باغ ومقبرہ گل بہار بیگم

لاہور ہی میں اس نام سے ایک کوچہ اور ایک رہائشی علاقہ بھی موسوم ہیں۔ فوٹو : فائل

لاہور ہی میں اس نام سے ایک کوچہ اور ایک رہائشی علاقہ بھی موسوم ہیں۔ فوٹو : فائل

لاہور کے سب سے بڑے قبرستان میانی صاحب کے جنوبی کونے میں ایک احاطہ ہے جس کے اندر ایک مقبرہ ، چند قبریں اور دو منزلہ مرکزی دروازہ موجود ہے۔ یہ احاطہ گل بیگم باغ کہلاتا ہے۔ لاہور ہی میں اس نام سے ایک کوچہ اور ایک رہائشی علاقہ بھی موسوم ہیں۔

گل بہار یا لاہور کی ملکہ کون تھیں ؟؟

گل بہار جن کے نام پر یہ باغ ہے، پنجاب کے حکمران مہاراجا رنجیت سنگھ کی بیوی تھی جسے وہ امرتسر سے بیاہ کر لاہور لایا تھا۔ تاریخ میں انہیں ”ملکہ لاہور” کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے۔

مہاراجا رنجیت سنگھ اور گل بہار کا آمنا سامنا سب سے پہلے اس وقت ہوا جب گل بہار نے ایک شاہی محفل میں گاتے ہوئے مہاراجا کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ ان کی عمر محض اٹھارہ برس کے قریب تھی اور وہ پیشہ ور رقاصہ اور گائیکہ تھیں۔

مہاراجا اس نوعمر مُغنیہ کی آواز اور خوب صورتی کے سحر میں اس قدر ڈوب گیا کہ جب اسے یہ معلوم چلا کہ یہ مُغنیہ و رقاصہ امرتسر سے ہے تو وہ خود اس سے ملنے گیا اور انہیں محبوبہ بنا کہ رکھنے کی خواہش ظاہر کی۔

اقبال قیصر صاحب (محقق و مصنف) کے مطابق:

”گل بہار ایک مسلم گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں، اس لیے انھوں نے رنجیت سنگھ سے کہا کہ وہ محبوبہ بن کر نہیں رہ سکتیں لیکن انہیں مہاراجا کی بیوی بننا منظور ہے۔ مہاراجا رنجیت سنگھ اس قدر جذباتی ہوئے کہ انھوں نے یہ پیشکش قبول کرلی اور پنجاب کے مہاراجا نے گل بہار کے گھر والوں سے باقاعدہ طور پر ان کا ہاتھ مانگا۔”

سکھ مذہب کے بڑوں نے اس بات پر بہت شور مچایا اور غم و غصے کا اظہار کیا کہ آخر کو مہاراجہ ایک سکھ تھا اور گل بہار مسلمان، لیکن اس نے کسی کی نہ سنی۔ نتیجتاً مہاراجا کو اکال تخت (امرتسر میں واقع سکھوں کی مقدس عبادت گاہ جسے سکھ مذہب میں زمین پر خالصہ کی اعلیٰ ترین جائے حاکمیت تصور کیا جاتا ہے) بلا کر کوڑوں کی سزا سنائی گئی جو اس نے ہنسی خوشی قبول کی اور گل بہار کے لیے کوڑے کھائے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چوںکہ وہ ایک بڑی سلطنت کا مہاراجا تھا اور دوسری طرف اکال تخت کی سزا بھی پوری کرنا ضروری تھی، لہٰذا اس کے لیے خاص ریشم کا کوڑا بنایا گیا اور سزا پوری کی گئی۔

شادی اور مہاراجا کی موت؛

مہاراجا اور گل بہار کی شادی اکتوبر 1831 میں منعقد کی گئی۔ محقق اقبال قیصر کے مطابق اس شادی کا احوال مؤرخ سبحان رائے نے اپنی ایک کتاب ’خلاصہ تواریخ‘ میں تحریر کیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ ”مہاراجا رنجیت سنگھ نے باقاعدہ طور پر مہندی لگوائی، طلائی زیورات زیب تن کیے، اپنا شاہی لباس پہنا اور ہاتھی پر سوار ہوئے۔”

امرتسر کے رام باغ میں ایک بنگلہ تھا جس میں شادی کی تقریب منعقد ہونا تھی۔ اس بنگلے کو خالی کروا کر بند کردیا گیا اور کئی روز تک اس کی تزئین و آرائش کی گئی۔ اور اس کے بعد جو پہلا شخص اس میں داخل ہوا وہ گل بہار تھیں۔

سوہن لال سوری لکھتے ہیں کہ شادی کی تقریب کے لیے رنجیت سنگھ نے اپنے بیٹے کھڑک سنگھ کو لاہور بھیجا تاکہ وہ وہاں سے بروکیڈ کے بغیر پول والے ٹینٹ لائیں۔

اس تقریب میں فرانسیسی و برطانوی جنرل، بڑے سردار اور دیگر ریاستوں کے راجے مہاراجے بھی شریک ہوئے۔ شادی کی خاص بات یہ تھی کہ یہ سکھ و مسلم رسم و رواج کا مرکب تھی۔

مہاراجا نے یہ اعلان کر رکھا تھا کہ گل بہار بیگم کے عقائد کا احترام کیا جائے گا۔

یہ رانی مہاراجا کو اتنی عزیز تھی کہ وہ اور گل بہار بیگم اکثر ایک ہی ہاتھی پر سواری کیا کرتے تھے۔

فقیر وحید الدین کے مطابق مہاراجا گل بہار بیگم سے گنجلک مسائل پر مشورہ لیتے تھے۔ سوہن لال جو درباری روزنامچہ لکھتے تھے، کہتے ہیں کہ 14 ستمبر 1832 کو امرتسر میں دربار منعقد کرتے ہوئے رنجیت سنگھ نے گل بہار بیگم کی سفارش پر ان چند افراد کو معاف کر دیا جن کو ایک روز پہلے کسی جرم میں سزا سنا چکے تھے۔

مہاراجا نے لاہور کے رنگ محل چوک میں اپنی رانی کے لیے ایک محل بھی تعمیر کروایا جو آج لڑکیوں کا ایک اسکول ہے لیکن اب بھی حویلی گل بیگم کے نام سے جانا جاتا ہے۔

مہاراجا کے دور میں گل بیگم کافی زمین جائیداد کی مالکن تھیں۔ شادی کے آٹھ سال بعد مہاراجا کی موت ہوئی اور پنجاب انگریزوں کے قبضے میں چلا گیا جب کہ رنجیت سنگھ کی بیگم رانی جنداں (جانشین شہزادے دلیپ سنگھ کی ماں) کو ملک بدر کردیا گیا۔

سکھ سلطنت کے خاتمے کے بعد برطانوی حکومت نے مہاراجا کی بیوی ہونے کے ناتے گل بہار بیگم کو 1200 ماہوار کا وظیفہ جاری کیا جو اس دور میں کافی بڑی رقم تھی۔ اس کے علاوہ رنجیت سنگھ کی طرف سے ملی وراثتی جائیداد سے بھی کافی آمدنی وصول ہوجاتی تھی جس کی وہ خود نگرانی کرتی تھیں۔

گل بیگم کی اپنی تو کوئی اولاد نہ ہوئی لیکن انہوں نے ایک مسلمان لڑکے سردار خان کو اپنے بیٹے کے طور پر گود لے رکھا تھا، جسے ان کی چھوڑی ہوئی تمام جائیداد ترکے میں ملی۔

گل بیگم باغ؛

مہاراجا کے دیہانت کے سترہ سال بعد 1855 میں گل بہار بیگم نے میانی صاحب کے ایک کونے پر، مزنگ کے اس علاقے میں ایک باغ لگوایا، جس میں پانی کے تالاب، فوارے اور خوب صورت دالان بنائے گئے۔ اسی باغ کے جنوبی سرے پرانہوں نے اپنے لیے یہ مقبرہ نما عمارت بنوائی جہاں انہوں نے اپنی بقیہ زندگی گزار دی۔

اس مقبرے میں فریسکو کا ایسا شان دار کام کیا گیا تھا کہ لوگ حیران رہ گئے۔ اس عمارت کی سجاوٹ کے لیے کاری گروں نے مغل و سکھ آرٹ دونوں کے اشتراک سے ایک منفرد شاہ کار تخلیق کیا تھا جو اب بھی مقبرے کے اندر کہیں کہیں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس باغ کے دس سال بعد 1865 میں لاہور کی ملکہ بھی کوچ کرگئی جس کا مدفن یہی مقبرہ ٹھرا۔

ان کا بیٹا سردار خان بھی اپنی وفات کے بعد یہیں دفن ہوا۔

باغ کی موجودہ حالت؛

باغ کی موجودہ حالت ناقابلِ بیاں ہے۔ گزرے جاڑوں میں جب میں وہاں پہنچا تو مرکزی دروازہ بند ملا۔ اہلِ محلہ نے بھی کوئی خاص تعاون نہ کیا تو مجبوراً قبرستان سے متصل احاطے کی پچھلی دیوار پھلانگنی پڑی۔ عصر کے وقت جب اس ویرانے میں قدم رکھے تو ڈھلتے سورج کے ساتھ ایک عجیب سی پراسراریت اور خاموشی محسوس کی۔

مرکزی دروازے کی بات کریں (جو اس وقت بند تھا) تو اس کی مرکزی محراب کے اندرونی حصے کا کام اب بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اوپر موجود کمرے کی بیرونی کھڑکیوں کو اینٹوں سے بند کر دیا گیا ہے۔

اندر داخل ہوتے ہی بائیں ہاتھ پر سیڑھیاں دروازے کے اوپری کمرے کی طرف جاتی ہیں۔ لکڑی کے شہتیروں کی چھت، ٹوٹا پھوتا فرش، دیواروں میں بنے طاقچے اور بڑی کھڑکیوں والے اس کمرے میں جگہ جگہ رنگ برنگے آرٹ کے نمونوں اور دیوار سے لپٹی سرسبز بیلیں ایک عجیب منظر پیش کر رہے تھے۔ اس کمرے کی حالت کافی خستہ ہے اور بیشتر کھڑکیوں کو بند کیا جا چکا ہے۔ مقبرے کی جانب کھلنے والی قد آدم کھڑکیاں اب بھی کھلی ہیں۔

مرکزی دروازے کے دائیں جانب گل بیگم کا مقبرہ ہے جو مقفل رہتا ہے اور اس کے باہر کچھ قبریں موجود ہیں، شاید اہل علاقہ نے اپنے پیاروں کو یہاں دفنانا شروع کر دیا ہو۔

مقبرے کا ایک دروازہ اور تین عدد محرابیں ہیں جہاں اینٹوں کی جالیاں بنائی گئی ہیں۔ بیچ والی محراب کے اوپر ایک تختی لگی ہے جس پر فارسی عبارت میں گل بیگم اور سردار خان کا نام اب بھی پڑھا جا سکتا ہے۔

محرابوں کے اوپر بنے گل بوٹے و نقش و نگار اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں لیکن یہ اپنی آخری سانسیں لے رہے ہیں۔ مقبرے کے اندر ایک چبوترے پر سنگ مرمر سے بنی گل بیگم کی قبر موجود ہے۔ اندرونی محرابوں اور چھت پر فریسکو کا کام اب بھی کافی بہتر حالت میں ہے۔

مقبرے کے سامنے عین وسط میں ایک اور چھوٹا احاطہ ہے جس کی چار دیواری اور دروازے کی محرابی جگہ اب بھی قائم ہے۔ اس کے اندر جھاڑ کے بیچ میں ایک قبر موجود ہے، یہ سردار خان کی قبر ہے جس کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

جس جگہ یہ باغ موجود ہے اس کے ارد گرد سردار خان کا خاندان آج بھی آباد ہے۔ باغ گل بیگم بھی ان ہی کی ملکیت ہے اور اس علاقے کو محلہ گل بیگم کہا جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔