مینار پاکستان کا شرم ناک واقعہ اور ہمارے نوجوان

حامد الرحمان  جمعـء 20 اگست 2021
اگر قانون سخت کردیا جائے تو ایسے شرم ناک واقعات کی روک تھام ممکن ہے۔ (فوٹو: فائل)

اگر قانون سخت کردیا جائے تو ایسے شرم ناک واقعات کی روک تھام ممکن ہے۔ (فوٹو: فائل)

ایک روز کام سے جارہا تھا کہ راستے میں مخالف سمت سے چادر میں لپٹی لڑکی آتی دکھائی دی۔ اس کے عقب سے ایک مرد موٹرسائیکل پر آرہا تھا۔ وہ شخص کوئی نوجوان لڑکا نہیں بلکہ پختہ عمر کا مرد تھا، جس کے ساتھ اس کا بچہ بھی بیٹھا تھا۔ اس کے باوجود وہ خاتون کے پاس سے گزرتے ہوئے مڑا اور گھورتے ہوئے گزر گیا۔ شاید کوئی جملے بھی کسا تھا۔

مینار پاکستان پر خاتون کے ساتھ ہجوم کی ہراسانی نے ہماری اخلاقی بدحالی کو عیاں کردیا ہے کہ ہمارا معاشرہ اخلاقی پستی میں کس حد تک گرگیا ہے۔

عام مشاہدہ ہے کہ کوئی خاتون جارہی ہوتی ہے تو راستے میں مرد اسے گھورنا شروع کردیتے ہیں، جن میں سے کئی تو اس وقت تک گھورتے رہتے ہیں جب تک وہ بے چاری نظروں سے اوجھل نہیں ہوجاتی۔ روزگار یا کسی بھی ضرورت کے تحت گھر سے باہر نکلنے والی خواتین کو ہمارے ان معاشرتی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسٹاپ پر بس کے انتظار میں کھڑی خاتون ہو تو اسے بھی کئی غلیظ نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کئی مرد تو اس کے پاس رک کر اسے لفٹ دینے کے بہانے ہراساں کرتے ہیں۔

اسی طرح کسی مرد کے ساتھ موٹرسائیکل پر پیچھے بیٹھے کوئی خاتون جارہی ہو تب بھی نوجوان اس کے دائیں بائیں قریب سے اپنی اپنی موٹرسائیکل گزار کر تنگ کرتے ہیں۔ خواتین سے سلوک صرف گھورنے تک محدود نہیں بلکہ چھیڑخانی بھی کی جاتی ہے۔ خبرناموں میں جنسی زیادتی اور دست درازی کی خبریں آئے روز کا معمول بن چکی ہیں۔

کسی ملک کی آبادی میں نوجوانوں کی اکثریت ہونا ایک نعمت ہے، لیکن جس طرح پاکستان وسائل سے مالا مال ہوتے ہوئے بھی ایک غریب ملک ہے، اسی طرح آبادی میں نوجوانوں کی اکثریت ہوتے ہوئے بھی یہ سرمایہ ہمیں فائدہ نہیں دے رہا اور ہمارے نوجوان معاشرے کے مفید شہری نہیں بن رہے۔

اس کی وجہ یہی اخلاقی پستی اور زبوں حالی ہے۔ حدیث ہے کہ جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو۔ جب انسان میں شرم و حیا ختم ہوجاتی ہے تو وہ کسی کام کا نہیں رہتا بلکہ الٹا نقصان دہ بن جاتا ہے۔ اخلاقی پستی کی مثال ایک نشے کی مانند ہے جس کی لت کسی کو لگ جائے تو وہ بے کار ہوجاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بگاڑ یک دم نہیں ہوا بلکہ

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

یہ برسوں سے ہمارے معاشرے پر ہونے والی غیر اخلاقی بوچھاڑ کا نتیجہ ہے، جس کے مہلک مضمرات اب سامنے آرہے ہیں۔ ایک کے بعد ایک شرم ناک واقعات سامنے آرہے ہیں۔

اور یہ کہنا غلط ہوگا کہ صرف لڑکے ہی اخلاقی خرابی کا شکار ہیں، بلکہ اس خرابی میں مرد ہو یا عورت، جنس کی کوئی قید نہیں۔ زیادہ تر لڑکے لڑکیوں کے دماغوں پر ہیرو ہیروئن بننے اور عشق و عاشقی کا بھوت سوار ہوتا ہے۔

اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب مسلسل آپ کو ایک ہی پیغام دیا جارہا ہو۔ آپ کی فلموں، ڈراموں، انٹرنیٹ، رسائل، ڈائجسٹ، تقریباً سب میں کہانی کا ایک ہی موضوع ہوتا ہے، عشق، عاشقی، محبت۔ تو پھر اس کا لامحالہ نتیجہ یہی نکلے گا کہ لوگوں کے حواس پر مخالف جنس کو اپنی طرف راغب کرنا ہی سوار رہے گا۔ کم ہی نوجوانوں کی ترجیح تعلیم، ترقی، ملک و قوم کی خدمت ہوگی۔

جب معاشرے میں فحش، مخرب الاخلاق مواد کی بھرمار ہوگی تو یہی نتائج برآمد ہوں گے جس کی جھلک 14 اگست کے مبارک دن مینار پاکستان کے مقدس مقام پر دیکھی گئی۔ ٹک ٹاک ویڈیوز دیکھ لیجئے، نوجوانوں کی کیا مصروفیات اور مشغلے ہیں، اندازہ ہوجائے گا۔

مینار پاکستان واقعے میں بہت سے لوگ سازشی نظریات کا پرچار کررہے ہیں کہ متاثرہ لڑکی نے خود ہی اپنے پرستاروں کو سیلفی کےلیے بلاکر سستی شہرت کےلیے یہ کام کیا ہے۔ لیکن اس بات میں کتنی حقیقت ہے، اس کا فیصلہ تو اس واقعے کی شفاف تحقیقات کے بعد ہی کیا جاسکتا ہے۔ لیکن فی الحال اس طرح کی باتیں الٹا مظلوم کو قصوروار قرار دینے کے مترادف ہیں۔

آپ عائشہ اکرام کی کردارکشی کو چھوڑیے۔ کیا آپ اس حقیقت سے بھی نظریں چرائیں گے کہ ملک میں بچوں سے جنسی زیادتی کے کتنے زیادہ واقعات پیش آرہے ہیں؟ کیا اس میں بھی کسی بچے کا قصور ہوتا ہے؟ اس اخلاقی پستی سے مسجد و مدرسہ تک محفوظ نہیں اور افسوس کی بات ہے کہ جنہوں نے معاشرے کو سدھارنا تھا وہ خود بگاڑ کا شکار ہوگئے۔ طالب علم سے بدفعلی کے واقعے میں گرفتار مفتی عزیز کا کیس ہمارے سامنے ہے۔

مینار پاکستان واقعہ اس بات کی غمازی ہے کہ ہمارا معاشرہ، والدین، اساتذہ، تعلیمی نظام سب کے سب اپنے بچوں کی تربیت میں ناکام ہوچکے ہیں۔

اس کا حل کیا ہے؟ اس کے دو حل ہیں۔ ایک یہ آپ اخلاق بہتر کریں اور فحاشی کے سیلاب کو روکیں۔ بے حیائی پھیلانے والے تمام راستے بند کریں۔ دوسرا قانون اور اس پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔

لیکن مغربی سوچ کے حامل سیکولر اور لبرل لوگ بے حیائی اور فحاشی پر اعتراض کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کی قدریں مغربی ممالک سے آتی ہیں۔ ان کے نزدیک رضامندی سے زنا جائز ہے، لیکن بالجبر ناجائز ہے۔ جب کہ اسلام میں اور فطرت میں زنا بالرضا ہو یا زنا بالجبر دونوں ناجائز اور قابل سزا ہیں۔

نبیؐ جس معاشرے میں تشریف لائے تھے اس کا بھی یہی حال تھا کہ اخلاقیات سے عاری تھا۔ نبیؐ نے اپنی دعوت سے ان کے اخلاق بدل دیے اور معاشرے کی کایا پلٹ گئی۔ لوگ محض قانون نہیں بلکہ خوف خدا کے باعث غلط کاموں سے باز رہتے اور اچھے کام کرتے تھے۔ پھر یہ عالم ہوا کہ ہر شہری کی جان، مال، عزت محفوظ ہوگئی اور امن قائم ہوگیا۔

اسی طرح اگر قانون سخت کردیا جائے تو ہی ایسے شرم ناک واقعات کی روک تھام ممکن ہے۔ مثلا دبئی میں بے حیائی ہے، مغربی ممالک کے سیاح نیم برہنہ حالت میں بھی گھومتے ہیں لیکن وہاں ہمارے پاکستانی نوجوانوں کی مجال نہیں ہوتی کہ کسی کو ہاتھ بھی لگائیں۔ اس کی وجہ قانون اور سزا کا ڈر ہے۔

لہٰذا معاشرے کی اخلاقی قدروں کو بہتر بنایا جائے۔ بے حیائی کے سیلاب کے آگے بند باندھا جائے اور قانون پر عمل درآمد یقینی بناکر ہراسانی کے واقعات کی روک تھام کی جاسکتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔