برکاتِ مکارمِ اخلاق

قیامت تک شریعت محمدیؐ پر عمل کیے بغیر اخروی کام یابی حاصل کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔فوٹو : فائل

قیامت تک شریعت محمدیؐ پر عمل کیے بغیر اخروی کام یابی حاصل کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔فوٹو : فائل

شریعت اسلامیہ میں جہاں انفرادی عبادت کرنے کی تاکید کی گئی ہے، وہیں سب کے ساتھ اچھا برتاؤ، نرمی، دوسروں کی خدمت، بڑوں کا احترام، اچھے اخلاق، تکبّر و حسد سے اجتناب، گھر والوں اور پڑوسیوں کو خوش رکھنے، تمام لوگوں کے حقوق کی ادائی کرنے اور سلام میں پہل کرنے کی خصوصی تعلیمات دی گئی ہیں، تاکہ ایک اچھا معاشرہ وجود میں آسکے۔

سیّدالرسل خاتم الانبیاء حضور اکرم ﷺ کو عالمی رسالت سے نوازا گیا، اب قیامت تک شریعت محمدیؐ پر عمل کیے بغیر اخروی کام یابی حاصل کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔

حضور اکرم ﷺ نے انقلاب برپا کرکے صرف تئیس سال میں اپنے قول و عمل سے ایسے معاشرے کو وجود بخشا جو قیامت تک انسانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ ہمیں اپنے معاشرہ کی برائیوں پر قابو پانے کے لیے حضور اکرم ﷺ کی کوشش سے وجود میں آئی صحابۂ کرامؓ کی جماعت کی زندگی کو ہی اختیار کرنا ہوگا۔

٭ تواضع و انکساری:

حضور اکرم ﷺ کے ارشادات گرامی کا مفہوم: ’’اﷲ تعالیٰ نے میری طرف وحی فرمائی ہے کہ تم تواضع (عاجزی و انکساری) اختیار کرو۔ یہاں تک کہ تم میں سے کوئی بھی دوسرے پر فخر نہ کرے اور نہ دوسرے پر زیادتی کرے۔‘‘ (مسلم) ’’کوئی صدقہ مال کو کم نہیں کرتا، اور جو جتنا زیادہ درگزر کرتا ہے اﷲ اس کی عزت اتنی ہی زیادہ بڑھاتے ہیں اور جس نے اﷲ کے لیے تواضع کی اﷲ نے اسے بلند کیا۔‘‘ (مسلم) ’’اﷲ تعالیٰ نے جس پیغمبرؑ کو بھی بھیجا ہے اس نے بکریاں چَرائیں۔ صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا: اور آپؐ نے بھی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جی ہاں! میں اہل مکہ کی بکریاں چند قیراط پر چَراتا تھا۔‘‘ (بخاری) امُ المومنین حضرت عائشہؓ سے پوچھا گیا کہ حضور اکرم ﷺ گھر میں کیا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ آپؐ گھر میں کام بھی کیا کرتے تھے۔ جب نماز کا وقت ہوتا تو آپ ﷺ فوراً نماز پڑھنے کے لیے تشریف لے جاتے۔‘‘ (بخاری)

دوسروں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کریں:

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک! اﷲ نرمی کرنے والے اور نرمی کو پسند کرنے والے ہیں، اور نرمی پر وہ کچھ دیتے ہیں جو سختی پر نہیں دیتے اور نہ ہی اس کے علاوہ کسی اور چیز پر دیتے ہیں۔‘‘ (مسلم) حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک اعرابی (دیہاتی) کھڑے ہوکر مسجد (کے صحن ) میں پیشاب کرنے لگا تو لوگوں نے اسے پکڑا۔ رسول اﷲ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو اور اس کے پیشاب پر پانی بہادو کیوں کہ تم نرمی کے لیے بھیجے گئے ہو، سختی کے لیے نہیں۔‘‘ (بخاری) آپؐ نے اس دیہاتی کو پیشاب کرتے وقت روکنے سے منع فرمایا تاکہ پیشاب بند کرانے کی وجہ سے اسے کوئی تکلیف نہ ہوجائے، لیکن پیشاب کے بعد اُس جگہ جہاں اُس نے پیشاب کیا تھا، وہاں آپ ﷺ نے پانی بہانے کا حکم دیا۔

٭ تکبّر اور حسد سے بچیں اور کسی شخص کو حقیر نہ سمجھیں:

اﷲ تعالیٰ کے ارشاد کا مفہوم: ’’زمین میں تُو اکڑ کر مت چل۔‘‘ اسی طرح فرمانِ الٰہی ہے: ’’اور تُو اپنے رخسار کو لوگوں کے لیے مت پُھلا اور زمین میں اکڑ کر نہ چل۔ بے شک اﷲ تعالیٰ ہر متکبر اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتے۔‘‘ (سورۃ لقمان)

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’وہ آدمی جنّت میں داخل نہ ہوگا جس کے دل میں ایک ذرّے کے برابر بھی تکبّر ہو۔ ایک شخص نے پوچھا بے شک آدمی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے خوب صورت ہوں اور اس کے جوتے خوب صورت ہوں۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک! اﷲ جمال والے ہیں اور جمال کو پسند کرتے ہیں۔ کِبر حق کو ٹھکرانے اور لوگوں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔ (مسلم) حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: آدمی تکبر کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ سرکشوں میں لکھا جاتا ہے، پس اس کو وہی سزا ملے گی جو ان کو ملے گی۔‘‘ (ترمذی)

٭ سب کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئیں:

اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں آخری نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: ’’بے شک! آپؐ اعلیٰ اخلاق پر ہیں۔‘‘ آپ ﷺ کے خادم خاص حضرت انسؓ جنہوں نے مدینہ منورہ میں نبی اکرم ﷺ کی دس سال خدمت فرمائی تھی، حضرت محمد مصطفی ﷺ کے متعلق فرماتے ہیں: ’’رسول اﷲ ﷺ لوگوں میں اخلاق کے لحاظ سے سب سے اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے۔‘‘ (بخاری و مسلم) اسی طرح فرمان رسول ﷺ ہے: ’’مؤمن کے میزان میں قیامت کے دن حسن اخلاق سے بڑھ کر کوئی چیز بھاری نہ ہوگی۔ بے شک اﷲ تعالیٰ بدکلامی اور بے ہودہ گوئی کرنے والے کو ناپسند کرتے ہیں۔‘‘ (ترمذی) رسول اﷲ ﷺ سے سوال کیا گیا۔

لوگوں کو جنت میں لے جانے والے اعمال کیا ہیں؟ ’’آپ ﷺ نے فرمایا: اﷲ کا ڈر اور حسن اخلاق۔ پھر آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ کون سی چیزیں لوگوں کو زیادہ آگ میں لے جانے والی ہیں؟ فرمایا: منہ اور شرم گاہ۔‘‘ (ترمذی) ’’کامل مؤمن وہی ہے جس کا اخلاق اچھا ہو۔ اور تم میں سب سے بہتر وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے بارے میں سب سے بہتر ہوں۔‘‘ (ترمذی) ’’بے شک مؤمن اپنے حسن اخلاق سے ہمیشہ روزہ رکھنے والے اور شب بیدار کا درجہ پالیتا ہے۔‘‘ (ابوداؤد)

سلام میں سبقت کریں:

انسان کا مزاج اﷲ تعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ وہ دوسرے انسان سے ملاقات کے وقت محبت کے پیغام پر مشتمل کوئی جملہ دوسرے شخص کو مانوس و خوش کرنے کے لیے کہتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ کی بعثت سے قبل زمانۂ جاہلیت میں بھی ملاقات کے وقت مبارک بادی کے کلمات کہنے کا رواج تھا۔ لیکن جب مذہب اسلام آیا تو اﷲ تعالیٰ کے حکم پر آپ ﷺ نے ملاقات کے وقت ’’السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ‘‘ کہنے کا طریقہ جاری فرمایا۔ اس کے معنی ہیں کہ تم پر اﷲ تعالیٰ کی رحمت اور سلامتی ہو۔ اِن کلمات سے نہ صرف محبت کا پیغام دوسرے کو پہنچتا ہے بل کہ یہ بہت جامع دعا بھی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ تم کو تمام بُری چیزوں، بلاؤں، آفتوں، مصیبتوں اور تکلیفوں سے محفوظ اور سلامت رکھے، پھر سلام کرنے والا سلامتی کی اس دعا کے ضمن میں گویا یہ بھی کہہ رہا ہے کہ تم خود بھی مجھ سے سلامت ہو میرے ہاتھ اور زبان کی تکلیف سے۔

قرآن و حدیث میں بار بار سلام کرنے کی تعلیم و ترغیب دی گئی ہے۔ اختصار کے مدنظر صرف دو آیات کا مفہوم پیش ہے: ’’پس جب تم گھروں میں داخل ہونے لگو تو اپنے نفسوں کو سلام کرو، یہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے تحفہ ہے مبارک اور پاکیزہ۔‘‘ (سورۃ النور) ’’جب تمہیں تحفۂ سلام دیا جائے تو تم اس کو سلام دو اُس سے بہتر یا اسی کو لوٹا دو۔‘‘ (سورۃ النساء) یعنی جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے بہتر الفاظ میں یا کم از کم انہی الفاظ کے ساتھ سلام کا جواب دو۔ سلام کی اہمیت اور فضیلت کے متعلق متعدد احادیث بھی کتب حدیث میں موجود ہیں۔ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’تم جنّت میں نہیں جاسکتے جب تک ایمان نہ لاؤ، اور تم ایمان والے نہیں جب تک آپس میں محبّت نہ کرو۔

کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتلا دوں کہ جب تم اس کو اختیار کرو تو باہمی محبّت پیدا ہوجائے۔ (اور وہ اہم بات یہ ہے کہ) اپنے درمیان سلام کو پھیلاؤ۔‘‘ (مسلم) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنت کے حصول کے لیے سلام کرنے میں سبقت کرنی چاہیے۔ ایک شخص نے رسول اﷲ ﷺ سے سوال کیا کہ اسلام کی کون سی بات سب سے اچھی ہے؟ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’تم کھانا کھلاؤ، اور دوسروں کو سلام کرو خواہ اُن کو پہنچانتے ہو یا نہیں۔‘‘ (بخاری و مسلم) یعنی ہر شخص کو سلام کرنا چاہیے۔

سلام کرنے کے بعض احکام: ’’السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ‘‘ اسلام میں سلام کرنے کی خاص اہمیت و فضیلت بیان کی گئی ہے۔ شریعت اسلامیہ میں سلام کرنا سنت ہے، مگر اس کا جواب دینا واجب ہے۔ سلام اور اس کا جواب اچھی نیت کے ساتھ سنت کے مطابق جمع کے صیغہ کے ساتھ دیا جائے، اگر چہ مخاطب ایک شخص ہی کیوں نہ ہو، تاکہ فرشتے (کراماً کاتبین ) جو ہر ایک کے ساتھ ہیں سلام میں مخاطب کے ساتھ شامل ہوں اور ان کو سلام کرنے کا بھی ثواب مل جائے، اور پھر جب وہ سلام کا جواب دیں تو ان کی دعا بھی ہمیں مل جائے۔ اسی طرح سوار شخص پیدل چلنے والے کو، پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور کم تعداد والے زیادہ تعداد والوں کو سلام کریں، یہ حکم صرف تواضع و انکساری کی طرف راغب کرنے کے لیے ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر یہ لوگ سلام نہ کریں تو ہم پہل بھی نہ کریں، بل کہ ہم سلام میں پہل کرکے زیادہ ثواب کے حق دار بن جائیں۔ نیز حدیث میں وارد ہے کہ سلام میں پہل کرنے والا (اس عمل کی وجہ سے) تکبّر سے پاک ہے ۔

(شعب الایمان) تکبّر کا بہترین علاج یہ بھی ہے کہ ہر ملنے والے مسلمان کو سلام کرنے میں سبقت کی جائے۔ نیز ہم آپس میں ملاقات کے وقت بات چیت اور گفت گُو سے قبل سلام کریں۔ عصر حاضر میں انٹرنیٹ اور موبائیل بھی ملاقات کا ایک ذریعہ ہے، اس لیے سلام کرنے کا جو حکم آپسی ملاقات کا ہے وہی فون کرتے اور اٹھاتے وقت کا ہوگا، لہٰذا السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ کہنا بہتر ہوگا۔

بعض مواقع اور حالتیں سلام سے مستثنیٰ ہیں، اس سلسلے میں فقہائیِ کرامؒ کی تشریحات کا خلاصہ یہ ہے کہ چند صورتوں اور حالتوں میں سلام نہیں کرنا چاہیے۔ جب کوئی اطاعت میں مشغول ہو، مثلاً نماز، ذکر، دعا، تلاوت، اذان و اقامت، خطبہ یا کسی دینی مجلس کے وقت۔ جب کوئی بشری حاجت میں مشغول ہو، مثلاً کھانے پینے، سونے اور پیشاب پاخانہ وغیرہ کے وقت۔ جب کوئی معصیت میں مشغول ہو مثلاً شراب پی رہا ہو، تو اس موقع پر سلام نہیں کرنا چاہیے۔

تاریخ شاہد ہے کہ اسلام مسلمانوں کا غیر مسلموں کے ساتھ اچھا برتاؤ اور اُن کے ساتھ نرمی کرنے کی وجہ سے پھیلا ہے، مگر عام طور پر آج ہمارے اندر یہ امتیازی صفت موجود نہیں ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چل کر جو باتیں ذکر کی گئی ہیں، انہیں اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں۔اﷲ تعالیٰ ہمیں سب کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرنے والا اور سلام میں پہل کرنے والا بنائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔