’’اپنے خیالات کو جیل خانہ مت بناؤ‘

آفتاب احمد خانزادہ  منگل 4 مارچ 2014

تانگ عہد کا ایک چینی وزیراعظم بادشاہوں کی برائیاں یوں گنواتا ہے۔ جیتنے کی ترجیح، اپنی غلطیوں کا سن کر غصہ میں آ جانا، اپنے اختیار میں اضافہ اور اپنی مضبوط خواہش پر قابو پانے میں ناکامی۔ وہ بتاتا ہے کہ جب انھیں یہ جراثیم لگ جائیں تو پھر وہ لوگوں کی باتوں پر کان دھرنا بند کر دیتے ہیں اور انتشار و افراتفر ی کے بیج پنپنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ عقیدہ بہت قدیم زمانوں سے چلا آتا ہے کہ سیاست کے پیشے کا انتخاب کرنے والے افراد ان عہدوں کے لیے نا موزوں ہوتے ہیں کہ جن حصول کی انھیں جستجو ہوتی ہے۔ افلاطون کی جمہوریہ میں سقراط کہتا ہے کہ یہ بات بڑی سیدھی سادی ہے کہ ان افراد میں کہ جو اقتدار حاصل کرنے کے سب سے زیادہ خواہاں ہوتے ہیں اس پر فائز رہنے کی صلاحیتیں ہونے کے امکانات سب سے کم ہوتے ہیں۔

اچھے لوگ پیسے یا عزت کی خاطر حکومت میں آنے کا نہیں سوچتے۔ وہ کہتا ہے وہ حکمرانی کے بارے میں نہیں سوچتے کہ یہ کوئی اچھی چیز ہے یا اس میں کوئی مزا آتا ہے بلکہ وہ حکومت میں آنے کو محض ایک مجبوری خیال کرتے ہیں کیونکہ اسے ان سے کسی بہتر یا ان جیسے ہی کسی اور شخص کو سونپنا ممکن نہیں۔ اچھے لوگوں کے شہر میں اگر شہری آپس میں اس بات پر لڑا کرینگے کہ مجھے حکومت نہیں کرنی عین اسی طرح کہ جیسے وہ آج کل حکومت کرنے کے لیے لڑتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ شخص جو واقعی ایک سچا لیڈر ہوتا ہے، فطری طور پر اپنے مفاد کے لیے نہیں بلکہ اپنی رعایا کے مفاد کے لیے کام کرتا ہے اور ہر وہ شخص جسے اس بات کا شعور ہے وہ چاہے گا کہ وہ دوسروں سے مستفید ہو بجائے اس کے کہ وہ دوسروں کو فائدہ پہنچانے کی مصیبت میں پڑا رہے دوسرے لفظوں میں حکمرانی ایک ایسا بوجھ ہے جو اچھے لوگوں پر لادا جاتا ہے اور جسے برے لوگوں کے عزائم سے بچایا جاتا ہے۔

عموماً ہوتا یہ ہے کہ بہت سے سیاستدانوں کی نفسیات اچھی حکمرانی کے لیے موزوں نہیں ہوتی بعض سیاستدانوں کی طرف دیکھ کر تو محسوس ہوتا ہے کہ ان کی تگ و دو کے پیچھے صرف وہ مجنونانہ مسرت کار فرما ہے جو وہ مسند اقتدار پر بیٹھ کر محسوس کر تے ہیں۔ بعض لوگ لگتا ہے کہ بچپن کی کسی محرومی کو پورا کر نے کے لیے لیڈر بنتے ہیں بہت سے لیڈر ایسے ہوتے ہیں جن کی والدہ یا والد ان کے بچپن میں ہی فوت ہو گئے ہوتے ہیں اور وہ اپنے سیاسی کیریئر میں محبت اور پہچان ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ بعض نامساعد حالات کی وجہ سے لیڈر بنتے ہیں بعض اشخاص ایسے بھی اس میدان میں آ ٹپکتے ہیں کہ بظاہر جس میں قیادت کی کوئی قابلیت یا خوبی دکھائی نہیں دے رہی ہوتی۔ اقتدار کے متلاشیوں میں سے کون اس کے قابل ہوتا ہے اور کون نہیں اس کا اندازہ افلاطو ن کی جمہوریہ میں انگوٹھی والی کہانی سے بھی ہوتا ہے اس انگو ٹھی کا کمال یہ تھا کہ اسے پہن کر کوئی جب چاہے لوگوں کی نظروں سے غائب ہو سکتا تھا۔ اس کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ طلسم یا اقتدار سے وابستہ تحریص سے بچ نکلنا کسی شخص کے لیے بھی آسان نہیں ہوتا۔ کنفیوشس کا کہنا ہے کہ حکمرانی کا مطلب خود کو ٹھیک راستے پر چلانا ہے کیونکہ اگر آپ خود میں درستی پیدا کر کے لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں تو پھر کس کی مجال ہے کہ وہ خود کو درست نہ کرے۔

کنفیوشس کے نظریات نے اس کے بعد کے زمانوں میں حکمرانوں کے کردار پر بہت زیادہ اثرات مرتب کیے ہیں۔ قدیم دنیا میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ لیڈروں کو راہ راست پر رکھنے کے معاملے میں ان کی شخصی خوبیاں بھی اتنی ہی اہم ہوتی ہیں جتنے کہ قوانین اور ڈھانچے، افلاطو ن نے جمہوریہ کوٹلیہ نے ارتھ شاستر اورکنفیوشس نے اپنے اقوال میں ان خوبیوں کو کسی نظام میں لانے اور یہ بیان کرنے کی کو شش کی ہے کہ لیڈروں کو اخلاقیات کیسے سیکھنی چاہیے اچھے قوانین کے ساتھ داخلی ضبط بھی ضروری ہے۔ کوٹلیہ لکھتا ہے کہ صرف قانون کے مطابق چلنے والی حکومت ہی زندگی کے تحفظ اور لوگوں کی بہتری کی ضمانت دے سکتی ہے لیکن ایسی حکومت کا دارو مدار بھی بادشاہ کے ضبط نفس پر ہوتا ہے۔ یہ ضبط نفس دو طرح کا ہوتا ہے خلقی اور اختیار کردہ۔ خود پر قابوجو کہ علم اور ضبط کی بنیاد ہے ہوس، غصے، لالچ، گھمنڈ، غرور اور حماقت سے چھٹکارا پاکر حاصل کیا جاتا ہے دوسرے لفظوں میں لیڈروں کو خود میں اچھے خصائل کوشش کر کے پیدا کرنے چاہئیں۔ جدید مغرب میں لیڈروں کی اخلاقیات کے بارے میں بہترین بات میکس ویبر کی ان خطبات میں ملتی ہے جو انھوں نے 1918-19 میں جنگ کے بعد کی افسردہ سردیوں میں دیے تھے اور جو بعد میں کتابی شکل میں شایع ہوئے۔

ان خطبات میں ویبر نے سیاستدانوں کی تین اہم خو بیوں کا ذکر کیا ہے ان میں سے پہلی خوبی نصب العین کے لیے حب اور وفا۔ دوسری اس نصب العین کے معاملے میں احساس ذمے داری اور تیسری اشیا و افراد سے غیر وابستگی کے معاملے میں تنا سب کا خیال ہے جو معاشرہ اخلاق سے عاری ہوتا ہے وہ تبا ہ ہو جاتا ہے۔ یاد رہے تاریخ کی ساری ناکامیاں اخلاقی ناکامیاں تھیں بیسویں صدی کے شروع میں امریکا بدترین بحران کا شکار تھا پورے ملک کی دولت 3ماہ میں برباد ہو گئی پیداوار میں77 فیصد کمی آ گئی ایک چو تھائی لیبر فورس بیروزگار ہو گئی کئی شہروں میں اسکول بند کر دیے گئے۔ نیویارک کا یہ حال تھا کہ اکثر اسکولوں میں بچوں کو موزوں خوراک نہیں دی جا سکتی تھی ایک وقت ایسا آیا کہ ساڑھے 3کروڑ افراد کسی بھی قسم کی آمدنی سے محروم تھے اس بدترین بحران میں بھی صدر روز ویلٹ اپنے ریڈیو پر نشر ہونے والے خطاب میں کہہ رہے تھے کہ خدا کا شکر ہے ہماری مشکلات صرف مادی ہیں اخلاقی نہیں جب کہ ہماری ساری مشکلات ہمیشہ اخلاقی رہی ہیں ہم 66 سالوں کے دوران اپنے اکثریتی سیاستدانوں اور حکمرانوں کی اخلاقی اقدار سے محرومی کی وجہ سے بدترین بحرانوں کا شکار ہوئے ہیں ۔

تانگ عہد کے چینی وزیراعظم نے بادشاہوں کی جو برائیاں گنوائی ہیں بدقسمتی سے ہمارے اکثریتی سیاستدانوں میں وہ ساری کی ساری جو ں کی توں موجود ہیں۔ ہم قائد اعظم کے بعد اقتدار میں آنیوالے حکمرانوں کے کردار پر نظر دوڑائیں تو ہمارا سر شرم سے جھک جاتاہے۔ ان میں اکثریت احساس محرومی کا شکار نظر آتی ہے جو صرف اپنا احساس محرومی دور کرنے کے لیے صرف طاقت حاصل کرنے اور اپنے عیش و عشرت کی خاطر سازشیں کر کے اقتدار کے ایوانوں تک جا پہنچے انھیں نہ تو ملک کی کوئی پرواہ تھی اور نہ ہی عوام کی اور نہ ہی ان کا اخلاقیات سے دور دور تک کا کوئی واسطہ تھا۔ آج جب ہم اپنے چاروں طرف نظریں دوڑاتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہمارے ماضی کے شرم ناک کردار آج پھر زندہ ہو گئے ہیں۔ قسمت کردار سے بنتی ہے لگتا ہے شکسپیئر نے ہمارے انھی اکثریتی سیاستدانوں اور حکمرانوں کے لیے کہا تھا کہ ’’اپنے خیالات کو اپنا جیل خانہ مت بناؤ‘‘ جب کہ جون مارلے نے کہا ہے ’’کوئی انسان اپنے کردار کی حدود سے زیادہ اونچی پرواز نہیں کر سکتا لیکن بہتری کی گنجائش ہر وقت موجود ہوتی ہے۔‘‘

آئیں! ہم سب اپنے اپنے بند ذہنوں اور دلوں کے دریچے کھول دیں کیونکہ گوئٹے نے کہا کہ اچھے خیالات بیباک بچوں کی طرح اچانک اور یکایک سامنے آن کھڑے ہوتے ہیں اور چلا چلا کر کہنے لگتے ہیں ہم یہاں ہیں ہم یہاں ہیں۔ آج اچھے خیالات ہمارے سامنے آ کر چلا چلا کر اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے ہیں۔ آئیں! ہم انھیں اپنے دل اور دماغ میں رہنے کے لیے مستقل جگہ دے دیں پھر دیکھیں ہم ہمارے سیاستدان ہمارے حکمران اور ہمارے عوام کس طرح خوشی، مسرت اور سکون کی زندگی بسر کرتے ہیں کیونکہ برا نہ ہونا بھی نیکی ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔