مشکل فیصلے اور سیاسی قیادت

ایڈیٹوریل  اتوار 29 مئ 2022
سیاسی قیادت کو یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ خرابی اسٹیبلشمنٹ کے اینڈ پر کم ہے جب کہ سیاسی قیادت کے اینڈ پر زیادہ ہے۔ فوٹو: فائل

سیاسی قیادت کو یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ خرابی اسٹیبلشمنٹ کے اینڈ پر کم ہے جب کہ سیاسی قیادت کے اینڈ پر زیادہ ہے۔ فوٹو: فائل

پاکستان کے وزیراعظم شہبازشریف نے جمعے کو قوم سے اپنے پہلے خطاب میں کھل کر ملک کو درپیش مسائل بیان کیے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ پونے چار سال قبل بطور قائد حزب اختلاف ’’چارٹر آف اکانومی‘‘ یعنی میثاق معیشت کی تجویز پیش کی تھی جسے نظرانداز کر دیا گیا تھا، یہ وقت کی آواز اور قومی ضرورت ہے، اس چارٹر پر اتفاق کے لیے میں تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کا آغاز کر رہا ہوں تاکہ معاشی تسلسل کو یقینی بنایا جا سکے ۔انھوں نے کہا کہ ان کی حکومت سخت فیصلے کرنے کے تیار ہے اور اتحادیوں کی تائید بھی حاصل ہے۔

گزشتہ روز حکومت نے پٹرول کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافہ کرکے مشکل فیصلوں کا آغاز کردیا ہے۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافہ ہونا ناگزیر ہوگیا ہے اور اس سے وہ طبقہ جو بسوں، ویگنوں ، رکشا اور ٹیکسی پر روزانہ کی بنیاد پر سفر کرتاہے، وہ شدید طور پر متاثر ہوگا۔اس کے ساتھ کاروباری مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی ٹرانسپورٹ کے کرائے بھی بڑھیں گے اور اس کے اثرات بھی صارفین پر پڑیںگے۔

بہرحال وزیراعظم نے اپنے خطاب میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں اضافے کے پیش نظر ملک کے کم آمدنی والے گھرانوں کے لیے 28 ارب روپے کے نئے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا بھی ہے۔ اس ریلیف پیکیج کے تحت ہر گھرانے کو اس مد میں 2 ہزار روپے ماہانہ دیے جائیں گے، یہ رقم اس مالی امداد کے علاوہ ہے جو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ان گھرانوں کو پہلے ہی دی جارہی ہے۔

وزیراعظم کا کہنا ہے کہ یہ رقم ساڑھے 8 کروڑ افراد پر مشتمل ایک کروڑ 40لاکھ گھرانوں کو ملے گی جو پاکستان کی کل آبادی کا ایک تہائی ہیں۔انھوں نیاس عزم کا اظہار کیا کہ آیندہ سال کے لیے اس ریلیف پیکیج کو بجٹ میں شامل کیا جائے گا۔ یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کو ہدایت کی گئی ہے کہ پاکستان بھر میں آٹے کے 10 کلو کا تھیلا 400 روپے میں فروخت کیا جائے۔

وزیراعظم نے کہا پٹرول کی قیمت میں اضافہ پاکستان کو معاشی دیوالیہ پن سے بچانے کے لیے ناگزیر تھا۔ ہم نے حکومت سنبھالی تو مہنگائی عروج پر تھی، کاروبار، روزگار، معاشی سرگرمیاں ختم ہو کر رہ گئی تھیں، ڈالر جو 2018 میں ہم 115 روپے پر چھوڑ کر گئے تھے سابق حکومت کے پونے چار سال کے دوران وہ 189 روپے پر پہنچ گیا جس سے ایک طرف مہنگائی کی آگ مزید تیز ہوگئی تو دوسری جانب پاکستان پر قرض اور ادائیگیوں کا بوجھ بھی ناقابل برداشت ہوگیا۔

انھوں نے کہا کہ گزشتہ پونے 4 سال میں پاکستان کے قرض میں 20 ہزار ارب روپے سے زیادہ کا اضافہ ہوا جو 1947 سے 2018 تک 71 سال میں اب تک کی تمام حکومتوں کی طرف سے لیے جانے والے مجموعی قرض کا 80 فیصد ہے، رواں مالی سال وفاق کے بجٹ خسارے کا تخمینہ 5 ہزار 600 ارب روپے ہے جو تاریخ کا بلند ترین خسارہ ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ جب ہم نے حکومت سنبھالی تو ملک میں 7ہزار 500 میگاواٹ کے پاور پلانٹس بند پڑے تھے اور نہ ہی بروقت بجلی کے کارخانے مرمت کرائے جس کی وجہ سے عوام مہنگی بجلی اور گھنٹوں لوڈشیڈنگ کے عذاب میں مبتلا ہوئے۔ داخلی محاذ کی طرح خارجی محاذ پر گزشتہ پونے 4 سال پاکستان کے قومی مفادات کے لیے انتہائی مہلک ثابت ہوئے، ہر مشکل میں ساتھ دینے والے پاکستان کے دوست ممالک کو ناراض کیا گیا، اب ہم نے ان غلطیوں کی اصلاح اور دو طرفہ تعلقات کی بحالی کا عمل شروع کردیا ہے۔ ہم ہر مشکل فیصلہ کرنے کو تیار ہیں اور ہرممکن وہ کام کریں گے جس سے قومی ترقی کا سفر آگے بڑھ سکے، نااہلی اور کرپشن کی سیاست کا خاتمہ ہو۔

انھوں نے کہا کہ گزشتہ پونے چار سال میں میڈیا اور اظہار رائے کی آزادیاں چھین لی گئیں، صحافیوں، ناقدین اور سیاسی مخالفین کو سخت ترین سزاؤں سے گزارا گیا، پاکستان صحافت اور اظہار رائے کی آزادیوں کے عالمی انڈیکس میں کئی درجے نیچے چلا گیا، حکومت سنبھالتے ہی ہم نے سب سے پہلے سابق حکومت کے اس مجوزہ منصوبے پاکستان میڈیا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کو ختم کر دیا۔

موجودہ حکومت کی جانب سے 45روزہ وقفے کے بعد کے سخت معاشی فیصلوں کا عمل شروع ہونے اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی جمعہ کو ڈالر کی پیش قدمی کسی حد تک رک گئی۔ جس سے ڈالر کے انٹربینک ریٹ 200روپے اور اوپن ریٹ 203 اور 202روپے سے نیچے آگئے۔ یوں روپے کی قدر پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

کرنسی مارکیٹ اور اسٹاک مارکیٹ کے کاروباری حلقوں میں اب یہ توقعات پیدا ہوگئی ہیں کہ آئی ایم ایف فیول سبسڈی ختم کرنے پر پاکستان کو جلد ہی ایک ارب ڈالر جاری کردے گا۔جس کی وجہ سے پاکستان کی مالی پوزیشن بہتر ہوجائے گی اور عالمی برداری اور دیگر مالیاتی اداروں کا اعتماد بڑھے گا۔

گزشتہ روز مقامی صرافہ مارکیٹوں میں جمعہ کو ڈالر کی قدر میں ہونے والی کمی کے باعث فی تولہ اور دس گرام سونے کی قیمتوں میں بالترتیب 2100روپے اور 1800روپے کی کمی واقع ہوئی۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھا کر آئی ایم ایف کی بنیادی شرط پوری ہونے سے پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں جمعہ کو تیزی رہی۔

ادھر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد حسب توقع ٹرانسپورٹرز نے کرائے بڑھا دیے ، نجی ٹرانسپورٹرز کی جانب سے مختلف شہروں کے کرایوں میں 150سے 300روپے تک اضافہ کیاگیاہے۔ مختلف شہروں کو جانے والے مسافر کرایوں میں اچانک اس قدر اضافہ ہونے کی وجہ سے پریشا ن ہو گئے۔

ٹرانسپورٹرز کا موقف ہیکہ تیل کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے ہمارے پاس کرائے بڑھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے اور اگر کرایوں میں اضافہ نہ کیا تو کارروبار بند کرنا پڑے گا۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے ریلوے کے سالانہ مالی اخراجات20ارب سے بڑھ کر23ارب روپے تک ہوجائیں گے۔اس پر حکام نے ریل گاڑیوں کے کرایوں میں20فیصد تک اضافے کی تجویزدی ہے۔

ادھر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں واضح کرتا ہوں کہا کہ اسٹیبلشمنٹ سے کسی ڈیل کے تحت آزادی مارچ ختم نہیں کیا ، اگر اس شام اسلام آباد دھرنے دے کر بیٹھ جاتا تو خون خرابہ ہوجاتا۔ہم نے مذاکرات کے دروازے کھلے رکھے ہیں، کیوں کہ ہم لڑائی نہیں چاہتے، ہم جون میں الیکشن چاہتے ہیں، اگر جون میں الیکشن کے لیے تیار ہیں تو باقی چیزوں پر بات ہوسکتی ہے،آزادی مارچ ختم کرکے واپس جانے کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔

انھوں نے کہا کہ ابھی 6 دن دیے ہیں ، ہمارے پاس بھی وقت ہے اور حکومت کے پاس بھی وقت ہے، اسٹیبلشمنٹ جو نیوٹرل کردار ادا کررہی ہے اس کے پاس بھی وقت ہے،سب سے بہتر طریقہ ہے مذاکرات سے اسمبلیاں تحلیل، نئے الیکشن تک پہنچ جائیں، ہم جون میں الیکشن چاہتے ہیں، اگر جون میں الیکشن کے لیے تیار ہیں تو باقی چیزوں پر بات ہوسکتی ہے، پٹرول کی قیمت آئی ایم ایف کے دباو پر بڑھائی گئی۔

ملک کی معیشت اور سیاست ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔اگر ملک میں سیاسی عدم استحکام رہے گا تو اس کا اثر معیشت پر پڑنا ناگزیر ہے۔ملک کی سیاسی قیادت کو حقائق سے مکمل آگاہی ہے۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت حکومت میں رہ چکی ہیں،مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، تحریک انصاف،ایم کیوایم، جے یو آئی،اے این پی، مسلم لیگ ق،بلوچستان کی تقریباً ساری سیاسی قیادت کسی نہ کسی حوالے سے حکومتوں کا حصہ رہی ہے، اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کوئی سیاسی جماعت اور اس کی قیادت پاکستان کو درپیش مشکلات سے آگاہ نہیں ہے۔سب کو حقائق بھی معلوم ہیں اور ان کی وجوہات کا بھی پوری طرح علم ہے۔

پاکستان کے مسائل کو بڑھانے میں ہر سیاسی جماعت اور سیاسی قیادت نے اپنی اپنی بساط کے مطابق کردار ادا کیا ہے۔اب کوئی سیاسی جماعت اور اس کی قیادت یہ نہیں کہہ سکتی کہ اسے مسائل کا علم نہیں ہے۔ اسی طرح اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے بھی سیاسی قیادت کو اپنے طرز عمل کی اصلاح کی ضرورت ہے۔

سیاسی قیادت کو یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ خرابی اسٹیبلشمنٹ کے اینڈ پر کم ہے جب کہ سیاسی قیادت کے اینڈ پر زیادہ ہے۔ سیاسی قیادت اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا راستہ خود ہموار کرتی ہے۔اگر سیاسی قیادت مضبوط اخلاقی پوزیشن پر کھڑی ہو تو ادارے کسی طرح بھی حدود سے باہر نہیں نکل سکتے ۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔