ایچ ای سی سے غیر تسلیم شدہ جامعات کی ڈگریاں مستند نہیں پشاور ہائیکورٹ
فیصلہ دو رکنی بینچ نے صوابی یونیورسٹی کے قائم مقام رجسٹرار نوید انجم کی جانب سے دائر پٹیشن پر سنایا
پشاور ہائی کورٹ (پی ایچ سی) نے فیصلہ سنایا ہے کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) سے غیر تسلیم شدہ جامعات کی جانب سے تفویض کردہ ڈگریاں 'مستند' نہیں ہیں۔
یہ فیصلہ جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس ابراہیم پر مشتمل دو رکنی بینچ نے صوابی یونیورسٹی کے قائم مقام رجسٹرار نوید انجم کی جانب سے دائر پٹیشن پر سنایا۔
بیرسٹر سید سعد علی شاہ اور منصور ایڈووکیٹ نے ہائر ایجوکیشن کمیشن اور یونیورسٹی آف صوابی کی نمائندگی کی۔ درخواست گزار نے اورینٹ یونیورسٹی کی جانب سے دی گئی اپنی بی بی اے کی ڈگری کی توثیق/دوبارہ تصدیق کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا۔
درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ اس نے اورینٹ یونیورسٹی سے بیچلر مکمل کیا اور بعد میں اس کی بنیاد پر انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنسز اور شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کراچی اور اسلام آباد کیمپس سے بالترتیب ایم بی اے اور ایم ایس کی ڈگریاں حاصل کیں۔
اپنے تجربے اور اعلیٰ قابلیت کی وجہ سے انہیں قائم مقام رجسٹرار مقرر کیا گیا۔ تاہم انہیں اپنی اسناد کی تصدیق کرانے کی ہدایت دی گئی، اورینٹ یونیورسٹی سے حاصل کی گئی بی بی اے کی ڈگری کی ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے تصدیق نہیں کی۔
عدالت کے سامنے اہم سوال یہ تھا کہ کیا ایچ ای سی سے غیر تسلیم شدہ یونیورسٹی کی ڈگری کو درست قرار دیا جا سکتا ہے؟
سوال کا جواب دیتے ہوئے عدالت نے فیصلہ دیا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن آرڈیننس 2002 کے سیکشن 10 کے تحت کمیشن کو قانون اور قواعد کے مطابق کسی بھی یونیورسٹی کو تسلیم کرنے یا الحاق کرنے کا اختیار حاصل ہے تاہم اورینٹ یونیورسٹی کو تسلیم نہیں کیا گیا تھا اس لیے ڈگری جائز قرار نہیں دی جا سکتی۔
پی ایچ سی نے فیصلے میں کہا کہ ایچ ای سی کے طے شدہ معیار پر پورا نہ اترنے والا تعلیمی ادارہ ڈگری جاری نہیں کرسکتا اور ایسی ڈگریوں کا اجرا نہ تو درست ہے اور نہ ہی قابل اعتبار ہے۔
فیصلے میں یہ بھی قرار دیا گیا کہ عدالت ایچ ای سی کے پالیسی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی جسے تعلیمی ادارے کی حیثیت کو ریگولیٹ کرنے کا واحد اختیار حاصل ہے۔