طالبان اور معاشی چیلنجز

مزمل سہروردی  ہفتہ 21 اگست 2021
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

مغربی ممالک اور بالخصوص امریکا طالبان کی حکومت کو فوری تسلیم نہیں کر رہے۔ ایسے اشارے موجود ہیں کہ طالبان امریکی مدد سے برسراقتدار آئے ہیں۔ لیکن ابھی امریکا اور اس کے اتحادی طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے اور اسے ایک قانونی حکومت ماننے کے لیے تیار نظر نہیں آرہے ہیں۔

اسی لیے امریکا نے طالبان کے ساتھ دوحہ معاہدہ اور دیگر تعاون کرنے کے باوجود طالبان رہنماؤں کو ابھی دہشت گردوں کی لسٹ سے نہیں نکالا ہے۔ اسی طرح اقوام متحدہ نے بھی انھیں ابھی تک دہشت گردوں کی لسٹ سے نہیں نکالا ہے۔ اسی لیے ان پر عالمی پابندیاں موجود ہیں۔

افغانستان کے سرکاری بینک کے گورنر اجمل احمدے نے اپنے ایک تازہ ٹوئٹ میں کہا ہے کہ طالبان کابل پر قبضہ کے بعد افغانستان کے سینٹرل بینک پہنچے ہیں اور انھوں نے وہاں موجود اہلکاروں سے سوال کرنا شروع کیا ہے کہ افغانستان کے اثاثے کہاں ہیں۔ وہ اثاثے ان کے حوالہ کیے جائیں، افغانستان کے پاس اس وقت نو ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر ہیں۔

اس لیے طالبان ان نو ارب ڈالر کی تلاش میں افغانستان کے سینٹرل بینک پہنچے تا کہ ان کو قبضہ میں لیا جا سکے۔ اجمل احمدے کے مطابق طالبان کو فوری طور پر اپنی ٹیم سے ایک معاشی ماہر کو نامزد کرنا چاہیے تا کہ اسے ساری صورتحال سمجھائی جا سکے۔ طالبان کی بار بار افغان سینٹرل بینک پرچڑھائی مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ اجمل احمدے نے واضح کیا ہے کہ یہ درست ہے کہ افغانستان کے پاس نو ارب ڈالر کے ذخائر موجود ہیں۔ تاہم عالمی طریقہ کار کے مطابق یہ پیسے کوئی ہماری جیب میں نہیں ہے۔

اس رقم کو رکھنے کا ایک بین الاقوامی طریقہ کار موجود ہے اور اس طریقہ کار کے تحت ہی یہ رقم رکھی گئی ہے۔ اس رقم میں کوئی چوری یا خورد برد نہیں ہوئی ہے۔ لیکن یہ رقم پھر بھی طالبان کو میسر نہیں۔ یہ رقم بین الا قوامی مالیاتی اداروں میں رکھی جاتی ہے اور وہی رکھی گئی ہے۔ ملک میں کیش نہیں رکھا جاتا۔

اجمل احمدے کے مطابق افغانستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بہت زیادہ تھا۔ اس لیے ہر پندرہ دن بعد امریکی امداد کی شکل میں جہازوں میں کیش امداد آتی تھی جس سے پندرہ دن ملک چلایا جاتا تھا۔ یہ امریکی امداد ملک چلانے کے لیے ضروری اخراجات کے لیے دی جاتی تھی۔ تجارتی خسارے کو بیلنس کرنے کے لیے دی جاتی اور اسی امداد سے سرکاری تنخواہیں بھی دی جاتی تھیں۔

طالبان کے کابل فتح کرنے سے دو روز قبل معمول کے مطابق یہ امریکی مدد کیش ڈالر کی صورت میں پہنچنا تھی۔ لیکن امریکی حکومت نے افغان سینٹرل بینک کو آگاہ کیا کہ افغانستان کی صورتحال کے پیش نظر یہ امریکی امداد نہیں دی جا رہی اور اس کو روک لیا گیا ہے۔ افغان سینٹرل بینک کے گورنر اجمل احمدے کے مطابق امریکی حکومت کے اس فیصلہ سے افغان صدر اشرف غنی کو فوری طور پر آگاہ کیا گیا۔

اشرف غنی نے فوری طور پرامریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ سے بات کی تاہم امریکی امداد کا جہاز بھیجنے کے لیے تیار نہیں ہوئے اور دو دن بعد طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا۔ اجمل احمدے کے مطابق امریکی امداد نہ پہنچنے کی وجہ سے افغانستان میں ڈالر کی کمی ہوئی۔ پھر طالبان کے قبضہ کے بعد لوگوں نے بڑی تعداد میں اپنے ڈالر نکلوانے کے لیے بینکوں کا رخ کیا جس نے بحران کو مزید شدید کر دیا۔ اجمل احمدے کے مطابق اس صورتحال میں اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ بینک سے رقم نکلوانے کے لیے حد مقرر کر دی جائے۔

جو مقرر کر دی گئی کہ کوئی بھی ایک حد سے زیادہ ڈالر نہیں نکلوا سکتا ہے۔ اس فیصلہ نے لوگوں میں عدم اعتماد پیدا کیا۔ تا ہم ساتھ ساتھ ملک میں موجود ڈالر تقریباً ختم ہو گئے سب لوگوں نے نکلوا لیے۔ افغان کرنسی کی قدر میں کمی ہوئی اور ملک میں مہنگائی میں اضافہ ہوا۔  میں سمجھتا ہوں کہ دنیا بدل گئی ہے۔

اب دنیا کو سمجھ آگئی ہے کہ جو مقاصد فوجی ایکشن سے حاصل کیے جاتے تھے اب وہی اہداف معاشی پابندیوں سے حاصل کیے جاتے ہیں، دنیا نے معاشی پابندیوں کا ایسا نظام بنا لیا ہے جو فوجی ایکشن سے زیادہ موثر ہے۔اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ افغانستان میں بین الا قوامی طاقتوں نے فوجی ایکشن تو ختم کر دیا ہے۔ لیکن اب وہ طالبان سے سخت معاشی پابندیوں کے ذریعے اپنی باقی شرائط منوائیں گے۔دوستوں کا خیال ہے کہ اگر مغرب اور امریکا تعاون نہ بھی کریں گے تو طالبان چین اور روس کی مدد سے نظام چلا لیں گے۔ اس ضمن میں ایران کی مثال سامنے ہے۔

جب امریکا اور مغرب پابندیاں عائد کر دیتے ہیں تو چین اور روس کے لیے بھی ایران سے تیل خریدنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔ ایران سخت پابندیوں کے باوجود محدود مقدار میں تیل فروخت کر سکتا ہے۔ جو عالمی برادری کی بھی ضرورت ہوتا ہے۔ لیکن افغانستان کے پاس کوئی تیل نہیں۔ ان کی معیشت توکھڑی ہی امداد پر ہے۔ اب جب امداد ہی نہیں ہوگی تو وہ کیا کریں۔ دنیا جانتی ہے کہ اگر طالبان کو بیس سال میں کسی فوجی ایکشن کے نتیجے میں سرنگوں نہیں کروایا جا سکا تو معاشی پابندیوں میں یہ طاقت ہے کہ وہ ایسا کر سکیں۔

پھر معاشی پابندیوں میں عالمی طاقتوں کا نقصان بھی کم ہے اور فائدہ زیادہ ہے۔ اس لیے یہ بہترین آپشن ہے۔ کچھ دوستوں کی رائے ہے کہ ایسی صورت میں طالبان حکومت کے پاس منشیات کی آمدن سے ملک چلانے کا آپشن موجود ہو گا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اب افغانستان کے ہمسائے ممالک میں وہ حالات نہیں ہیں کہ طالبان منشیات کی آمدن کی طرف جا سکیں۔

شاید اب پاکستان میں بھی ایسے حالات نہیں۔ اس لیے یہ بھی ممکن نہیں ہے۔ اسمگلنگ بھی ممکن نہیں۔ سب ممالک نے اس حوالہ سے پروٹوکول بدل لیے ہیں۔ اس لیے طالبان کے لیے جہاں امن اہم ہے وہاں معاشی پالیسی بھی اہم ہے۔ لیکن ابھی تک طالبان کا کوئی معاشی ماہر سامنے نہیں آیا ہے جو عالمی مالیاتی نظام کو سمجھتا ہواور اس کے ساتھ کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔