حکومت اور اپوزیشن کی محاذ آرائی کیا رنگ لائے گی ؟

رضا الرحمٰن  بدھ 30 جون 2021
17اپوزیشن ارکان اپنے خلاف حکومت کی جانب سے ایف آئی آر کے اندراج پر گرفتاریاں پیش کرنے پولیس اسٹیشن پہنچ گئے۔

17اپوزیشن ارکان اپنے خلاف حکومت کی جانب سے ایف آئی آر کے اندراج پر گرفتاریاں پیش کرنے پولیس اسٹیشن پہنچ گئے۔

 کوئٹہ:  بلوچستان اسمبلی نے مالی سال 2021-22 کا بجٹ منظور کر لیا ہے ۔ جبکہ اپوزیشن نے بجٹ اجلاس کا مکمل بائیکاٹ کیا، بلوچستان کا سیاسی ماحول اس وقت شدید گرم ہے۔

بجٹ اجلاس کے دوران تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر اور صوبائی وزیر تعلیم سردار یار محمد رند نے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال پر شدید تنقید کرتے ہوئے اپنی وزارت سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا اور بعد ازاں اپنا استعفیٰ گورنر بلوچستان جسٹس (ر) امان اللہ یاسین زئی کو بھیج دیا، اسی طرح حکومت اور متحدہ اپوزیشن ایف آئی آر اندراج اور اندراج نہ کرنے کے معاملے پر ایک د وسرے کے سامنے ڈٹ گئی ہیں۔

17اپوزیشن ارکان اپنے خلاف حکومت کی جانب سے ایف آئی آر کے اندراج پر گرفتاریاں پیش کرنے پولیس اسٹیشن پہنچ گئے جہاں حکومت نے انہیں گرفتار کرنے سے انکار کردیا جس کے بعد اپوزیشن ارکان تھانے کے اندر ہی دھرنا دے کر بیٹھ گئے ہیں اور ان کا یہ مطالبہ ہے کہ حکومت ان کے خلاف درج ایف آئی آر واپس لے۔

اس کے بعد وہ پولیس اسٹیشن سے باہر نکلیں گے  ورنہ انہیں گرفتار کیا جائے اس کے علاوہ متحدہ اپوزیشن نے بھی حکومت کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست دے رکھی ہے جس پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوا اور ایف آئی آر درج نہ ہونے پر عدالت سے رجوع کر لیا ہے ۔ جبکہ متحدہ اپوزیشن نے اسمبلی اجلاس طلب کرنے کے لئے ریکوزیشن اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرائی ہے ۔

بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر میر عبدالقدوس بزنجو نے بھی اس تمام صورتحال کے پیش نظر حکومت سے متحدہ اپوزیشن کے ارکان کے خلاف درج آیف آئی آر واپس لینے کے لئے رولنگ دے رکھی ہے اس رولنگ کے بعد حکومتی وزراء اور ارکان اسمبلی کا ایک وفد متحدہ اپوزیشن کے ارکان کے پاس پولیس اسٹیشن 4 مرتبہ آچکا ہے اور چوتھی مرتبہ دونوں فریقین میں مذاکرات میں کافی پیش رفت دکھائی دی جس میں اپوزیشن نے لچک دکھاتے ہوئے حکومتی وفد کے سامنے یہ بات رکھی کہ وہ ایف آئی آر واپس لینے کا نوٹیفیکیشن لیکر آجائیں تو وہ پولیس اسٹیشن سے نکل جائیں گے جس پر حکومتی وفد نے انہیں یہ یقین دہانی کرائی کہ وہ نوٹیفکیشن لیکر آدھے گھنٹے میں واپس آتے ہیں لیکن کئی گھنٹے گزرنے کے بعد جب حکومتی وفد واپس نہیں آیا تو متحدہ اپوزیشن نے بھی ایک پریس کانفرنس کے ذریعے حکومت کو یہ پیغام بھیجا کہ اب مزید مذاکرات نہیں ہوسکتے اور حکومت بے اختیار لوگوں پر مشتمل وفد کو ان کے پاس نہ بھیجے اپوزیشن اب پورے صوبے کو جام کرے گی اور احتجاج کا راستہ اپنائے گی ۔ دوسری جانب وزیراعلی بلوچستان جام کمال کے لہجے میں بھی سختی دیکھنے میں آرہی ہے۔

انہوں نے بلوچستان اسمبلی میں بجٹ کی منظوری کے بعد اظہار خیال کرتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ ایوان کا تقدس پامال کرنے پر اپوزیشن رہنما عوام سے معذرت کریں کیونکہ بلوچستان اسمبلی میں بجٹ اجلاس کے دوران جو کچھ ہوا وہ یاد رکھا جائے گا۔

اپوزیشن نے جو رویہ اپنا رکھا ہے وہ اگر حکومت کو بلیک میل کرنا چاہتی تو یہ ممکن نہیں ہم اپوزیشن کی بات سنتے ہیں لیکن اپوزیشن عوامی نمائندگی کا حق ادا نہیں کررہی اپوزیشن چاہتی ہے کہ ترقیاتی کام نہ ہوں بلوچستان کی ترقی ، ترقی یافتہ سیاسی سوچ سے ممکن ہے موجودہ صوبائی حکومت نے تین سال میں وہ کام کرکے دکھائے جو ماضی کی حکومتیں کئی برسوں میں نہیں کرسکیں ہم میڈیا  پر داد سمیٹنے نہیں بلکہ عوام کی جانب سے دی جانے والی ذمہ داری کو پورا کر رہے ہیں۔

اپوزیشن اسمبلی میں آئے اپنے عوام کے مسائل پر گفتگو کرے ہم ان کی بات سننے کو تیار ہیں ۔ سیاسی مبصرین کے مطابق حکومت اور اپوزیشن کے درمیان دوریاں بڑھتی نظر آرہی ہیں اور دونوں جانب سے جو تلخ لہجہ اپنایا جارہا ہے وہ اس بات کو تقویت دے رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں سیاسی کشمکش میں اضافہ ہوگا اور سیاسی ٹکراؤ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی مفاہمت کے لئے بعض سیاسی شخصیات کو اپنا کرداراداکرنا ہوگا۔

ان سیاسی مبصرین کے مطابق تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند کی جانب سے وزارت سے مستعفی ہونے اور وزیراعلیٰ جام کمال پر الزامات کو بھی سیاسی حلقوں میں کافی سنجیدگی سے لیا جارہا ہے جبکہ بعض اطراف سے مفاہمت کے لئے بھی کوششیں کی جا رہی یں اور یہ اطلاعات بھی آرہی ہیں کہ سردار یار محمد رند کو منانے کے لئے اسلام آباد کی بھی بعض اہم شخصیات متحرک ہوئی ہیں۔

سردار یار محمد رند جنہوں نے سینیٹ الیکشن کے دوران بھی سخت موقف اختیار کرتے ہوئے اپنی پارٹی کی قیادت اور وزیراعلیٰ جام کمال سے ناراضگی کا اظہار کیا تھا جنہیں بعد میں منالیا گیا تھا اور اس وقت بھی ان سے کچھ وعدے کئے گئے تھے لیکن بقول ان کے کہ ان وعدوں پر بھی کوئی عملدرآمد نہیں ہوسکا بلکہ ان کو دیوار سے لگانے کے لئے مزید ایسے اقدامات وزیراعلی جام کمال کی طرف سے اٹھائے گئے کہ انہوں نے مجبوراً انکی کابینہ سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا جس پر وہ شدید دباؤ کے باوجود ابھی تک ڈٹے ہوئے ہیں۔

سیاسی مبصرین کے مطابق بجٹ اجلاس کے دوران وزیراعلیٰ جام کمال اور ان کے اتحادیوں کی جانب سے اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو کے اسمبلی اجلاس میں متحدہ اپوزیشن کے حوالے سے پیش آنے والے واقعہ پر رویے اور کردار پر بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا اور یہ بات سیاسی حلقوں میں گردش کررہی تھی کہ اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو کو انکے عہدے سے ہٹایا جارہا ہے لیکن وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال نے گزشتہ دنوں کوئٹہ میں اخبارات کے ایڈیٹرز اور سینئر صحافیوں اور لکھاریوں سے ملاقات کے دوران اس بات کی سختی سے تردید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو جن کا تعلق ان کی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی سے ہے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا ارادہ نہیں۔

دوسری جانب پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے مرکزی سیکرٹری و صوبائی صدر اور سابق سینٹر لالا عثمان خان کاکڑ کی وفات بھی ایک معمہ بن گئی ہے پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی سمیت دیگر رہنماؤں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ لالا عثمان خان کاکڑ کو شہید کیا گیا ہے جس کے ان کے پاس ٹھوس ثبوت موجود ہیں لالا عثمان خان کاکڑ کو لاکھوں سوگواروں کی موجودگی میں مسلم باغ میں سپرد خاک کیا گیا۔

لالا عثمان کاکڑ کی سیاسی جدوجہد 42سال پر محیط ہے، انہوں نے جس انداز میں محکوم و مظلوم اقوام اور عوام کے حقوق کی آواز بلند کی وہ نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک کی تاریخ میں سنہرے حروف سے درج کی جائے گی بلکہ بلوچ، پشتون، ہزارہ آباد کار اور سندھی عوام نے جس والہانہ انداز میں کراچی سے مسلم باغ بلوچستان تک ان کی میت کا استقبال کیا ، میت پر گل پاشی کی جاتی رہی اور غم کا اظہار کیا وہ ان کی شخصیت کے ساتھ پیار و محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ عثمان خان کاکڑ ایک مدبر سیاستدان تھے اپنی حق گوئی کیوجہ سے وہ عوام میں بیحد مقبول تھے۔

انہوں نے بحیثیت سینیٹر سینٹ میں بلوچستان کی آواز کو موثر طور پر اٹھایا وہ کرپشن کے خلاف تھے ۔ ان کی وفات پشتون قوم کے لئے جہاں ایک بڑا سانحہ ہے وہاں ملک و صوبے میں بسنے والی تمام اقوام ان کی موت پر شدید رنج و غم کا اظہار کر رہی ہیں اور ہر فرد کی آنکھ اشکبار نظر آتی ہے ۔ گو کہ حکومت بلوچستان نے ان کی شہادت کے حوالے سے جوڈیشل انکوائری کرانے کا اعلان کیا ہے ۔ لیکن ملک و صوبے کے عوام اصل حقائق سامنے لانے کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں امید کی جاتی ہے کہ دیگر معاملات میں کی جانے والی جوڈیشل انکوائری کی رپورٹس کو منظر عام پر نہ لانے کی ماضی کی روایات کو بالا ئے طاق رکھ کر اس افسوسناک سانحہ کی رپورٹ اور اصل حقائق عوام کے سامنے لائے جائیں گے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔