اسٹریٹ کرائم کا عفریت ، ذمے دار کون؟ (دوسرا حصہ)

امتیاز بانڈے  اتوار 9 اکتوبر 2022

کراچی کی آبادی 2021ء کے ایک سروے کے مطابق ایک کروڑ چونسٹھ لاکھ سے زیادہ ہے، جب کہ جولائی دو ہزار بائیس میں کراچی پولیس چیف نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت کراچی میں پولیس کے 63000 (تریسٹھ ہزار) پولیس اہلکار ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔ جب کہ 2017 کے ایک سروے کے مطابق صرف کراچی کے ضلع وسطی میں 43,063 لوگ ایک کلومیٹر کے دائرے میں رہتے ہیں۔

سروے کے مطابق ضلع وسطی نہ صرف کراچی بلکہ پاکستان کاسب سے زیادہ گنجان آبادی والا ضلع ہے۔ یعنی ایک اندازے کے مطابق 260افراد کے لیے ایک پولیس اہلکار متعین ہے ، لیکن ان تریسٹھ ہزار پولیس والوں میں سے کتنے اہلکار سینئر پولیس افسران، بیوروکریٹس اور وزرا اور مشیران کے ساتھ گارڈ ڈیوٹی اور اسکارٹ ڈیوٹیز پر مامور ہیں یہ دریافت طلب ہے اور ایسے اہلکاروں کی ہم پولیس کی اصطلاح میں ineffective یا ’’غیر موثر‘‘ اسٹاف کہتے ہیں یعنی جو ’’ عام آدمی کے لیے کسی کام کے نہیں۔‘‘

پولیس کی موجودہ نفری کا جائزہ لیں تو ایسے بے شمار پولیس اہلکار ملیں گے جو ’’ بے گار‘‘ کی نوکری کر رہے ہیں۔ میں ایسی نوکری کو بیگار ہی کہوں گا جو کوئی پولیس افسر یا اہلکار کسی غیر متعلقہ اور غیر مجاز شخص کے ساتھ صرف اس لیے انجام دے رہا ہو کہ اسے بالا افسر نے اپنے ذاتی تعلقات اچھے کرنے کے لیے کسی بھی غیر متعلقہ شخص کے ساتھ ڈیوٹی کرنے کا حکم دیا ہے۔

ایسے بے شمار پولیس اہلکار ہیں جو ان لوگوں کے ساتھ نوکری کر رہے ہیں کہ جو پولیس گارڈز رکھنے کے مجاز ہی نہیں ہیں۔ حتی کہ ریٹائرڈ افسران کو بھی اب تک پولیس گارڈ اور پولیس کی دیگر مراعات جن میں پولیس وہیکل، سرکاری پٹرول وغیرہ شامل ہیں۔

اگر ہم اس پولیس رولز کا مطالعہ کریں جس کے تحت پولیس کا نظام چلائے جانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے تو کوئی ایسی شق نظر نہیں آتی جس میں ریٹائر ہو جانے والے افسران کو وہی سرکاری مراعات دی جائیں جو وہ دوران سروس لیتے رہے ہیں اور یہ سہولت بھی کسی کی سفارش پر ہی انھیں رولز کو بالائے طاق رکھ کر دی جا رہی ہے۔ گو کہ ماضی میں کئی بار ایسی کوشش کی گئی کہ غیر متعلقہ افراد کے ساتھ منسلک پولیس اہلکاروں کی واپسی کا حکم جاری کیا گیا لیکن صرف چند دن بعد ہی آہستہ آہستہ دوبارہ ان غیر متعلقہ افراد نے اپنے تعلقات کی بنیاد پر اپنی گارڈز واپس بلوا لی، بلکہ کچھ نے تو ایسے آرڈر کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی اور اپنے تعلقات کی بناء پر ان اہلکاروں کو واپس بھیجنے کی زحمت بھی نہیں کی۔

ایسے پرائیویٹ افراد کے ساتھ لمبے عرصے تک نتھی کیے جانے والے پولیس اہلکار دیگر کوئی ڈیوٹی دینے کے لیے تقریبا ناکارہ ہو جاتے ہیں، بلکہ یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ یہ لوگ ان اہلکاروں سے گارڈ ڈیوٹی کے علاوہ دیگر تمام کام بھی کرواتے ہیں۔ میں نے اوپر صرف ایک مثال پیش کی ہے کہ ایک ملزم کو دو پولیس اہلکار اپنی حفاظت میں تھانے پر لے کر آئے تو پھر کیسے ممکن ہے کہ ایسا شخص ان پولیس اہلکاروں کی نمائش کرکے اپنے دیگر ناجائز کام نہیں کرواتا ہوگا؟

جب کسی علاقے میں پولیس کی موجودگی نظر آئے گی تو یقینا جرائم پیشہ افراد بھی اتنے بے وقوف نہیں ہیں کہ وہاں کا رخ کریں۔ ابھی تو انھیں معلوم ہے کہ کسی بھی علاقے میں نکل جائیں، ان کا سامنا بمشکل ہی کسی پولیس موبائل یا دیگر گشت کرنے والے اہلکاروں سے ہوتا ہے ، کیونکہ تھانوں میں اسٹاف نہ ہونے کے برابر ہے، اگر ہم اسٹریٹ کرائم پر قابو پانے کے معاملے میں مخلص ہیں اور کوئی عملی قدم اٹھانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے غیر متعلقہ اشخاص کو فراہم کیے گئے اہلکاروں اور ان تمام یونٹس سے جن کا ذکر میں اوپر کرچکا ہوں اضافی پولیس اہلکاروں کو فوری تبادلہ کرکے ترجیحی بنیادوں پر ان حساس تھانوں میں متعین کیا جائے جہاں چھینا جھپٹی، ڈکیتی اور اسٹریٹ کرائم کی شرح زیادہ ہے تو یقینا ان تھانوں کی حدود میں جرائم کی شرح کم ہوتی نظر آئے گی۔

اس کے علاوہ اسٹاف یا نفری کی کمی پولیس افسران کے ساتھ ڈیوٹی دینے والے اضافی اسٹاف کی تعیناتی کو واپس تھانوں میں بھیج کر بھی پوری کی جاسکتی ہے۔ اضافی سے مراد ایسے اہلکار ہیں جو کسی بھی پولیس افسر کو اس کی مجاز اتھارٹی سے زیادہ تعداد میں دیے گئے ہوں۔ جو میری رائے میں اس وقت سب سے مشکل بلکہ ناممکن کام ہے۔ کیونکہ جب ہم پرائیوٹ اور غیر متعلقہ اشخاص سے نفری واپس نہیں لے سکتے تو پھر کسی کی کیا مجال کہ کسی بھی پولیس افسر کے ساتھ چلنے والے اہلکاروں کا کہیں اور تبادلہ کرسکے۔

اگر ہم مشاہدہ کریں تو ہمیں صرف سترہ اور اٹھارہ گریڈ کے پولیس افسران کے ساتھ انھیں ضابطے کے مطابق دیے جانے والے اہلکاروں کی تعداد سے کہیں زیادہ اہلکار ڈیوٹی دیتے نظر آئیں گے جس کی چنداں ضرورت نہیں، لیکن کیا کیا جائے اس شاہانہ طرز زندگی کا کہ جس میں جب تک آگے پیچھے پولیس کی سائرن بجاتی گاڑیاں اور ان میں موجود اہلکاروں کی فوج ظفر موج نہ ہو ، یہ کیسے پتہ چلے گا کہ بادشاہ سلامت کی سواری آرہی ہے۔

ہمارے موجودہ رویوں سے تو یہی لگتا ہے کہ ہمیں ان معصوم جانوں کے جانے کی کوئی فکر نہیں ہے جو ہر آئے روز اس شہر میں کسی نہ کسی ڈکیتی یا رہزنی کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں، بلکہ ہمیں پولیس کے اعلیٰ افسران اور ان کی فیملیز اور وزرا ء اور مشیران کی شان و شوکت ان معصوم اور بے گناہ جانوں سے زیادہ عزیز ہے۔ ضابطے کے مطابق کوئی بھی سرکاری ملازم اپنی ڈیوٹی کے علاوہ کسی بھی پرائیویٹ کام کے لیے سرکاری وہیکل کا استعمال نہیں کر سکتا ، لیکن یہاں اپنے گھروں کا سودا سلف لانے کے لیے اور پولیس افسران کے بچوں کو اسکول اور کالجز چھوڑ کر آنے کے لیے بھی سرکاری گاڑی کا استعمال کیا جانا معمول کی بات ہے۔

گزشتہ سال پولیس کے ایک اعلیٰ ترین افسر جن کی پوسٹنگ بھی کراچی میں نہیں تھی، کے صاحبزادے نے نشے میں سرکاری جیپ جسے وہ خود چلا رہا تھا، تباہ و برباد کردی ، لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ایک سنجیدہ اور غور طلب بات تھانوں میں تعلیم یافتہ، قانون سے واقفیت رکھنے والے اور ترجیحی طور پر مقامی پولیس افسران کی تعیناتی ہے۔ میں یہاں کسی لسانی یا سیاسی تعصب کی بنیاد پر یہ بات نہیں کہہ رہا، لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اگر ایک ایسا پولیس افسر جس کی تمام سروس کراچی میں رہی ہو، اس کا اندرون سندھ تبادلہ کرکے وہاں کسی تھانے میں ایس ایچ او لگا دیا جائے تو وہ اچھی کارکردگی دکھا سکے گا؟

اسی طرح اندرون سندھ سے کسی افسر کا کراچی تبادلہ کرکے اور اگلے آرڈر میں اسے کسی تھانے کا ایس ایچ او یا ایس ڈی پی او لگا دیا جائے تو اس کو تو علاقے کو ٹھیک طرح سمجھنے میں ہی کافی وقت لگ جائے گا۔ کسی تھانے کے ایس ایچ او کے لیے ا ز حد ضروری ہے کہ وہ اس علاقے کے بارے میں پوری معلومات رکھتا ہو۔اسٹریٹ کرائم اور دیگر کرائم کی روک تھام کے لیے سب سے پہلا اور بڑا مسئلہ نفری اور وسائل کی کمی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔