کورونا ویکسین، لاک ڈاؤن، افواہیں اور تحفظات

شایان تمثیل  پير 2 اگست 2021
حکومت کے لایعنی اور متضاد فیصلوں نے اسے عوام میں مذاق بنا دیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

حکومت کے لایعنی اور متضاد فیصلوں نے اسے عوام میں مذاق بنا دیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

کورونا کی چوتھی لہر پاکستان میں اپنی تباہ کاریاں دکھا رہی ہے۔ کورونا سے ہلاکتوں کی شرح بھی روزانہ کی بنیاد پر گزشتہ سال کا ریکارڈ توڑ رہی ہے اور صورتحال یقیناً تشویشناک ہے۔

حکومت پاکستان اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے کورونا کی خراب ہوتی صورتحال سے نمٹنے اور پیشگی حفاظتی اقدامات کے تحت کئی فیصلے لیے جارہے ہیں، جن میں لاک ڈاؤن، اسمارٹ لاک ڈاؤن، احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد اور لازمی ویکسی نیشن جیسے فیصلے شامل ہیں۔

حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن کی پابندی اور لازمی ویکسین جیسے فیصلوں کو جہاں ایک جانب ستائشی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے وہیں عوام کی کثیر تعداد ان معاملات پر شدید تنقید کے ساتھ احتجاج بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ آج کے بلاگ میں ہم اپنی رائے کے ساتھ ان پیغامات اور افواہوں کو بھی ’’من و عن‘‘ پیش کریں گے جو سوشل میڈیا اور مختلف واٹس ایپ گروپ میں وائرل ہورہے ہیں۔

 

 

لاک ڈاؤن پر اعتراضات

کورونا کی صورتحال کے بعد عوام کی جانب سے جو سب سے بڑا اعتراض سامنے آیا ہے وہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے بار بار لاک ڈاؤن اور اسمارٹ لاک ڈاؤن کیے جانے پر ہے۔ واضح رہے کہ ’’لاک ڈاؤن‘‘ کی یہ اصطلاح ’’ماس کورنٹائن‘‘ کے متبادل کے طور پر استعمال کی جارہی ہے۔ چونکہ عوام میں یہی اصطلاح رائج ہوچکی ہے اس لیے ہم اسی ٹرم کا تذکرہ کرتے ہیں۔

لاک ڈاؤن صرف پاکستان میں ہی نہیں لگایا گیا بلکہ دنیا کی تمام ریاستیں، جہاں جہاں کورونا نے اپنے پر پھیلائے ہیں، وہاں کے عوام کو اس سنگین صورتحال سے گزرنا پڑا۔ جب پوری دنیا کو ہی ’’لاک ڈاؤن‘‘ کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہے تو آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستانی عوام لاک ڈاؤن کے فیصلوں پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں؟

اگر ’’پاکستانی لاک ڈاؤن‘‘ کا موازنہ دیگر ممالک کے لاک ڈاؤن سے کریں تو صورتحال واقعی مضحکہ خیز نظر آتی ہے، اور اس لاک ڈاؤن کی افادیت بھی غیر موثر محسوس ہوتی ہے۔ گزشتہ سال کورونا وبا کی ابتدا میں پاکستان میں سخت ترین لاک ڈاؤن لگایا گیا۔ عوام کو گھروں میں بند کردیا گیا اور پبلک ٹرانسپورٹ کی بھی مکمل بندش کردی گئی۔ اس طرح کا لاک ڈاؤن دنیا کے دیگر ممالک میں بھی لگایا گیا تھا اور اس کے مثبت اثرات بھی سامنے آئے۔ لیکن پاکستان میں جن دنوں یہ لاک ڈاؤن لگایا گیا اس وقت وبا کا ظہور ہی ہوا تھا۔ اگر درست حکمت عملی اپنائی جاتی تو اس قدر سخت لاک ڈاؤن کے بعد پاکستان سے اس وبا کا خاتمہ ہوجانا چاہیے تھا، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا۔

پاکستان میں لگائے جانے والے لاک ڈاؤن کو سیاسی رنگ بھی دیا گیا اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی باہمی چپقلش بھی ان فیصلوں میں واضح نظر آئی۔ جب صوبائی حکومتیں لاک ڈاؤن کا مشورہ دیتیں تو وفاقی حکومت انکار کردیتی، اور جب وفاق لاک ڈاؤن پر متفق ہوتا تو صوبائی حکومتیں مخالفت کرتیں۔ عوام کی جانب سے لاک ڈاؤن لاگو کرنے اور ختم کرنے کی مدت کو مذہبی رنگ دینے کا بھی اعتراض کیا گیا۔

حکومت کی جانب سے اسمارٹ لاک ڈاؤن اور محدود لاک ڈاؤن کی اصطلاحات نے بھی ان فیصلوں کو عوام میں مذاق بنا دیا۔ ’’لاک ڈاؤن یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا‘‘ جیسی باتیں بھی سننے میں آئیں۔ لاک ڈاؤن کی پابندیوں پر عوام کا اعتراض تھا کہ یہ کیسا کورونا وائرس ہے جو پورا ہفتہ صبح چھ سے شام چھ بجے تک سویا رہتا ہے اور شام چھ کے بعد اچانک جاگ جاتا ہے، اور ہفتہ اور اتوار کو مکمل آزاد ہوجاتا ہے۔ کیونکہ صوبائی حکومت کی جانب سے ہفتے کے پانچ دن صبح چھ سے شام چھ بجے تک کاروبار زندگی جاری رکھنے کی آزادی تھی، اور صرف دو دن مکمل پابندیاں عائد کی جارہی تھیں۔ اور اگر حقیقت کا جائزہ لیں تو اس دورانیے میں بھی لاک ڈاؤن اور پابندیوں پر سنجیدگی سے عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ عوام نے حکومت کے اس اقدام کو بھی پولیس کی کمائی کا ذریعہ قرار دے دیا اور اس پر کئی میمز بھی وائرل ہوئیں۔

پاکستان اور دنیا بھر میں کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی صورتحال کو مسلمانوں کے خلاف یہودیوں کی سازش قرار دینے کی پوسٹس بھی وائرل ہوئیں۔ حالیہ دنوں جو 31 اگست سے 8 اگست تک سندھ حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن لگایا گیا ہے اس کی مدت کو بھی عوام کے ایک حلقے کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا ہے۔ ترجمان حکومت سندھ مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن پر تنقید کرنے والے کراچی آکر اسپتالوں کی حالت دیکھیں۔ یقیناً کورونا کی خراب صورتحال سے انکار ممکن نہیں لیکن جس طرح کے فیصلے اور اقدامات سندھ حکومت کی جانب سے کئے جارہے ہیں، کیا وہ یہ صورتحال کنٹرول کرنے میں معاون ثابت ہوں گے؟

 

 

کورونا کی لازمی ویکسین پر اعتراضات

کورونا سے بچاؤ کےلیے حکومت کی جانب سے لازمی ویکسین کروائے جانے کا نوٹیفکیشن جاری ہوچکا ہے اور اب اس معاملے پر سختی بھی کی جارہی ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں روکنے اور عوام کی موبائل سمز بند کرنے کی دھمکیاں بھی سامنے ہیں۔ لیکن عوام کی جانب سے اس معاملے پر جو سب سے بڑا اعتراض ہے وہ یہ کہ کیا حکومت کے پاس عوام کو ویکسین لگوانے کےلیے زبردستی مجبور کرنے کا حق ہے؟ جبکہ یہ بات بھی ماہرین صحت کی جانب سے واضح کردی گئی ہے کہ ضروری نہیں یہ ویکسین لگوانے کے بعد آپ کورونا کا شکار نہ ہوں۔

وزیر صحت پنجاب یاسمین راشد کی گزشتہ سال کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہے جس میں وہ کورونا ویکسین کے مضر اثرات کا اعتراف اور خود اپنی ٹیم کے ویکسین نہ کروانے کا بھی اظہار کررہی ہیں۔ جب کہ عوام کے اپنی ذمے داری پر ویکسین لگوانے اور ’’کچھ غلط‘‘ ہونے کی صورت میں حکومت کی ذمے داری نہ ہونے کے حلف پر بھی دستخط کروانے کی خبریں سامنے آئی ہیں۔

یہاں ہم کچھ وائرل پوسٹس من و عن شامل کررہے ہیں اور اس کے بعد بات آگے بڑھاتے ہیں۔ واضح رہے کہ ان تمام پوسٹوں سے بلاگر کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

’’وزیراعلی مراد علی شاه صاحب ان سوالوں کا جواب دیں۔

(1) عوام کو ویکسین لگوانے میں اتنی زیادہ دلچسپی اور ذمے داری کا مظاہرہ کیوں کیا جارہا ہے؟

(2) کیا آپ اور آپ کی پوری فیملی نے ویکسی نیشن کروالی ہے۔

(3) کیا آپ کی کابینہ، سیکریٹری اور ماتحت لوگوں نے ویکسین لگوالی ہے؟

(4) صدر پاکستان، وزیراعظم، صوبائی اور وفاقی وزرا، اسپیکرز، سینیٹ کے ممبران، بیوروکریٹس، ان سب کو ویکسین لگ چکی ہے؟

(5) کیا زرداری، بلاول، فریال تالپور نے ویکسین لگوا لی؟ اور اگر ہاں تو پھر سب کے نادرا سرٹیفیکٹ پبلک کیے جائیں۔

(6) لاک ڈاؤن کا ڈرامہ رچا کر فی تھانہ روزانہ کتنی رقم جمع ہو جاتی ہے اور اس میں کون کون حصہ دار ہوتا ہے؟

یہ سوالات اس لیے کئے جارہے ہیں کہ تم لوگ اس قوم سے مخلص تو ہو نہیں، سارا بجٹ کھا جاتے ہو۔

ریجیکٹڈ/ ایکسپائرڈ ویکسین لگوانے پر حکومت نے کتنے ملین ڈالرز وصول کیے اور کس کس کو کتنا کتنا حصہ ملا؟

ویکسین کا کولڈ اسٹوریج ٹیمپریچر مینٹین نہ ہونے کی وجہ سے پہلے سے ایکٹو وائرس انسانوں میں گھسیڑا جارہا ہے، جس کی وجہ سے ویکسین لگوانے کے بعد لوگوں کی طبیعت خراب ہورہی ہے۔

جن لوگوں میں اینٹی باڈی بن چکے ہیں ان کو تو ویکسین کی ضرورت بھی نہیں ہے، پھر کیوں سب کو ویکسین کے لیے مجبور کیا جارہا ہے؟

ان تمام سوالات کے سچ سچ جواب دے دیں تو پھر ہم بھی ویکسین لگوالیں گے۔ جبکہ آپ جیسے حکمرانوں سے سچ کی ذرا بھی توقع نہیں۔
مگر کل بروز قیامت جواب تو دینا ہی ہوگا۔

کورونا ایک بیماری ہے مگر مملکتِ اشرافیہ میں اس پر سیاست ہورہی ہے۔ لاک ڈاؤن کو ڈرامہ بنا دیا گیا ہے، جس کا فائدہ ان حکمرانوں کو ہی ہے۔

جب صوبہ ڈالرز کےلیے کہتا ہے کہ کورونا ہے تو وفاق فوراً لاک ڈاؤن ختم کردیتا ہے اور جب وفاق کو ڈالر کمانے ہوتے ہیں تو وزیراعلیٰ سندھ اسکول اور پارک کھلوا دیتا ہے۔ پھر ایک میٹرک پاس نان پروفیشنل شخص میڈیا پر آکر کہہ دیتا ہے کہ مملکت نے ویکسین ٹرائل (جو جانوروں پر ہوتا ہے) کے بدلے دس ملین ڈالر کمائے تو پھر عام آدمی یہ سوچنے پر مجبود ہے کہ اس ملک میں کورونا پر صرف سیاست، ڈرامہ، انارکی، سازش، کاروبار/ تعلیم تباہ ہورہی ہے۔‘‘

 

ایک اور پوسٹ ملاحظہ کیجئے۔

’’جو حضرات ویکسین کے حق میں ہیں اور عوام کو اسے لگوانے کی ترغیب دے رہے ہیں، چاہے وہ طبی ماہرین ہوں یا علمی شخصیات ہوں یا دانشوران قوم ہوں، ان کی خدمت میں چند مختصر معروضات پیش خدمت ہیں:

1۔ یہ ثابت کیجیے کہ یہ مرض دیگر امراض کی طرح قدرتی ہے یا انسانوں کی سازشوں کے نتیجے میں مصنوعی ہے جسے حیاتیاتی جراثیمی ہتھیار بناکر نسل کشی کی جارہی ہے؟
اگر واقعی یہ وبا ہے تو وبا تو وہ ہوتی ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے گاؤں کے گاؤں شہر کے شہر برباد کردیتی ہے اور سب کچھ ختم کردیتی ہے۔ یہ پہلی لہر، پھر دوسری لہر، یہ سب کیا تماشا ہے؟ کسی گاؤں میں دس مرے، کسی میں چار، کسی گاؤں میں کوئی نہیں مرا۔ کیا وبا ایسی ہوتی ہے ؟ اور اگر آسمانی عذاب الٰہی ہے تو سب سے پہلے دنیا میں اسرائیل جو بدترین ظالموں اور کفار کا مسکن ہے، وہ کووڈ فری کیسے ہوگیا؟ کیا ساری دنیا میں عذاب الٰہی باقی رکھ کر اسرائیل پر سے عذاب الٰہی اٹھا لیا گیا؟

2۔ جس تندہی سے اقوام متحدہ کے (یہودیوں کے زیرِ اثر) ذیلی ادارے کے احکامات پر عملدرآمد کیا جارہا ہے اور اس کےلیے سرکاری مشینری کو استعمال کیا جارہا ہے، یہ خود اپنی جگہ ایک معمہ ہے۔

3۔ اس مرض کی حقیقت اور اس کی سنگینی واضح کریں اور اسے کس زمرہ میں رکھیں گے جبکہ یہ عام نزلہ اور فلو بخار سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور لاپرواہی سے نظام تنفس پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اسے مہلک اور جان لیوا ثابت کریں۔

4۔ جب اس کے مہلک و خطرناک اثرات ثابت ہی نہ ہوں گے تو ایک عام نزلہ اور فلو کےلیے ویکسین لگوانا کون سی عقلمندی ہے، جبکہ ویکسین بھی ایسی جسے کسی تجربہ گاہ میں مختلف تجربات کے مراحل سے گزارا ہی نہ گیا ہو؟

5۔ یہ ثابت کرنا ہوگا کہ کیا اس مرض کا علاج صرف ویکسین ہی ہے اور کوئی طریق علاج دنیا میں موجود نہیں؟

6۔ اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ویکسین لگوانے سے یہ مرض ضرور ختم ہوجائے گا؟ ایسا دنیا کے کسی ادارے یا محقق نے نہیں کہا ہے تو خوامخواہ جان خطرے میں کیوں ڈالیں اور کیوں ویکسین کے مہلک نتائج کو سر پر لیں؟

7۔ ویکسین کے جواز کےلیے اس حدیث نبویؐ کو بیان کیا جارہا ہے اور استدلال کیا جارہا ہے کہ مرض ہوجائے تو علاج کرو۔
مگر ویکسین تو مرض لاحق ہونے سے پہلے ہی لگوائی جارہی ہے۔ ساری دنیا کی سات ارب آبادی کو ویکسین لگوانا یہ کون سا علاج ہوا؟
جب انسان خود چل سکتا ہے تو عصا کیوں پکڑوا رہے ہو؟
کیا احتیاط اس کا نام ہے کہ انسان مرنے سے قبل ہی کفن خرید کر رکھ لے؟ کیا ایسے واقعے میں اس حدیث کا استعمال صحیح و درست ہے؟

پھر ان تمام دلائل و ثبوتوں کے ساتھ ایک وضاحتی تحریری خط عوام الناس کے نام جاری کرنا ہوگا کہ چاہے وہ کسی دارالافتاء کے مفتی ہوں یا کسی علاقہ کے قاضی یا امیر شریعت ہوں۔ یہ کوئی نماز، روزہ یا رویت ہلال کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ انسانوں کی جانوں سے متعلق ہے۔ اگر علمائے کرام کے کہنے پر ویکسین لگوا کر انسان مرے اور عورتیں بیوہ ہوئیں اور بچے یتیم ہوئے تو اس کا ذمے دار کون ہوگا؟
جبکہ ویکسین لگوانے سے نہ صرف اموات بلکہ مختلف امراض جیسے فالج، رعشہ، قوت سماعت کی کمی، بوڑھی عورتوں کو ماہواری کا شروع ہوجانا، ماہواری ختم ہوتے ہی پھر دوبارہ ماہواری کا آجانا، دماغ میں خون کا منجمد ہوجانا، مردوں کے عضو کا معطل یا کمزور پڑجانا وغیرہ۔ ایسے بہت سے سائیڈ ایفیکٹس آئے دن سامنے آرہے ہیں۔

ہم جانور نہیں ہیں کہ جس کا دل چاہے جو ٹیکہ چاہے لگا دے۔ اوپر سے دھمکیاں بھی دیں کہ اگر ویکسین نہ لگوائی تو ہم سم بند کر دیں گے، شناختی کارڈ بلاک کردیں گے۔
کسی دفتر میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔ یہ کیا بدماشی ہے؟
کس قانون اور اتھارٹی کے تحت یہ دھمکیاں پاکستانیوں کو دی جارہی ہیں اور ان کی پرسنل لائف میں دخل دیا جارہا ہے؟ آواز اٹھائیے… یہ ہماری، آپ کی زندگی اور نسلوں کا معاملہ ہے۔‘‘

اوپر پیش کی گئی پوسٹوں سے بلاگر کا اتفاق ہو یا نہ ہو، لیکن چونکہ یہ عوامی آرا بہت تیزی سے وائرل ہورہی ہیں، اس لیے قارئین کےلیے اس بلاگ میں ان باتوں کو بھی شامل کرلیا گیا ہے۔ کیا حکومتی زعما ان سوالوں کے جواب دے کر عوام کو مطمئن کریں گے یا عوامی رائے کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی ہی چلانے کا وتیرہ جاری رہے گا؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

Shayan Tamseel

شایان تمثیل

بلاگر کوچہ صحافت کے پرانے مکین ہیں اور اپنے قلمی نام سے نفسیات وما بعد النفسیات کے موضوعات پر ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ معاشرت، انسانی رویوں اور نفسانی الجھنوں جیسے پیچیدہ موضوعات پر زیادہ خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ صحافت اور ٹیچنگ کے علاوہ سوشل ورک میں بھی مصروف رہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔