- لانگ مارچ، توڑپھوڑ کیسز میں عمران خان کی بریت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
- پارک لین ریفرنس سماعت؛ آصف زرداری کو اب صدارتی استثنیٰ حاصل ہے، وکلا
- انسداد انتہا پسندی؛ پولیس نے 462 سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کروا دیے
- خواتین کے حقوق کا بہانہ؛ آسٹریلیا کا افغانستان سے سیریز کھیلنے سے انکار
- کراچی؛ ایل پی جی کی دکان پر افطار کے وقت ڈکیتی، فوٹیج سامنے آ گئی
- پی ٹی آئی کا اسلام آباد میں جلسے کیلیے ہائیکورٹ سے رجوع
- پاک فوج میں بھرتی کیپٹن سمیت افغان شہریوں کو برطرف کیا گیا، وزیر دفاع
- الشفا اسپتال پر اسرائیلی حملے میں غزہ کے پولیس چیف شہید
- حماس سے لڑائی میں ایک اور اسرائیلی فوجی ہلاک؛ مجموعی تعداد 250 ہوگئی
- پی ایس ایل9 فائنل؛ عماد وسیم نے کیا تاریخ رقم کی؟
- پی ایس ایل9؛ شاداب نے اہلیہ کو ایوارڈ، ماں کو میڈل دے دیا
- 5 ہزار ایکڑ پر چارے کی کاشت، سعودی کمپنی سے معاہدہ
- بجلی 5روپے فی یونٹ مہنگی ہونے کا امکان
- ڈیجیٹل ذرائع سے قرض، ایس ای سی پی نے گائیڈ لائنز جاری کر دیں
- موبائل کی درآمدات میں 156 فیصد اضافہ
- ایچ بی ایف سی نے عوام کو سستے تعمیراتی قرضوں کی فراہمی بند کردی
- حسن اور حسین نواز کی بریت کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ
- مفت راشن اسکیم؛ عوام کی عزت نفس کا بھی خیال کیجیے
- مشفیق الرحیم، انجیلو میتھیوز کے ٹائم آؤٹ کا مذاق اڑانے لگے
- کراچی میں سی ٹی ڈی کی کارروائی، ٹی ٹی پی کا اہم دہشتگرد گرفتار
برطانوی وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا
لندن: کورونا لاک ڈاؤن کے دوران پارٹی میں شرکت کرنے پر برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ جہاں زور پکڑ رہا ہے وہیں حکومتی جماعت کے اراکین اپوزیشن میں شمولیت اختیار کررہے ہیں۔
بین الاقوامی میڈیا کے مطابق ہاؤس آف کامنز میں بورس جانسن کو اس وقت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب اُن کی کنزرویٹیو پارٹی کے 7 اراکین نے وزیر اعظم کیخلاف عدم اعتماد کی ووٹنگ کا مطالبہ کردیا جبکہ 20 اراکین نے پارٹی سے علیحدگی اختیار کرکے حکومت کیخلاف الگ محاذ قائم کرلیا۔
عدم اعتماد کی ووٹنگ کا مطالبہ کرنے والے 7 اراکین میں سے ایک کارکن کرسچن ویکفورڈ نے ہاؤس آف کامنز میں ہی اپوزیشن لیبر پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا۔
لیبر پارٹی میں شامل ہونے والے کرسچن ویکفورڈ نے بورس جانسن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ واضح ہوچکا ہے ہے کہ آپ اور آپ کی پارٹی اقتدار کے اہل نہیں ہیں۔
خیال رہے کہ برطانوی وزیر اعظم پر تنقیدوں نے اُس وقت اور شدت اختیار کی جب انہوں نے دعویٰ کیا کہ میں ایک کام کی تقریب سمجھ کر شریک ہوا، مجھے نہیں پتہ تھا کہ وہ ایک پارٹی کی تقریب تھی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔