جامعہ کراچی کے چار تخلیقی ستون

خرم سہیل  منگل 25 فروری 2014
khurram.sohail99@gmail.com

[email protected]

جامعہ کراچی ایسی درسگاہ ہے،جہاں سے فارغ التحصیل طلبا نے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کااظہارکرکے دنیا کو حیران کیا۔اس جامعہ میں متوسط طبقے کے طالب علم حصول علم کے لیے آئے اورخوابوں کی تعبیر لے کر دنیا میں چھاگئے۔میں اگر ان میں سے چند نام یادکروں، تومیرے حافظے پر جن شخصیات کاتصور ابھرتاہے ،ان میںابوالخیر کشفی،جمیل الدین عالی،اسلم فرخی، عطاالرحمن،فرمان فتح پوری،حسینہ معین،ابن انشا،جمیل جالبی،منظور احمد،محمد علی صدیقی،پروین شاکر،سحر انصاری اور زاہدہ حنا جیسی شخصیات شامل ہیں۔

یہ فہرست بہت طویل ہے، میں نے تو صرف شعرو ادب سے وابستہ چند نام درج کیے ہیں۔اسی طرح جامعہ کراچی کے شیخ الجامعہ کے منصب کی فہرست بھی کئی بڑے ناموں سے سجی ہوئی ہے،ان ناموں میں شعبہ تاریخ کے اشتیاق حسین قریشی،انگریزی کے شعبے سے محمود حسین اورشعبہ اردوکے جمیل جالبی سمیت1951سے لے کر 2013تک 16شخصیات نے اس منصب کی ذمے داری کو احسن طریقے سے نبھایا۔ ہزاروں کی تعداد میں اس جامعہ سے فارغ التحصیل طلبا کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ابھی تک جامعہ کراچی کی نسبت سے جتنے نام یہاں درج کیے گئے ہیں،یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے اپنے شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ 64برس میں اس ادارے سے تعلیم حاصل کرکے جانے والوں نے علم کے چراغ روشن کیے۔تخیل کی سنہری دھوپ سے خیال کی فصلوں کو پکایا۔ باذوق تحریروں سے معنویت کی داستانیں رقم کیں۔افکار کے جگنو اور بیان کی تتلیاں ان کے اذہان سے اڑان بھر کر ساری دنیا میں محو پرواز رہیں۔

جامعہ کراچی سے منسوب یہ تصور اتنا خوبصورت ہے، جس کا یہاں مکمل طور پر بیان کرنا ممکن نہیں۔یہ وہ ہی سمجھ سکتا ہے، جو کبھی اس جامعہ کا طالب علم رہا ہو۔جس نے اس کی راہداریوں میں بیٹھ کر اساتذہ کو آتے جاتے دیکھا ہو۔جس نے محمود حسن لائبریری کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر چائے پی ہو۔حبس زدہ دوپہروں میں جامعہ کے مرکزی دروازے تک آنے کے لیے کئی کلومیٹر پیدل مسافت طے کی ہو۔وہ ان ناموں اوراحساسات کی گہرائی کو زیادہ بہترطورپر سمجھ سکتاہے اورجو تصور کے اس درجے کو سمجھ سکتا ہے،وہ یہ بھی جانتا ہوگا کہ اسی جامعہ کے ساتھ کئی طرح کی تلخ حقیقتیں بھی پیوستہ ہیں،جن سے ہر طالب علم کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔

معاشرے جب زوال پذیر ہوتے ہیں، تو ان کو بنانے والے شعبوں پر بھی زوال آتا ہے۔یہی زوال جامعہ کراچی پر بھی آیا۔ طلبا کی اکثریت بھی ایسی آئی ،جنھیں صرف سند حاصل کرنے میں دلچسپی ہوتی ہے یا پھر وقت گزاری میں۔ جب معاشرے،ادارے اورافراد ایسے رویوں کے عادی ہو جائیں ،تو زوال کس دروازے سے آپ کے آنگن میں داخل ہوتا ہے،اس کا بھی احساس نہیں ہوتا۔

جامعہ کراچی کی روشن اور تخلیقی روایت کے ایسے ہی چار افراد کو میں جانتا ہوں،جنہوں نے خاموشی سے خود کو علم بانٹنے میں مصروف رکھا ہوا ہے،اس پر لطف یہ ہے کہ وہ صرف طالب علموں کو سیراب ہی نہیں کر رہے ،بلکہ خود کو بھی تخلیقی کیفیات سے جوڑ رکھا ہے۔ایک طرف تخلیق کار پیدا کر رہے ہیں ،تو دوسری طرف خود تخلیق کے کینوس پر اپنے اظہار کے رنگ بکھیر رہے ہیں۔یہ چار نام پروفیسر مسعود امجدعلی،ڈاکٹر افتخار شفیع ،ڈاکٹر رؤف پاریکھ اورڈاکٹر طاہر مسعود ہیں۔ایسے لوگوں کے دم سے ابھی علم کا چراغ جامعہ کراچی میں روشن ہے۔ان چاروں شخصیات کو آپ کسی ادبی میلے میں نہیں دیکھیں گے،شاید یہ میلے ٹھیلے کے لوگ بھی نہیں ہیں اور میلے کی انتظامیہ کو دکھائی بھی نہیں دیتے،لیکن یہی وہ لوگ ہیں، جنھیں ہم تخلیق کی آبرو اور خیال کی زینت کہتے ہیں۔جن کے احساس سے تخلیقات میں معنویت دھڑکتی ہے۔

ان میں سے پہلی شخصیت ’’پروفیسر مسعود امجد علی‘‘کا تعلق انگریزی کے شعبے سے ہے۔ساٹھ کی دہائی سے پڑھانے والے اس استاد سے ہزاروں طلبا فیض یاب ہوچکے ہیں۔ یہ 1994سے 1997تک اسی شعبے کے چیئرمین بھی رہے۔ یہ انگریزی زبان میں شاعری کرتے ہیں ۔ان کی نظموں کا مجموعہ ’’Chrysanthemum Blossoms‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شایع ہوچکا ہے مگر اہل شہر اس بات سے بے خبر ہیں اور انگریزی اخبارات کو بھی عام ڈگر سے ہٹ کر ایک معیاری نظمیں تخلیق کرنے والے اس شاعر کو دریافت کرنے کی زحمت نہیں کرنا پڑی،ایک ایسا شاعر جو مدرس بھی ہے اورجس کے لہجے اور تکنیک سے طلبا انگریزی زبان کی بُنت سیکھتے ہیں۔پروفیسر مسعودامجد علی اپنے شعبے کے بارے میں کس انداز میں رائے دیتے ہیں،یہی ان کی تخلیقی اُپچ کو بیان کرنے کے لیے کافی ہے۔ان کے خیال میں ’’جامعہ کراچی کا شعبۂ انگریزی ایک آرٹسٹ کے اسٹوڈیو کی طرح ہے،جہاں آپ فن اوررنگوں کا ذائقہ چکھتے ہیں۔‘‘

دوسری شخصیت کا تعلق بھی انگریزی کے شعبے سے ہے،انھیں ’’ڈاکٹر افتخار شفیع ‘‘کہاجاتاہے۔یہ فقیر منش استاد ہے،جس نے اپنی تہذیبی حساسیت کو تھام کر اورایک دوسری زبان کے شعروادب کو طلبا کے ذہنوں میں اتارا۔کم عمری میں پی ایچ ڈی کرنے والے اس مدرس کی بنیاد مولانا رومی کی شاعری تھی،جس کی عملی صورت ان کی شخصیت میں بھی دکھائی دیتی ہے۔عام سے لباس میں ایسی خاص باتیں کرتے ہیں،لفظوں کے معنی اس طرح کھول کر بیان کرتے ہیں کہ سننے والا اپنے آس پاس کا ہوش کھو بیٹھے، بے شک اہل شعور ایسے ہی لوگ ہوا کرتے ہیں۔کئی برس سے انگریزی ادب پڑھانے والے اس استاد نے اپنا دامن جھاڑا تو اردو شاعری کاخوبصورت مجموعہ ’’انگارہ‘‘ قارئین کومیسر آیا۔جس کا ایک شعر بہت سی ان کہی باتوں کا بیان ہے۔ لکھتے ہیں ’’جب بجھی شمع سخن گرمیٔ محفل کے لیے، آ گئے ہم بھی ہتھیلی پہ لیے انگارہ‘‘پروفیسر افتخار شفیع کی کتاب ’’انگارہ‘‘ کے دو سو تیراسی صفحات ان کے جذبات،  وجدان، شعور اور مشاہدے کی اتھاہ گہرائیوں کو بیان کرتے ہیں اور بیان بھی ایسے شاعرانہ انداز میں، جیسے نرم وملائم بادصبا چھوکر گزر جائے ،وہ دکھائی نہ دے مگر اس کے ہونے کا احساس موجود ہو۔

تیسری شخصیت کا نام ڈاکٹر رؤف پاریکھ ہے۔یوں تو یہ کسی تعارف کے محتاج نہیں،لیکن میں رسم نبھانے کو اگر ان کے بارے میں کچھ بتاناچاہوں تومختصراً یہ ہے کہ ان کا تعلق شعبۂ اردو سے ہے،صرف جامعہ کے طلبا ہی ان کے علم سے فیض یاب نہیں ہوتے،بلکہ مجھ جیسے ناچیز بھی ان سے اکثر مواقعے پر رہنمائی لیتے ہیں۔یہ اردو ڈکشنری بورڈ،کراچی سے وابستہ رہے۔اردوکے شعبے میں پڑھانے کے علاوہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے شعبہ لغت سے بھی وابستہ ہیں۔ایک موقر انگریزی روزنامے میں ہفتہ وار ادبی کالم بھی لکھتے ہیں۔انجمن ترقی اردو اور غالب لائبریری سے بھی وابستہ ہیں۔تصنیف وتالیف کاکام بڑی باقاعدگی سے کرتے ہیں اوراب تک ان کی تقریباً20کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔یہ بھی دل کے صاف،سچے اوراپنے کام سے محبت کرنیوالے وہ شخص ہیں، جن پر کسی بھی ہم عصر کو رشک آتاہے۔چوتھی شخصیت کا تعلق شعبۂ ابلاغ عامہ سے ہے۔ان کا نام ڈاکٹر طاہر مسعودہے اور یہ اس شعبے کے موجودہ چیئرمین ہیں۔یہ ان چند اساتذہ میں سے ہیں،جو تخلیق کار ہیں اور ’’صورت گرکچھ خوابوں کے‘‘ان کی مشہور زمانہ کتاب ہے۔اس کے علاوہ یہ افسانے ،ادبی مضامین اور اخباری کالم لکھتے ہیں۔ان کے افسانوں کی کتاب کا نام ’’گمشدہ ستارے‘‘تھا،جس میں کئی رنگ ایک دوسرے میں گھل مل گئے ہیں۔ان کے ہم عصر تخلیق کاراورمعروف شاعر فراست رضوی ان کے بارے میں اس کتاب کے دیباچے میں کچھ اس طرح اظہار خیال کرتے ہیں۔

’’ان کی کہانیوں کے کردار عام لوگ ہیں۔تقدیر کے جبر اور معاشرتی استحصال کے مارے ہوئے۔ان کے حالات زندگی بہت الجھے ہوئے ہیں۔یہ سب کسی نہ کسی دُکھ کا پہاڑ اٹھائے ہوئے زندگی کا بوجھ ڈھو رہے ہیں۔طاہر کی کہانیوں کے کردار خوش وخرم لوگ نہیں ہیںیہ سب زندگی کے ناکام افراد ہیں۔ ناآسودگی میں مبتلا کسی ادھورے پن کاشکار۔طاہر مسعود کی کہانیوں کے کردار ایسے کیوں ہیں؟ ’’وارڈ نمبر گیارہ کا معذور بوڑھا ’’منزل آخرفنا‘‘ کا عمر رسیدہ ریٹائرڈ کرنل، اکیلاپن جس کی روح میں اترگیا یاس زدہ گھرانے کی خاموش غم زدہ ماں۔’’خواب اورآنسو‘‘کاخواب گزیدہ ادیب۔ تنہائی کی ماری مسز رخشندہ کریم۔ادھوری بینائی کامالک صفدر علی اور حافظے کی قید سے آزاد ہو جانے والا کردار۔میں نے اس بارے میں سوچا تو مجھے ایسا لگا کہ طاہر مسعود انسان کے باطن میں اتر کر اس کی داخلیت کے نامعلوم گوشوں کو قاری پر منکشف کرنا چاہتے ہیں اورپھر کیا یہ سچ نہیں ہے کہ عہد جدید کاآدمی اتنا ہی دکھی اور ژولیدہ ہے جتنا طاہر نے اپنی کہانیوں میں دکھایا ہے‘‘

پروفیسر مسعود کی انگریزی شاعری،ڈاکٹر افتخار شفیع کی اردو شاعری اورانگریزی ادب کا فہم،ڈاکٹر رؤف پاریکھ کی علمی سخاوت اورڈاکٹر طاہر مسعود کی اداس بھری تخلیق سے بھرپور کہانیاں اورکردارسب کے درمیان ایک نکتہ یکساں ہے اوروہ ہے ’’خاموشی‘‘ان تخلیقی ستونوں کے دروازے سچی فکر کے لیے کھلے ہوئے ہیں،مگر سیراب کی اس منزل کو پانے کے لیے آپ کو ان کی طرف جانا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔