عوام کسے ذمے دار ٹھہرا رہے ہیں ؟

راؤ سیف الزماں  جمعـء 3 دسمبر 2021
بظاہر تبدیلی آب و ہوا کا یہ سودا مہنگا دکھائی دیتا ہے

بظاہر تبدیلی آب و ہوا کا یہ سودا مہنگا دکھائی دیتا ہے

آج مہنگائی کے طوفان بدتمیزی کے بعد بدنام کون ہو رہا ہے؟ عوام کسے ذمے دار ٹھہرا رہے ہیں؟ جس بدامنی، بدگمانی، بے چینی کا شکار آج ملک ہے ۔ معیشت، حکومت، سفارت کا بھٹہ بیٹھ گیا ، پاکستان دنیا بھر میں تنہا رہ گیا تو بدنامی کس کی ہوئی۔ موجودہ حکمران ہر دعوی کے بعد یو ٹرن لیتے ہیں تو بدنام کون ہوتا ہے؟ حکمران یا پی ٹی آئی ؟ آپ سمجھتے ہیں کہ جمہوریت بد نام ہو رہی ہے؟

یہی تو آپ کی غلط فہمی ہے ، یہیں تو آپ مار کھا گئے ، کیونکہ آج اس ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے اور واقف ہے کہ آر ٹی ایس سسٹم کیا ہے؟ کیسے وہ بیٹھ جاتا ہے presiding officers  اچانک کہاں غائب ہو جاتے ہیں ، بظاہر تبدیلی آب و ہوا کا یہ سودا مہنگا دکھائی دیتا ہے ، خیر اپوزیشن کو لگتا ہے کچھ آکسیجن مل گئی ہے۔ پی ڈی ایم کے حالیہ مظاہرے شہباز شریف سے بلاول بھٹو زرداری کی ملاقات، ایسا لگتا ہے ہوا میں تپش کی آمیزش ہے۔تاریخ کیسے خود کو دہراتی ہے یہ مشاہدہ زندگی میں ہر موڑ پر ہوا لیکن اتنا جلدی بھی دہرا سکتی ہے یہ تحریک لبیک کا لانگ مارچ دیکھ کر ہوا۔ پھر یہ اندازہ لبیک سے مذاکرات کے انداز پر ہوا۔ ہاں ایک لہجہ بھی یاد آیا جو غرور سے لبریز تھا اب بھی ہے، آج بھی وہی طمطراق ، وہی آن بان ہے، حالانکہ غریب لٹ گیا برباد ہو گیا ملک سالوں پیچھے چلا گیا لیکن پاکستان میں مہنگائی دنیا بھر سے کم ہے آج بھی تقریر وہی ہے آواز کا زیر و بم وہی ہے۔ ’’ صاف چلی شفاف چلی آخر میں اس پر خاک پڑی۔‘‘

لگتا ہے یہ معاہدوں کا موسم بھی ہے، تقرری و تبادلے ہر مقام پر ایک معاہدہ دکھائی دے رہا ہے، سوائے اپوزیشن کے جو بے چاری کب سے منتظر ہے کہ کوئی اسے بھی پوچھ لے ، لیکن اس پر کسی کا دھیان ہی نہیں او بھائی یہ سکے کھوٹے ہی سہی لیکن آخر میں آپ ان ہی کو NRO دے کر لاتے ہیں اور لگتا ہے وہ وقت قریب ہی ہے۔

ایک تو الیکشن کمیشن کی منطق سمجھ سے باہر ہے آج تک ڈسکہ الیکشن کی انکوائری رپورٹس جاری کر رہا ہے جب کہ ڈسکہ الیکشن 2018 کے الیکشن کا action replay  ہی تو تھا۔same same  لیکن اس کا کیا ہوا؟ تو اب عدالتوں سے سو موٹو ایکشن کی امید کیوں؟واہ کیا انداز حکمرانی ہے ،اپنا ملک کئی ایک حوالوں سے بہت منفردہے یعنی دنیا میں جس کی مثال ملنا ممکن نہ ہو۔

کمال ہوگیا ابھی محترم حکمران کی تقریر جاری ہی تھی اور وہ فرما رہے تھے کہ وہ قوم کو ایک سو تیس ارب روپے کا تاریخی پیکیج دینے والے ہیں اور ملک میں دوران تقریر ہی اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں ہوش رباء اضافہ ہونے لگا۔ ملک کے عوام حیران و پریشان تھے کہ ٹی وی پر پرائم منسٹر کی تقریر سنیں یا فوراً ہی بڑھتی ہوئی مہنگائی کی خبروں کو۔ اور ماضی قریب میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے کہ حکومت نے جب بھی کسی معاملے پر نوٹس لیا وہ آئٹم بازار میں عنقا ہوگیا ، جسے کرپٹ کہہ کر گرفتار کیا وہ عدالت سے بے قصور نکلا۔ اب یہ کوئی جادو ہے تو اس کا علم بھی انھی کو ہوگا ۔

اگر ملک میں موجودہ سیاست کا جائزہ لیا جائے تو ماننا ہوگا کہ جسے کبھی کسی نے گاڈ فادر اور سسلین مافیا کے کرداروں سے تشبیہ دی تھی آج وہی سب سے زیادہ عوامی مقبولیت رکھتے ہیں یعنی الیکشن ہوجائیں تو وہ مرکز اور پنجاب میں بڑی آسانی سے حکومت بنالیں گے۔ بات سمجھ سے باہر بھی ہے اور سمجھ کے اندر بھی۔ لیکن ایک حقیقت بہت واضح ہے کہ فطرت اپنا راستہ خود بناتی ہے اور اتنی مضبوطی سے بناتی ہے کہ اگر کوئی اس کے راستے میں آئے تو اس کا نام و نشان تک باقی نہیں رہتا۔ میں انھی الزام کنندگان میں سے ایک صاحب کی قابل رحم حالت سے واقف ہوں جو آج کسی پبلک مقام تک پر جانے کے قابل نہیں رہے اور وہ المعروف بابے کے نام سے جانے جاتے ہیں۔

کبھی کبھی یہ خیال بھی دل میں جاگزیں ہوتا ہے کہ یہ ملک غداروں، منافقوں، ڈاکوؤں، چوروں کے لیے اتنا سازگار کیوں ہے۔ اس زمین پر سازشوں کے بیج اتنی جلدی کیسے پھول پھل نکال لیتے ہیں ، ہر اس آواز پر پابندی ہے جو کلمہ حق بلند کرے ہر وہ شخصیت جیل کی زینت کیوں ہے ، جس نے ملک کی ترقی میں حصہ لیا اور یہ ملک ہمہ وقت نازک دور سے ہی کیوں گزرتا رہتا ہے آخر یہاں امن شانتی کیوں نہیں آجاتی؟ شاید اس کی ایک بہت بڑی وجہ کسی ایک نظام کے تسلسل کا نہ ہونا ہو۔

میری رائے میں اور پڑوسی ممالک کا جائزہ لینے کے بعد یہ حقیقت بالکل عیاں ہو جاتی ہے کہ اگر وطن عزیز میں جمہوریت کو پنپنے دیا جاتا جا بجا مارشل لاؤں کا نفاذ نہ ہوتا تو آج حالات بہت مختلف ہوتے۔ دراصل عوام کا مزاج بننے ہی نہیں دیا گیا ابھی وہ جمہوری نظام سے فیضیاب ہو رہے تھے کہ مار شل لاء لگا دیا گیا، پھر جب وہ کچھ سالوں میں مارشل لاء سے مانوس ہونے لگے تو الیکشن کروا دیے گئے۔ دونوں کو ہی سمیٹ کر ملک کو بلدیات کے حوالے کر دیا گیا، کچھ آگے جاکر فیصلہ ہوا کہ غیر سیاسی و غیر جماعتی حکومت بنادی جائے۔

اس سے بھی کام نا چلا تو حکم صادر ہوا کہ ملک سے باہر کے کسی ٹیکنوکریٹ کو بلا کر کام چلایا جائے تو معین قریشی اور شوکت عزیز لائے گئے۔ گویا عوام کس پر اعتبار کرتے کسے مسیحا مانتے؟ وہ بھی آدھے ادھورے رہ گئے اور اب یہ حال ہے کہ کوئی حال نہیں۔ یعنی حد ہوگئی کہ کوئی ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے تیار نہیں۔ شاید اس بارکا failiur ماضی کے مقابلے میں کافی بڑا ہے۔

ممکن ہے 2022 الیکشن کا سال ہو اور کاش کہ ان الیکشنز میں سیاسی فضاء پر مطلع صاف ہو۔ مختلف ریشہ دوانیوں کے بادل نہ چھائے ہوئے ہوں اور طے کرلیا جائے کہ عوام اپنا رہنماء کسی فرشتے کو بنائیں یا ڈاکو کو، حکومت سازی کی دعوت اسی کو دینی ہے۔ سیاست دانوں کی filtration آپ نہ کریں بلکہ یہ کام عوام کو کرنے دیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔