوا اوربلوچستان سے وسط ایشیا، مشرقی یورپ اور ترکی تک پر امن جغرافیائی اتصال کی شکل میں یہاں آباد کروڑوں زندگیوں کو خوش حال اورترقی کی نعمت سے ہمکنار کرنے کاباعث بن سکتا ہے۔

عالمی تناظر میں افغانستان،چین اورروس جیسی عالمی طاقتوں کی جغرافیائی قربت کے باعث خصوصی اہمیت کا حامل ہے جب کہ حساس جغرافیائی حیثیت،معدنی وسائل اورمحل وقوع کے دیگر پہلو اس کی بین الاقوامی اہمیت کی دلیل ہیں، اس لیے علاقائی امن وسلامتی کاسوال ہو یا عالمی امن اورترقی کو درپیش چیلنج، افغان امن عمل کی کامیابی کے بغیر ممکن نہیں ہو سکے گا۔

پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو اس بات پر یقین ہے کہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ صرف اور صرف افغان ہی کر سکتے ہیں۔ افغان مالیتی اور افغان قیادت میں مفاہمتی عمل کے ذریعے ہی افغانستان میں پائیدار امن قائم ہوسکتا ہے اس کے لیے افغانستان کے سیاسی حقائق اور جہتوں کو سمجھنا ہوگا۔

مقبول خبریں