دل دریا سمندر

خرم سہیل  پير 10 فروری 2014
khurram.sohail99@gmail.com

[email protected]

منظر دیکھنے کی صلاحیت سب انسانوں میں قدرتی طورپر موجود ہوتی ہے،مگر پس منظر دیکھنے کی کامل بصیرت ہرکسی کامقدر نہیں ہواکرتا۔پاکستان ٹیلی ویژن کی نشریات کا جب آغاز ہوا،تو اس منظر پرکئی چہرے نمودار ہوئے ،کئی آوازیں گونجیں،کئی منظر بدلے اورکئی لوگوں کاشہرہ ہوا، انھیں میں سے ایک نام ’’اشفاق احمد‘‘کا تھا،جن کو ڈرامانگاری کے علاوہ صوفی منش طبیعت اورتصوف میں رچی بسی تحریروں کی بدولت بہت شہرت ملی۔

میں نے جب ہوش سنبھالا،تو پی ٹی وی سے ان کی گفتگو پر مبنی پروگرام’’زاویہ‘‘نشر ہواکرتاتھا۔اس پروگرام کی گفتگو نے نوجوانوں کو اپنی طرف مائل کیا۔اسی زمانے میں بانو قدسیہ کاناول ’’راجاگدھ‘‘پڑھا،تو ان سے ملاقات کرنے کی خواہش بیدارہوئی۔میں نے ملاقات کاسوچا،مگر ان تک رسائی کیسے ممکن ہوگی،میں کئی دن تک اسی نقطے کو سوچتا رہا۔دسمبر کامہینہ تھااورکراچی کے ہائی اسکولوں میں تعطیلات کااعلان ہوچکاتھا۔

میں نے سفر کی تیاری کی اور بانو آپا کاناول ’’راجاگدھ‘‘بھی اپنے سامان میں رکھ لیا۔ریل گاڑی پنجاب میں داخل ہوئی،تو یخ سردی اوردھند نے میرااستقبال کیا۔قسمت میراساتھ دینے کافیصلہ کرچکی تھی۔مجھے اپنے آبائی شہر گوجرانوالہ سے ایک مہربان اورشفیق دوست جہانگیر میرکے توسط سے’’ داستان سرائے ‘‘کا پتہ مل گیا۔میں لاہور پہنچا اوربانو آپا سے ملاقات کی۔ان کی تجویز کے تحت اشفاق احمد سے بھی ملاقات کرنا ممکن ہوا۔اس شام’’داستان سرائے‘‘کے مہمان خانے میں میرے علاوہ کچھ اورنوجوان طلبا بھی موجود تھے۔یہ محفل کئی گھنٹے جاری رہی۔اختتامی موقع پر میں نے اشفاق احمد سے آٹو گراف مانگا،تو انھوں نے ایک جملہ لکھ کر دیا،جس نے میری سوچ کا رُخ بدل دیا اور مجھ پر ایک اورشاندار نثری دنیا کا دروازہ کھلا۔

میری ڈائری میں اشفاق احمد کا لکھا ہوا وہ جملہ یہ تھا’’راستے کی باتیں کرنے سے راستہ طے نہیں ہوتا۔‘‘ یہ میری اشفاق احمد سے پہلی اورآخری ملاقات ثابت ہوئی،کچھ عرصے بعد ان کابھی انتقال ہوگیا۔ان کا لکھا ہوا جملہ میرے پاس بطور نشانی رہ گیا۔ایک عرصے کے بعد مجھ پر یہ عقدہ کھلا کہ یہ جملہ انھوں نے بھی کسی کی نشانی سمجھ کر سنبھال رکھا تھا۔جب اس محبوب شخصیت کی یاد آتی تھی ،وہ یہ جملہ لکھ دیاکرتے تھے۔اشفاق احمد کے پاس یہ جملہ واصف علی واصف کی نشانی تھا۔اشفاق احمد اپنے جن بابوں کا ذکر کیاکرتے تھے،ان میں سے ایک بابا واصف صاحب بھی تھے۔

اس جملے کاہاتھ تھام کر میں نے واصف صاحب کی دیگر تحریروں کو پڑھنا شروع کیا،تو مجھے اندازہ ہوا کہ قطرہ قطرہ قلزم کیسے بنتا ہے،کرن کرن سورج میں کیسے ڈھلتی ہے۔ ایک حرف کا انتخاب کرکے اس کی کیفیت، حرمت، معنویت کوکیسے کھولا جاتاہے،یہ ہنر میں نے واصف صاحب کے ہاں دیکھا،مجھے حیرت ہے کہ ایک ایسے مصنف کونوجوان نسل سے باقاعدہ طورپرکیوں متعارف نہیں کروایا گیا،جس طرح اشفاق احمد،ممتاز مفتی اوردیگر کئی شخصیات کا تعارف ہوا۔خیال اگر حسین اورپُر اثر ہو،تواس کے اثرات کو کوئی روک نہیں سکتا۔واصف صاحب کے خیالات شاعری اورنثر میں ڈھلنے لگے۔پہلے خواص کو متاثر کیا،پھر عوام کے دلوں سے ہوتے ہوئے روح میں اتر گئے۔ان کی کتابیں،کالم اورگفتگو سے روحانیت کے پھول جھڑنے لگے۔

ان کے حلقہ ٔ عقیدت میں بے شمار لوگ شامل ہیں۔  فردوس جمال جیسے عمدہ فنکار کو بھی ان سے بے حد عقیدت ہے اور گاؤں کی طرف جاتی پگڈنڈی پرکھیتوں سے لوٹتے ہوئے کسان کو بھی ان کے حروف اتنے ہی اچھے لگتے ہیں۔غزل گانے والوں نے ان کی شاعری کو اپنی آواز میں سمویا تو لکھنے والوں نے ان سے حروف کو پرونے کا فن سیکھا۔طالب علموں کی ڈائریوں میں ان کے اقوال اسی محبت سے درج ہوئے ہوتے ہیں۔

خیال کے اس سفر میں واصف علی واصف کے صاحبزادے ’’کاشف محمود‘‘بھی شامل ہوئے ۔واصف صاحب کے دوستوں اور چاہنے والوں نے ان کی شخصیت اورتخلیقات کے حوالے سے بے پناہ کام کیا،اس سب کے ذکر کے لیے جگہ کی تنگی آڑے آرہی ہے،اس وقت میں ایک ایسے حلقہ ٔ احباب کا ذکر کرنا چاہتا ہوں،جن کے بارے میں پاکستان میں بہت کم لوگ جانتے ہوں گے۔لاہور سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر گوجرانوالہ واقع ہے،اس شہر کی اپنی ایک تاریخ ہے۔سیاست،صحافت،شعروادب،وکالت،صنعت اورکھیلوں کے حوالے سے یہ شہربہت شہرت رکھتا ہے،مگر جب بات واصف علی واصف جیسے لکھاری کی ہو،تو جب بھی ان کے چاہنے والوں کا ذکر آئے گا،اس شہر کا ذکر بھی آئے گا اور’’واصف خیال سنگت‘‘کا ذکر بھی ہوگا۔

یہ سنگت واصف صاحب کی شخصیت اورخیالات کے حوالے سے خصوصی مواقعے پرسیمینار کا اہتمام کرتی ہے،صرف یہی نہیں بلکہ ایک چھوٹے شہر میں جہاں لکھنے پڑھنے اوردیگر بڑے شہروں کی علمی وادبی شخصیات تک رسائی کے مواقعے کم ہوتے ہیں ،اس سنگت نے شہر میں ایسا ذوق رکھنے والوں کے لیے اس سیمینارکے خیال کو سوچا اور اسے عملی صورت دی۔ان محفلوں کی تفصیلات مجھے حیرت زدہ کردیتی ہیں ،اگر ہر شہر میں لوگ اسی طرح اپنے لوگوں کے لیے علم کے چراغ روشن کرنے لگیں تو جہالت کے اندھیرے کتنی تیزی سے مٹ جائیں۔

گوجرانوالہ میں قائم اس سنگت کے زیراہتمام پہلا سیمینار1996میں منعقد ہوا،جس میں حفیظ تائب،اجمل نیازی اورمنو بھائی جیسی علمی وادبی شخصیات شریک ہوئیں،اس کے بعد یہ سلسلہ چل پڑا اور اب تک پانچ سیمینار منعقد ہوچکے ہیں،جن میں انورسجاد،اصغر ندیم سید،اشفاق احمد،حنیف رامے،افتخار عارف،عطاء الحق قاسمی،اکرام چغتائی،اوریا مقبول جان،حمیدگل اور دیگر شریک ہوئے۔اسی شہر سے تعلق رکھنے والے سابق صدر رفیق تارڑ نے اپنے دورِ صدارت میں اس سیمینار میں شرکت کی ۔رواں برس میں آج11فروری کے دن اس سلسلے کاچھٹا سیمینار ہے اور اس میں موجودہ صدر پاکستان ممنون حسین تشریف لارہے ہیں۔

اہل شہر اس حوالے سے خوش نصیب ہیں کہ ان کے لیے کچھ معززین شعر وادب کی فضا کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔اس ساری سرگرمی کے پیچھے بے حد شفیق انسان میرجہانگیر متحرک ہیں ۔ایک میرتقی میر تھے،جن کی حروف سے محبت کو دوام ہے اورایک یہ میر جہانگیر ہیں ۔علم وادب کے فروغ کے لیے ہمیں ایسی شخصیات کی بے حد ضرورت ہے اورہر شہر میں ایسے عمدہ لوگ موجود ہوتے ہیں ،مگر کیاکیاجائے ،وہ اتنے باوصف ہوتے ہیں کہ دکھاوا اوربناوٹ ان کے مزاج کا حصہ نہیں ہوتی۔

دسمبر کی سرد شام ہو یا گرمی کی حبس زدہ دوپہر،ان کی محفلیں جاری رہتی ہیں ۔انور خان جیسے بزرگ اورعرفان اشرف جیسے نوجوان، ان کی محفل میں یکساں طور پر درس واصف حاصل کررہے ہوتے ہیں ۔واصف صاحب ان لوگوں کے لیے استعارہ ہیں۔،اس رویے کا جس سے نیکی کادھارا پھوٹتاہے۔معاشرے میں امن اور محبت کو فروغ دینے کے لیے ’’واصف خیال سنگت‘‘کے ممبران مبارک باد کے مستحق ہیں۔

سوچا جائے، تو یہ کس قدر عمدہ بات ہے کہ واصف علی واصف نے انگریزی میں ماسٹرز کیا اورانگریزی زبان پر مہارت حاصل کی۔خود بھی تدریس کے شعبے سے وابستہ رہے۔سکھانے کا یہ عمل درس گاہوں سے مکین گاہوں میں منتقل ہوگیا،پھر خیالات قلم بند بھی ہونے لگے۔ان کی چار کتابیں اردو نثر،جب کہ دو اردو شاعری اورایک پنجابی شاعری کی کتاب ہے،ان کے علاوہ دو کتابوں کا انگریزی میں ترجمہ بھی ہوا۔ان9 کتابوں کی ترتیب کچھ یوں ہے۔کرن کرن سورج،دل دریا سمندر، قطرہ قطرہ قلزم،حرف حرف حقیقت،شب چراغ، شب راز،بھرے بھڑولے،دی بیمنگ سول، اوشین اِن ڈراپ اور ان کی ریکارڈ شدہ گفتگو پر مرتب کی گئی کتابوں کی تعداد28ہے۔ان کی شخصیات پر لکھی گئی کتابوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔

نیشنل بُک فاؤنڈیشن کی چھاپی ہوئی کتاب ’’فرمائش‘‘ جسے اعجاز الحق نے مرتب کیا،اس کے سرورق پر لکھی ہوئی نظم کتنی خوبصورتی سے ہمارے ذہن پر واصف کے خیال کا نقش چھوڑ جاتی ہے۔وہ نظم یوں ہے کہ ’’آخر ایک دن،اس نے مجھ سے کہہ ہی ڈالا،مجھ پر بھی اِک نظم کہو تم،ایسی نظم،کہ جس میں میرا نام نہ آئے، میں خود آؤں۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔