ڈاکٹر عبدالقدیر خان ( آخری حصہ)

انجینئر مسعود اصغر  جمعـء 7 جنوری 2022
فوٹوفائل

فوٹوفائل

شادی سے پہلے ڈاکٹر خان اور بیگم ہینی خان کی ملاقات جنوری 1962 میں ڈوسلڈورف (جرمنی) میں ہوئی جہاں ڈاکٹر خان چھٹیاں گذارنے گئے ہوئے تھے۔ ایک دن ڈاکٹرخان اپنے گھر والوں کو پاکستان میںخط ڈالنے نکلے تو انھیں اس کے خرچ کا اندازہ نہیں تھا اتفاق سے ان کی ملاقات ہینی صاحبہ سے ہوگئی جنہوں نے ڈاکٹرخان کو اس سلسلے میں رہنمائی فراہم کی۔

ان دنوں کا تذکرہ بیگم خان یوں کرتی ہیں’’ڈاکڑ صاحب ان دنوں بڑے مضطرب تھے ان کا دل اپنے وطن اور گھر والوں کے لیے اداس تھامیرے ساتھ ان کی ملاقات ہوئی تو میں نے ایک ماہر نفسیات کے طور پران کے غم کو ہلکا کیامیں چونکہ خود بھی پاکستان کے بارے میں کچھ معلومات رکھتی تھی لہٰذا ڈاکٹر خان دیار غیر میں ایک ہمددر سے مل کر بہت خوشی محسوس کرنے لگے۔

اس ابتدائی ملاقات کے بعد ہم نے ایک دوسرے کو خط لکھنے کا وعدہ کیا وہ چھٹیاں گذار کر واپس ٹیکنیکل یونیورسٹی برلن لوٹنے والے تھے جب میں ان کی دعوت پر ان سے ملنے ڈوسلڈورف گئی، ہماری یہ ملاقات نہایت خوشگوار رہی بعد میں ہم نے ایک دوسرے کو خطوط لکھے اور اس بات کا اظہار کیا کہ ہمیں کوئی سنجیدہ فیصلہ کرنے سے پہلے ایک دوسرے کو مکمل طور پر سمجھ لینا چاہیے لہٰذا میں نے برلن میں ملازمت تلاش کرنے کا فیصلہ کرلیا اور وہاں میں نے ایک سال تک کام کیا مگر چند ہی روز بعد ہم نے اتفاق کیا کہ ہم ایک دوسرے کو بے حد پسند کرتے ہیں۔

میں نے اسلام قبول کرلیااور پھر شادی کرلی اس وقت میری عمر اکیس سال اور ڈاکٹر خان ستائیس برس کے تھے۔ ستمبر 1963میں ہم نے ہالینڈ چلے جانے کا فیصلہ کرلیا۔ ہم نے اپنی شادی میں چند پاکستانی اور جرمن دوستوں کو مدعو کیا تھا۔ ہالینڈ جانے کے بعد ڈاکٹر خان نے اپنی تعلیم جاری رکھی‘‘ اور یوں یہ دونوں بہترین پراعتماد شریک حیات ایک دوسرے کے لیے ثابت ہوئے۔ بیگم صاحبہ بحیثیت شوہرڈاکٹر صاحب کی اعلیٰ شخصیت کی قدر دان ہمیشہ رہیںوہ کہتی ہیں’’میںبڑی خوش قسمت ہوں کہ مجھے ڈاکٹر خان جیسا شوہر ملاجب ڈاکٹر خان پی ایچ ڈی کررہے تھے تو انتہائی مصروف ہوا کرتے، ان دنوںمیں بھی ملازمت کرتی تھی۔ جب میں گھر واپس آتی تو وہ بھی یونیورسٹی سے واپس آچکے ہوتے یوں عموما رات کا کھانا اکھٹے ہی کھاتے تھے۔

وہ جو کچھ کل تھے آج بھی ہیں یعنی انتہائی قدر دان شوہر۔ میرے شوہرنے انتہائی مصروفیات کے باوجود مجھے وقت دیا۔ شادی کے پانچ سال تک ہماری اولاد نہیں ہوئی میں بڑی متفکر تھی، ڈاکٹر خان مجھے سمجھاتے کہ تم اس قدر پریشان کیوں ہوقدرت کو منظور ہوگا تو تمہاری گود ہری کردے گا اور تب ہمارے ہاں بیٹی پیدا ہوئی۔ اس کے بعد پھر بیٹی ہوئی تو میں نے ڈاکٹرخان سے کہا کہ آپ کوبیٹے کی امید ہے کیونکہ میں نے سنا تھا کہ پاکستان میں بیٹوں کو بہت اہمیت دی جاتی ہے مگر ڈاکٹر خان ہر بار یہی کہتے مجھے ان باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن مجھے اس بات کا اس وقت یقین آیا جب انھوں نے دوبچوں کے بعدخود ہی تجویزکیا کہ اب ہمیں مزید بچوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔ آپ کی دونوں بیٹیاں شادی شدہ ہیں اور آپ نانا بھی بن گئے ہیں۔بڑی بیٹی ڈاکٹردیناخان اور چھوٹی عائشہ خان ہیں۔

بیگم صاحبہ بھی اپنے شوہر کی طرح ایک فکر انگیز مسلمان ہیں۔ انھوں نے ہر طرح کی مصروفیات کے بعد بھی اپنی روحانی تسکین کے لیے قرآن پاک کا انگریزی ترجمہ کرنے کا ارادہ کیا۔کشیدہ کاری کے نادر نمونے بھی بنائے ان فن پاروں میں انھوں نے قرآنی آیات اور آیت الکرسی لکھ کر ایک حسین امتزاج پیدا کیا۔یہ فن پارے آپ کے ڈرائنگ روم اور ڈاکٹر صاحب کے آفس کی دیواروں پر لگے ہیں جس پر ڈاکٹر صاحب اپنی اہلیہ کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہتے ہیں’’ ہینی خان کی اسلام سے محبت اور عقیدت کا یہ عالم ہے کہ جہاں وہ کشیدہ کاری سے قرآنی آیات کے خوبصورت نمونے تخلیق کررہی ہیں۔

وہاں وہ اپنے تحقیقی وجدان سے قرآنی علوم کو پھیلانے کا عزم بھی رکھتی ہیں۔‘‘قرار واقعی بیگم صاحبہ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اگر وہ پاکستان میں قیام کے لیے تیار نہ ہوتیں تو شاید ڈاکٹر صاحب بھی شدید اضطراب اور تذبذب میں آجاتے مگر خدائے بزرگ نے آپ کو ایک ایسے شریک حیات سے وابستہ کیا جو خود بھی دین اسلام اور پاکستان کی سچے دل سے خدمت کا ہمیشہ خواہاں رہا۔ڈاکٹرصاحب کی حیات کے ان نجی اور انتہائی ذاتی پہلوؤں پر روشنی ڈالنے سے راقم کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ ہم یہ جان سکیں کہ بحیثیت انسان ڈاکٹر صاحب کتنی عظیم شخصیت کے مالک تھے جس کی گواہی خود ان کی اہلیہ دے رہی ہیںکہ کس قدر اور کتنی وہ اپنے شریک سفر کی حوصلہ افزائی فرماتے کبھی مرد ہونے کی یا اپنے رتبے کی برتری نہیں دکھائی جو معاشرے کی ایک عام روش ہے ۔ آپ کی اہلیہ کی ان مندرجہ بالا شہادتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی تعامل نہیں ہونا چاہیے کہ بلاشبہ آپ ایک بلند کردار کے حامل انسان تھے ۔

ان کی علالت کے دوران کسی بھی اعلیٰ عہدیدار کو ان کی خبر گیری کی فرصت نہ ملی سوائے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے۔بروز اتوار 10 اکتوبر کی صبح چھ بجے آپ کو پھیپھٹروں کے مرض کے سبب کے آر ایل اسپتال منتقل کیا گیا جہاں آپ کی حالت میں سدھار پیدا نہ ہوسکا اور تقریبا سات بجکر چار منٹ پر وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے اور پوری پاکستانی قوم کو سوگوار چھوڑ گئے۔وطن عزیز کی اس عظیم شخصیت کے جسد خاکی کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر فیصل مسجد کے احاطے میں آپ کی وصیت کے مطابق نماز ظہر کے بعد نماز جنازہ کے لیے لایا گیا جہاں باران رحمت بھی ٹپ ٹپ برس رہی تھی اس کے باوجود آپ کی محبت میں سرشار پورے ملک سے عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندرجس میں بچے بوڑھے جوان سبھی شامل تھے امنڈ آئے۔ اپنے محسن کو خراج تحسین پیش کرنے ان کو الوداع کہنے بعد ازاں انھیں سیکڑ ایچ ایٹ کے قبرستان میں سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کردیا گیا۔

آخری رسومات میں بھی صرف مراد علی شاہ صاحب نے انسانیت کا حق ادا کرتے ہوئے شرکت کی یا پھر شیخ رشیدنے اس عظیم ہستی کے سفر آخرت پر روانگی کے انتظامات کر کے انسان دوستی کا حق ادا کیاورنہ ریاست کے اعلیٰ ترین منصب پر فائزشخصیت یا ان کے وزیر مشیر اسی شہر میں ہوتے ہوئے اس عظیم ہستی کو الوداع کہنے وقت نہ نکال پائے ۔ بھارت کے ایٹمی سائنسدان جو کہ مسلمان تھے ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام انتقال فرما گئے تو اس وقت کے وزیر اعظم ہندو مذہب سے تعلق رکھنے کے باوجود ان کی انتم یاترا میں شریک ہوئے نا صرف یہ بلکہ اس ملک نے ان کی خدمات کو سراہنے کے لیے مسلمان ہونے کے باوجود انھیں اپنے ملک کا صدر بھی بنایا،جس سے الحمد اللہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہم مسلمان ہونے کے باوجود اپنے محسنوں کی کتنی اور کس قدر تعظیم کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔